دین میں تشدد۔

Egypt's Dar Al-Ifta

دین میں تشدد۔

Question

دینی امور میں تشدد کا کیا حکم ہے؟ کیا اس کی مثالیں موجود ہیں؟

Answer

تشدد ایک قابل مذمت عمل ہے اور یہ اپنے روایتی معنی میں ماضی میں ظاہر ہوا،قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ تشدد سابقہ ​​اقوام میں ایک فاشسٹ رجحان تھا اور ان کے لیے مصائب و مشکلات کا ایک بلاواسطہ سبب تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں نا حق غلو نہ کرو۔" [المائدہ:77]۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس امت کو انتہا پسندی سے متنبہ فرمایا  اور سابقہ امتوں کے غلو، شدت پسندی اور انتہا پسندی جیسے گناہوں میں نہ پڑنے حکم دیتے ہوۓ ارشاد فرمایا۔ "اپنے آپ پر سختی نہ کرو، ورنہ تم پر سختی کی جاۓ گی، کیونکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی، تو خدا نے ان پر سختی کی پس دیر وکلیساؤں میں انہیں کی باقیات ہیں۔

تشدد کی قدیم مثالوں میں سے ایک مثال قرآن پاک میں بیان گائے والوں کے قصے میں ہے، جو کہ بنی اسرائیل کے تشدد اور ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ کرتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو ان پر واجب تھا کہ دیے گئے حکم کی تعمیل کرتے لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور  اس گائے کی خصوصیات کے مطالبے میں ضد اور تشدد کو ترجیح دی اور جب بھی گائے کی تفصیل بتائی گئی انہوں نے مزید وضاحت طلب کرکے اپنے آپ پر تشدد کیا اور آیات کے آخر میں ہےکہ انہوں نے کہا: { اب تو نے ٹھیک بات بتائی، پھر انہوں نے اسے ذبح کر دیا اور وہ کرنے والے تو نہیں تھے۔} البقرۃ:71۔

اور ان کا یہ کہنا کہ " اب تو نے ٹھیک بات بتائی " ایک ایسا بیان ہے جس میں اللہ تعالی کے رسول سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی بہت بڑی ہرزہ سرائی ہے، کیونکہ انہوں نے آپ علیہ  الصلاۃ والسلام سے جو بھی پوچھا آپ علیہ  الصلاۃ والسلام نے ان کے سامنے حق ہی  بیان کیا تھا۔

Share this:

Related Fatwas