نقصان کو روکنا حصولِ منفعت پرمقدم ہے
Question
کیا دورِ حاضر میں غیر مسلموں کے خلاف جہاد کرنا مفادات کا باعث ہے جیسے کہ دہشت گرد اور انتہا پسند جماعتیں اس بات کو فروغ دے رہی ہیں؟
Answer
شریعت کے مقررہ اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ "نقصان کو روکنا حصولِ منفعت پرمقدم ہے " یہ اصول بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ لوگوں کے اعمال مفاد اور مفاسد سے خالی نہیں ہوتے، اس لیے صحیح میزان قائم کرنا ضروری ہے، اور ہر چیز کو اس کے نصابِ صحیح میں ڈالا جاۓتاکہ راجح مرجوح سے واضح ہو جائے۔ اصول یہ ہے کہ نقصان کو روکنا حصولِ منفعت پرمقدم ہے اور اس پر کئی دلائل ہیں جن میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {وہ تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ ان سے فرمائیں کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں،آپ فرمائیں جو زائد ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو (البقرہ: 219)۔
اس میں وجہ استدلال یہ ہے کہ شراب اور جوئے میں بعض لوگوں کے لیے فائدے ہونے کے باوجود گناہوں کی کثرت کی وجہ سے انہیں حرام کر دیا گیا ہے۔
فقہاءِ کرام کے ہاں یہ قائدہ مشہور ہے"مفاسد یعنی نقصانات کو روکنا حصولِ فوائد پر مقدم ہے"۔ اور جب نقصان اور فائدے میں تعارض آ جاۓ تو اکثر اوقات نقصان کو مقدم کیا جاتا ہے کیونکہ شریعت مطہرہ نے جائز چیزوں کا جتنا اہتمام کیا ہے اس سے زیادہ ممنوعات پر متنبہ کیا ہے ، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اس کو جتنا ہوسکے بجا لاؤ، اور اگر میں تمہیں کسی کام سے منع کروں، اس سے منع ہو جاؤ۔"
اور اس مروج جہاد میں– اگر فرض کریں کہ یہ اصلی جہاد ہے، کیونکہ اصل میں ان کے افعال خوف پھیلانا اوردہشت گردی ہیں – اکثر وبیشتر مختلف دعوؤں کے تحت یہ لوگ حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں، اور جان بوجھ کر اسلام، اس کے احکام اور اس کے پیروکاروں کی صورت کو مسخ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، اور مسلمانوں پر ایسی جنگیں مسلط ہوتی ہیں جن کی ان میں طاقت نہیں ہے، اور مشاہدے کے مطابق جن کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔