عالم المثال کی حقیقت کا بیان

Egypt's Dar Al-Ifta

عالم المثال کی حقیقت کا بیان

Question

سائل نے ایک عالمِ دین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک عالَم ہے جسے "عالم المثال" کہا جاتا ہے، تو اس کی حقیقت کیا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ عالَم المثال ایک ایسا عالَم ہے جو عالَم الاجسام اور عالَم الارواح کے درمیان ہے۔ اس میں ارواح مختلف صورتوں اور اجسام میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ وہی عالَم ہے جس میں عام لوگ خواب کے دوران داخل ہوتے ہیں۔ آئمہ کرام نے عالَم المثال کے بارے میں گفتگو کی ہے، اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر اپنی کتاب "المنجلي في تطور الولي" تحریر کی ہے (ص: 256-260، ط. دار الفكر) ۔ اور اس میں علامہ علاءالدین قونوی سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: "[صوفیاءِ کرام نے عالَم الاجسام اور عالَم الارواح کے درمیان ایک اور عالَم ثابت کیا ہے جسے انہوں نے عالَم المثال کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عالَم اجسام کی دنیا سے زیادہ لطیف اور ارواح کی دنیا سے زیادہ کثیف ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ارواح کے تجسد اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہونے کو عالم المثال سے تعبیر کیا ہے۔ اس پر استدلال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے فرمان[﴿فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا﴾ "پس وہ (فرشتہ) اس کے سامنے ایک مکمل انسان کی صورت میں ظاہر ہوا۔" (مریم: 17)] سے استنباط کیا جا سکتا ہے۔۔۔ اور  آپ نے شیخ القوصی، صاحب کتاب "الوحید فی علم التوحید" سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: اللہ کی صفات پر کوئی پابندی نہیں؛ یہی حضرت عزرائیل علیہ الصلاۃ والسلام ہر گھڑی ان تمام عوالم میں مخلوقات کی روحیں قبض کرتے ہیں، جن کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ حضرت عزرائیل علیہ الصلاۃ والسلام لوگوں کے اعمال کے مطابق مختلف صورتوں میں ان کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں، اور ہر شخص انہیں مختلف شکلوں میں دیکھتا ہے۔ امام تاج الدین سبکی نے "الطبقات الكبرى للشافعية" میں فرمایا: کرامات کی کئی اقسام ہیں… پھر فرماتے ہیں، بائیسویں قسم: مختلف شکلوں میں ظہور پذیر ہونا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جسے صوفیہ 'عالم المثال' کہتے ہیں۔ انہوں نے اسی بنیاد پر ارواح کے تجسد اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہونے کا نظریہ قائم کیا ہے، اور اس پر استدلال کے لیے اللہ تعالیٰ کے فرمان [﴿فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا﴾ مریم: 17] کو پیش کیا۔ پھر علامہ سیوطی نے فرمایا: "ہمارے بیان کردہ موضوع کے شواہد میں سے ایک وہ روایت ہے جسے امام احمد اور امام نسائی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں صبح مکہ میں تھا، اور میں نے سوچا کہ لوگ میری بات کو جھٹلائیں گے''۔ پھر حدیث کا ذکر جاری رکھتے ہوئے فرمایا : لوگوں نے کہا: 'کیا آپ مسجد کی تفصیل بیان کر سکتے ہیں؟' حالانکہ ان میں سے بعض وہ تھے جو وہاں سفر کر چکے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میں مسجد کی تفصیل بیان کرنے لگا اور بیان کرتا رہا، یہاں تک کہ کچھ تفصیلات مجھ پر ملتبس ہو گئیں تو مسجد میرے سامنے لائی گئی، اور میں اسے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ اسے دارِ عقیل یا عقال کے قریب رکھ دیا گیا۔ تو میں اسے دیکھ رہا اور اس کی تفصیل بیان کرتا رہا۔"

امام سیوطی نے کہا: یا تو یہ تمثیل کے قبیل سے ہے، جیسا کہ دیوار پر جنت اور دوزخ کو دیکھنے کا معاملہ ہے، یا پھر طی مکانی یعنی مسافت کو سمیٹنے کا عمل ہے، اور میرے نزدیک یہاں یہی احسن ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ بیت المقدس کے باشندوں نے اس وقت اپنی جگہ سے مسجد کو غائب نہیں پایا تھا۔

اس کی ایک دلیل وہ روایت ہے جو ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن المنذر اور حافظ حاکم نے "المستدرک" میں نقل کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ﴾ (اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا)[يوسف: 24] کے بارے میں فرمایا:'' سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے سیدنا یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام کی تمثیل لائی گئی تھی۔"

ابن جریر نے اسی مفہوم کی روایت سعید بن جبیر، حمید بن عبد الرحمن، مجاہد، قاسم بن ابی بزة، عکرمہ، محمد بن سیرین، قتادہ، ابو صالح، شمر بن عطیہ، اور الضحاک سے بھی نقل کی ہے۔ اور انہوں نے امام حسن بصری رحمہم اللہ سے بھی یہ روایت نقل کی ہے کہ"گھر کی چھت کھول دی گئی تو سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام نے یعقوب کو دیکھا تھا " اور آپ سے یہ الفاظ بھی منقول ہیں: ''آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام کا تمثال دیکھا تھا۔"

ان بزرگوں کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ "مثال" یا "مسافت کا سمٹنا" ثابت ہے، اور یہ ہمارے مسئلے کے لیے ایک عظیم شاہد اور دلیل ہے۔ کیونکہ سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام نے مصر میں رہتے ہوئے اپنے والدِ گرامی سیدنا یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھا، حالانکہ اس وقت سیدنا یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام شام کے علاقے میں تھے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام کو ایک ہی وقت میں دو ایسے مختلف مقامات پر دیکھا گیا جو ایک دوسرے سے بعید تھے، اور یہ بات ان دو اصولوں میں سے ایک کسی کی بنیاد پر ہی ممکن ہو سکتا ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔واللہ اعلم۔

اس سے سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas