حدیثِ ربا میں وارد لعنت میں مقروض ک...

Egypt's Dar Al-Ifta

حدیثِ ربا میں وارد لعنت میں مقروض کے ضامن کا شامل ہونا

Question

کیا حدیثِ ربا میں وارد لعنت قرض لینے والے کے ضامن کو بھی شامل ہے؟ میرے ایک ساتھی نے اپنے ایک دوست سے ایک سال کے لیے رقم مانگی، اس شرط پر کہ وہ رقم واپس کرتے وقت اضافہ کرے گا۔ اس نے مجھے کہا کہ میں اس قرض کی ضمانت دوں۔ تو کیا اگر میں ضمانت دوں تو مجھ پر گناہ ہوگا اور میں حدیثِ ربا کی لعنت میں داخل ہوں گا؟ یا میرے ضامن ہونے میں کوئی حرج نہیں؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اپنے ساتھی کو قرض دلوانے کے لیے ضمانت دینا جبکہ آپ کو معلوم ہو کہ اس میں مشروط اضافہ شامل ہے، شرعاً حرام ہے؛ کیونکہ یہ اس گناہ میں تعاون ہے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ ایسا کرنا آپ کو ان وعیدات میں داخل کر سکتا ہے جو احادیثِ نبویہ میں سود کھانے والے اور اس کے معاونین پر لعنت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ البتہ اگر قرض لینے والا واقعی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں ہو، تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی آپ پر ضمانت دینے کی صورت میں کوئی گناہ ہوگا۔

تفصیلات:

شریعتِ اسلامی میں سود کی حرمت کا بیان
سود (ربا) کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے، اور اس کی حرمت قرآنِ مجید، سنتِ نبوی ﷺ اور پوری امت کے اجماع سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ یعنی: اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔ البقرہ: 275۔اسی طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں بچتے رہو۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ‘ جادو کرنا ‘ کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ لڑائی میں سے بھاگ جانا ‘ پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔ "

اور پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ سود حرام ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (جلد 4، صفحہ 3، مطبوعہ مکتبہ القاہرہ) میں فرماتے ہیں: امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ سود حرام ہے۔"

اور شریعتِ اسلامیہ نے نیکی اور تقویٰ پر باہمی تعاون کی ترغیب دی ہے اور گناہ و زیادتی پر تعاون سے منع فرمایا ہے؛ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ یعنی: "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔" [المائدة: 2]۔

امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر جامع البيان (9/490، ط. مؤسسة الرسالة) میں فرمایا: “اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ کا مطلب یہ ہے ﴿عَلَى الْإِثْمِ﴾ یعنی ایسے کاموں پر مدد نہ کرو جن میں اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو ترک کیا جا رہا ہو۔ ﴿وَالْعُدْوَانِ﴾ یعنی دین میں ان حدود سے تجاوز کرنے پر مدد نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہارے اپنے نفس یا دوسروں کے بارے میں مقرر فرمائی ہیں۔

شریعت میں ضمانِ مال کی وضاحت

اگر ضمان (ذمہ داری) مال سے متعلق ہو تو فقہاء کی اصطلاح میں اسے "کفالت" کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ: کفیل کی ذمہ داری کو اصل مقروض کی ذمہ داری کے ساتھ اس طور پر ملانا کہ اصل مقروض پر جو قرض واجب الادا ہے، اس کے مطالبے کا حق مزید مضبوط ہو جائے۔ امام کاسانی حنفی کی بدائع الصنائع (6/10، ط. دار الكتب العلمية)، علامہ حطاب مالکی کی مواهب الجليل (5/96، ط. دار الفكر)، علامہ غزی شافعی کی فتح القريب المجيب (ص: 179، ط. دار ابن حزم)،اور علامہ بہوتی حنبلی کی كشاف القناع (3/423، ط. دار الكتب العلمية)۔

قرض پر اضافہ مشروط کرنے کا حکم

فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ قرض جس میں اضافے کی شرط رکھی جائے، حرام ہوتا ہے، اور وہ اضافہ سود شمار ہوتا ہے؛ لہٰذا نہ تو اس کا شرط رکھنا جائز ہے اور نہ ہی اس کا لینا۔

علامہ ابن مفلح نے اپنی کتاب المبدع (جلد 4، صفحہ 199، دار الكتب العلمية-بیروت) میں فرمایا: ہر وہ قرض جس میں کسی قسم کا اضافہ مشروط ہو، وہ حرام ہے، اس پر اجماع ہے؛ کیونکہ قرض دراصل ایک مہربانی اور نیکی کا معاہدہ ہوتا ہے، اور جب اس میں اضافہ مشروط کیا جائے تو اس کا مقصد بدل جاتا ہے۔"

لہٰذا اگر کوئی شخص کسی سے قرض لیتا ہے اور واپسی کے وقت اس میں اضافہ کی شرط لگاتا ہے، تو یہ اضافہ سود شمار ہوگا اور سخت حرام ہوگا۔ اور جو کوئی بھی ایسے قرض کی تکمیل میں معاونت کرے، جبکہ اسے معلوم ہو کہ اس میں اضافہ شرط ہے، تو وہ بھی گناہگار ہوگا؛ کیونکہ یہ گناہ کے کام میں مدد دینے کے مترادف ہے، اور شریعت نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

سود کی شرط پر مبنی قرض کی ضمانت دینے کا حکم اور اس پر گناہ کا تحقق

اسلام میں تعاون صرف نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں مطلوب ہے، جب کہ سود میں تعاون کرنا ممنوع اور حرام ہے، کیونکہ یہ گناہ پر تعاون ہے۔ امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: ''رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے، اور گواہوں پر لعنت فرمائی، اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔" اس حدیث میں لعنت صرف مذکورہ افراد تک محدود نہیں، بلکہ اس میں ہر قسم کی باطل پر مدد کرنے کی حرمت بیان کی گئی ہے، اور بطریقِ اولیٰ وہ شخص بھی اس میں شامل ہے جس کی طرف سے قرض لینے والے کی مدد — سودی قرض کی واپسی کی ضمانت دے کر — معاہدے کے مکمل ہونے کا سبب بنتی ہو۔

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم (11/26) میں اس حدیث کی شرح میں فرمایا: اس حدیث میں سودی معاملہ کرنے والے دونوں فریقوں کے درمیان بیع نامہ لکھنے اور اس پر گواہی دینے کی حرمت کا صریح بیان ہے ، اور اس میں باطل پر مدد کرنے کی حرمت بھی ہے۔

جب قرض میں کسی عوض کے بغیر اضافی رقم کی شرط رکھی جائے، تو یہ اضافہ باطل اور سود ہوتا ہے، لہٰذا اس کی ضمانت دینا جائز نہیں، کیونکہ اس میں گناہ پر تعاون پایا جاتا ہے، اور گناہ پر تعاون شرعاً حرام ہے۔ اور جو چیز حرام تک پہنچانے والی ہو، وہ بھی حرام ہوتی ہے۔ نیز نہ اصل مقروض پر یہ زائد رقم لازم ہوتی ہے اور نہ ضامن پر، کیونکہ ضامن کی ذمہ داری اصل مقروض کی ذمہ داری کے تابع ہوتی ہے، اور جب اصل مقروض کی ذمہ داری فاسد ہو تو ضامن کی ذمہ داری بھی فاسد سمجھی جاتی ہے۔علامہ سراج الدین ابن نجیم رحمہ اللہ نے "النہر الفائق" میں فرمایا: "الخلاصة" میں آیا ہے کہ شرط پر قرض کی ضمانت دینا حرام ہے۔

علامہ دسوقی رحمہ اللہ نے "حاشیہ علی الشرح الکبیر" میں فرمایا: اگر ضمان میں لی گئی چیز فاسد ہو، مثلاً سود ہو، جیسے کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ فلاں کو ایک دینار دے دو اور وہ تمہیں ایک ماہ بعد دو دینار دے گا، یا دراہم دے کر اس کے بدلے ایک ماہ بعد دینار لے گا، اور میں اس کا ضامن ہوں، تو ایسی ضمانت باطل ہے اور ضامن پر مطلقاً کچھ لازم نہیں آتا۔

لہٰذا سودی قرض کی ضمانت دینے میں گناہ کا دار و مدار خود سودی قرض کے حرام ہونے پر ہے، نہ کہ ضمانت پر، کیونکہ ضمانت بذاتِ خود مباح (جائز) ہے۔ چنانچہ اگر قرض میں حرمت باقی نہ رہے، تو اس کی ضمانت دینے میں بھی کوئی گناہ نہیں ہوگا؛ لہٰذا اگر مقروض سودی قرض لینے پر مجبور ہو، تو اس پر حرمت باقی نہیں رہتی اور اس صورت میں ضامن پر بھی کوئی گناہ نہیں ہوگا، کیونکہ ضامن کا التزام اصل (مقروض) کے التزام کے تابع ہوتا ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾ [الأنعام: 119] (یعنی: مگر جو تم مجبوری کی حالت میں کرو)، اور فقہی قاعدہ ہے: "ضرورتیں ممنوعات کو جائز بنا دیتی ہیں"۔"الأشباه والنظائر" از ابن نجیم، ص 73، دار الكتب العلمية۔

خلاصہ
پیش کردہ تفصیل کی روشنی میں اور سوال میں میں مذکور صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے:  اگر آپ اپنے ساتھی کے لیے صرف اس غرض سے ضامن بنے کہ وہ قرض حاصل کر سکے، حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ قرض سود کی شرط کے ساتھ دیا جا رہا ہے، تو یہ عمل شرعًا حرام ہے، کیونکہ یہ گناہ پر تعاون کے زمرے میں آتا ہے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ اسی بنا پر آپ ان احادیثِ نبویہ کے وعید کا شکار ہو سکتے ہیں جن میں سود کھانے والے اور اس پر تعاون کرنے والوں پر لعنت آئی ہے۔ البتہ اگر قرض لینے والا واقعی مجبور ہو، اور اس کی مجبوری شرعًا معتبر ہو، تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور نہ ہی آپ پر بطور ضامن کوئی حرج یا گناہ ہوگا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas