اسلام میں مسجد اقصی کا مقام و مرتبہ...

Egypt's Dar Al-Ifta

اسلام میں مسجد اقصی کا مقام و مرتبہ

Question

اسلام میں مسجدِ اقصی کا کیا مقام ومرتبہ ہے؟

Answer

 

 

 

 

 

 

 

اسلام میں مسجد اقصی کا مقام و مرتبہ

 

 

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد ! اللہ تعالی نے مسلمانوں کے دلوں میں مسجدِ اقصی  کا خاص مقام رکھا ہےکیونکہ یہ مسجد حضور نبی اکرم کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کا قبلہ اول رہی ہے اور اسی مقام کو اللہ تعالی نے اس قدر شرف عطا فرمایا ہے کہ اسے نبی اکرم کی '' اسراء ''  کی انتہا اور آسمانوں کی طرف معراج کی ابتدا بنا دیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)الإسراء: 1( یعنی: ( ہر عیب سے ) پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک  بابرکت بنا دیا ہم نے جس کے گرد ونواح کو تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں  بیشک وہی ہے سب کچھ جاننے والا سب کچھ دیکھنے والا۔

اللہ تعالی نے زمین کے اس حصے کو '' مبارک '' کہا ہے اور اس کی یہ صفت قرآنِ مجید میں کئی جگہ بیان کی ہے؛ ان میں سے ایک مذکورہ آیتِ مبارکہ ہے اور دوسری جگہ اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علی نبینا وعلیہ افضل الصلاۃ واتم السلام کے بارے میں بات کرتے ہوۓ فرمایا:  ﴿وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ)الأنبياء: 71( اور ہم نے نجات دی آپ ( ابراہیم ) کو اورلوط کو اس سرزمین کی طرف ( ہجرت کرنے کا حکم دیا ) جسے ہم نے بابرکت بنا دیا تھا تمام جہان والوں کیلئے۔

اس جگہ پر اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء علی نبینا وعلیھم افضل الصلاۃ واتم السلام کو جمع کیا تھا اور ہمارے پیارے نبی کریم سیدنا محمد مصطفی کو ان سب پر مقدم کیا تھا اور آپ نے ان سب کو اپنی امامت میں نماز پڑھائی تھی؛ تاکہ آپ کی خلافتِ تامہ کا اعلان ہوجائے اور خاتم المرسلین کے ساتھ نبوی گھرانے کی تکمیل ہوجائے؛ اور حضور نبی اکرم نے اس بارے میں فرمایا: ''  إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ، وَيَعْجَبُونَ لَهُ، وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ؟» قَالَ: «فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّين '' متفقٌ عليه من حديث أبي هريرة رضي الله عنه. یعنی: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تیار کیا ہو اور اسے اچھی طرح بنایا ہو اور خوبصورت بنایا ہو مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ہو اور لوگ اسے دیکھنے کیلئے آنے لگیں اور اس کی تعریف کرنے لگیں اور کہیں کہ یہاں اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔

مسجدِ اقصی کے مقام ومرتبہ کے اظہار کیلئے اللہ تعالی کے حبیب نے اسے ان تین مساجد میں سے ایک قرار دیا جن کے علاوہ کسی مسجد کی طرف زیادہ ثواب کی خاطر نماز کی نیت سے رختِ سفر باندھنا جائز نہیں ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: '' لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى '' متفقٌ عليه من حديث أبي هريرة رضي الله عنه. یعنی : رختِ سفر نہ باندھو مگر تین مساجد کی طرف: مسجدِ حرام، مسجدِ رسول اللہ اور مسجدِ اقصی۔

والله سبحانه وتعالى اعلم۔

Share this:

Related Fatwas