شراکت داری میں ایک شریک کا انتظام چلانے کے بدلے اضافی منافع لینے کا حکم
Question
شراکت داری میں ایک شریک کا اپنے لیے اس وجہ سے اضافی منافع کی شرط رکھنے کا کیا حکم ہے کہ اس کے پاس اعلیٰ تجربہ اور مہارت ہے جس کے ساتھ وہ کمپنی کو بہتر طور پر چلائے گا اور سب کے لیے زیادہ منافع حاصل کرے گا؟ کیونکہ میں نے کچھ دوستوں سے مل کر ایک تجارتی کمپنی بنائی ہے، اور تجارت کے میدان میں میری مہارت اور تجربے کی بنیاد پر شراکت داروں نے مجھے انتظامی امور سونپے ہیں۔ میں نے اس شرط پر اتفاق کیا کہ انتظامی ذمہ داریوں کے عوض مجھے دیگر شراکت داروں سے زیادہ منافع دیا جائے، اور انہوں نے اس پر رضا مندی ظاہر کی۔ تو میرے اس اضافی منافع کو لینا میں شرعاً کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
اسلامی شریعت میں شراکت کا مفہوم:
اسلامی شریعت کے مطابق، شراکت ایک ایسا معاہدہ ہے جو دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان طے پاتا ہے، جس میں ہر شریک کو دوسرے کے تصرفات کی اجازت ہوتی ہے اور سب کو اصل مال اور منافع میں برابر کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ عمومی طور پر جائز ہے، اور اس کی اجازت مسلمانوں کے اجماع سے نبی کریم ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک چلی آ رہی ہے، اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
سوال میں ذکر کردہ شراکت کا شرعی جائزہ اور حکم:
سوال میں بیان کردہ شراکت اسلامی فقہ میں "شرکت عنان" کے تحت آتی ہے، جو کہ "عقود کی شراکت" کی ایک قسم ہے۔ فقہاء نے اس کی مختلف تعریفات کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
یہ دو یا زیادہ افراد کے درمیان ایسا اشتراک ہوتا ہے جس میں ہر شریک سرمائے کا ایک مخصوص حصہ فراہم کرتا ہے، اور سب مل کر اس سرمائے سے تجارت کرتے ہیں، اس شرط پر کہ کوئی بھی دوسروں کو تصرف کے حق سے محروم نہ کرے۔ اور اس میں منافع اور نقصان تمام شرکاء کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے لیے درج ذیل مصادر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے:
"المبسوط" از شمس الأئمہ سرخی حنفی (جلد 11، صفحہ 152، طبع دار المعرفة)
"الشرح الكبير" از امام الدردیر مالکی (جلد 3، صفحہ 359، "حاشیہ الدسوقی" کے ساتھ، طبع دار الفكر)
"مغني المحتاج" از خطیب شربینی شافعی (جلد 3، صفحہ 223، طبع دار الكتب العلمية)
"شرح منتهى الإرادات" از علامہ منصور البہوتی حنبلی (جلد 2، صفحہ 208، طبع عالم الكتب)
فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ شرکت عنان جائز ہے، تاہم ان کے مابین اس کی بعض شروط میں اختلاف ہے۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل مصادر کا مطالعہ مفید ہوگا:
"بدائع الصنائع" از امام کاسانی حنفی (جلد 6، صفحہ 58، طبع دار الكتب العلمية)
"المقدمات الممهدات" از ابو الولید ابن رشد قرطبی مالکی (جلد 3، صفحہ 37، طبع دار الغرب الإسلامي)
"مغني المحتاج" از خطیب شربینی شافعی (جلد 3، صفحہ 223)
"كشاف القناع" از شیخ منصور البہوتی حنبلی (جلد 3، صفحہ 581، طبع دار الكتب العلمية)
شرکتِ عنان میں شرکاء کا خسارہ برداشت کرنا:
شرکتِ عنان میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ اگر خسارہ ہوا تو اسے تمام شرکاء اپنے اپنے سرمائے کی نسبت سے برداشت کریں گے۔ اس میں کسی بھی شریک کو دوسرے پر فوقیت دینا جائز نہیں، اور نہ ہی یہ شرط رکھی جا سکتی ہے کہ کوئی شریک اپنی سرمایہ کاری سے زیادہ یا کم نقصان برداشت کرے۔ اگر ایسی شرط رکھی گئی ہو توحنفی اور حنبلی فقہاءِ عظام کے نزدیک یہ شرط باطل ہوگی، لیکن معاہدہ درست رہے گا۔ مالکی اور شافعی فقہاء عظام کے مطابق ایسی شرط معاہدے کو ابتداءً ہی باطل کر دیتی ہے۔ اور خسارے کی تقسیم میں ہر شریک کے سرمائے کی مقدار کو مدنظر رکھا جاتا ہے، کیونکہ فقہاء کے ہاں عمومی قاعدہ یہ ہے کہ نقصان کو سرمائے کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل کتب کو دیکھا جا سکتا ہے:
"حاشية ابن عابدين حنفي على الدر المختار" جلد 4، صفحہ 305، طبع دار الفكر
"الفواكه الدواني" از علامہ نفراوی مالکی جلد 2، صفحہ 121، طبع دار الفكر
"شرح المحلي على منهاج الطالبين" جلد 2، صفحہ 420، مع "حاشيتي قليوبي وعميرة"، طبع دار الفكر
"المغني" از امام ابن قدامہ حنبلی جلد 5، صفحہ 27-28، طبع مكتبة القاهرة
شرکتِ عنان میں کسی شریک کا انتظامی امور کے بدلے اضافی منافع کی شرط لگانے کا حکم
کسی شریک کا شرکتِ عنان میں انتظامی امور انجام دینے کے عوض اضافی منافع لینے کی شرط رکھنا جائز ہے، اور یہ فتویٰ حنفیہ اور حنابلہ کے قول کے مطابق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جیسے سرمایہ سے منافع کا مستحق ہوتا ہے اسی طرح عمل کے ذریعے بھی منافع کا مستحق ہوتا ہے، جیسا کہ مضاربہ میں ہے۔ یہاں عمل کو منافع کے حصول کے لیے ایک مستقل سبب سمجھا جائے گا، اسے سرمایہ سے مشروط نہیں کیا جائے گا۔ شریعت کا یہ اصولی قاعدہ بھی ہے کہ جائز شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''المسلمون على شروطهم إلا شرطًا حرم حلالًا أو شرطًا أحل حرامًا" (مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں، سوائے ایسی شرط کے جو حلال کو حرام یا جو شرط حرام کو حلال کر دے)۔
یہ حدیث امام ابو داود، ترمذی، دارقطنی، بیہقی، اور طبرانی نے اپنی کتب میں روایت کی ہے۔
امام مرغینانی حنفی نے "الهداية" (جلد 3، صفحہ 9، طبع دار إحیاء التراث العربي) میں فرمایا: ''اور یہ جائز ہے کہ دونوں سرمایہ میں برابر ہوں لیکن منافع میں تفاوت ہو"... اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جیسے سرمایہ کی وجہ سے منافع کا مستحق ہوتا ہے اسی طرح عمل کے ذریعے سے بھی منافع کا مستحق ہوتا ہے، جیسا کہ مضاربہ میں ہے۔ اور ممکن ہے کہ ایک شریک زیادہ ماہر، بہتر جاننے والا ہو، زیادہ محنتی، اور زیادہ قوت والا ہو، تو وہ برابر منافع پر راضی نہ ہو۔ اس صورت میں تفاوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔ اور یہ معاہدہ اس لحاظ سے مضاربہ سے مشابہ ہے کہ اس میں ایک شریک دوسرے کے مال پر کام کرتا ہے، اور شرکت سے اس لحاظ سے مشابہ ہے کہ دونوں شریک کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے مضاربہ کی مشابہت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ منافع کی شرط بغیر ضمانت کے جائز ہے، اور چونکہ یہ عقد شرکت سے مشابہ ہے، اس لیے ان دونوں پر کام کرنے کی شرط رکھنے سے معاہدہ باطل نہیں ہوتا۔
امام ابن قدامہ نے "الكافي في فقه الإمام أحمد" (جلد 2، صفحہ 146، طبع دار الكتب العلمية) میں فرمایا: منافع دونوں کے درمیان طے شدہ شرط کے مطابق تقسیم ہوں گے؛ کیونکہ عمل کے ذریعے بھی منافع کا استحقاق ہوتا ہے، اور عمل میں تفاوت ممکن ہے، جیسے کہ ایک شریک کی مہارت اور قوت زیادہ ہو، تو اس کے لیے منافع کا الگ حصہ مقرر کرنا جائز ہے، جیسا کہ مضاربہ میں ہوتا ہے۔
اسی طرح "المغني" (جلد 5، صفحہ 23) میں فرمایا: ''اور منافع وہی ہوگا جس پر دونوں نے اتفاق کیا ہو"، یعنی شرکت کی تمام اقسام میں۔
لہٰذا، شراکت کے معاہدے میں کسی شریک کا انتظامی امور انجام دینے کے عوض اضافی منافع کی شرط رکھنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ تمام شرکاء کے درمیان باہمی رضامندی اور اتفاق سے طے پائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی ضروریات اس طرح کی شرط کا تقاضا کرتی ہیں تاکہ ان کے مفادات پورے ہو سکیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شریک تجارت میں زیادہ تجربہ کار، مواقع کو بہتر سمجھنے والا، اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محنتی ہو، اور وہ اس بات پر راضی نہ ہو کہ اس کا منافع بھی دوسرے شریکوں کے برابر ہو جو کام نہیں کرتے، اس لئے وہ اضافی کام کرنے سے انکار کر سکتا ہے، لہٰذا، منافع میں تفاوت کی شرط رکھنا جائز ہے تاکہ تمام شرکاء کی مصلحتوں کا تحفظ ہو سکے۔
خلاصہ:
اس تفصیل کی بنیاد پر اور سوال کی صورتحال میں: سائل نے اپنے دوستوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرتے وقت جو اتفاق کیا ہے کہ وہ انتظامی امور چلانے کے عوض دیگر شرکاء سے زیادہ منافع لے گا یہ اتفاق شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بشرطیکہ مالی معاملات کے متعلق موجودہ قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی نہ ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
اسلامی شریعت میں شراکت کا مفہوم:
اسلامی شریعت کے مطابق، شراکت ایک ایسا معاہدہ ہے جو دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان طے پاتا ہے، جس میں ہر شریک کو دوسرے کے تصرفات کی اجازت ہوتی ہے اور سب کو اصل مال اور منافع میں برابر کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ عمومی طور پر جائز ہے، اور اس کی اجازت مسلمانوں کے اجماع سے نبی کریم ﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک چلی آ رہی ہے، اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
سوال میں ذکر کردہ شراکت کا شرعی جائزہ اور حکم:
سوال میں بیان کردہ شراکت اسلامی فقہ میں "شرکت عنان" کے تحت آتی ہے، جو کہ "عقود کی شراکت" کی ایک قسم ہے۔ فقہاء نے اس کی مختلف تعریفات کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
یہ دو یا زیادہ افراد کے درمیان ایسا اشتراک ہوتا ہے جس میں ہر شریک سرمائے کا ایک مخصوص حصہ فراہم کرتا ہے، اور سب مل کر اس سرمائے سے تجارت کرتے ہیں، اس شرط پر کہ کوئی بھی دوسروں کو تصرف کے حق سے محروم نہ کرے۔ اور اس میں منافع اور نقصان تمام شرکاء کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے لیے درج ذیل مصادر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے:
"المبسوط" از شمس الأئمہ سرخی حنفی (جلد 11، صفحہ 152، طبع دار المعرفة)
"الشرح الكبير" از امام الدردیر مالکی (جلد 3، صفحہ 359، "حاشیہ الدسوقی" کے ساتھ، طبع دار الفكر)
"مغني المحتاج" از خطیب شربینی شافعی (جلد 3، صفحہ 223، طبع دار الكتب العلمية)
"شرح منتهى الإرادات" از علامہ منصور البہوتی حنبلی (جلد 2، صفحہ 208، طبع عالم الكتب)
فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ شرکت عنان جائز ہے، تاہم ان کے مابین اس کی بعض شروط میں اختلاف ہے۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل مصادر کا مطالعہ مفید ہوگا:
"بدائع الصنائع" از امام کاسانی حنفی (جلد 6، صفحہ 58، طبع دار الكتب العلمية)
"المقدمات الممهدات" از ابو الولید ابن رشد قرطبی مالکی (جلد 3، صفحہ 37، طبع دار الغرب الإسلامي)
"مغني المحتاج" از خطیب شربینی شافعی (جلد 3، صفحہ 223)
"كشاف القناع" از شیخ منصور البہوتی حنبلی (جلد 3، صفحہ 581، طبع دار الكتب العلمية)
شرکتِ عنان میں شرکاء کا خسارہ برداشت کرنا:
شرکتِ عنان میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ اگر خسارہ ہوا تو اسے تمام شرکاء اپنے اپنے سرمائے کی نسبت سے برداشت کریں گے۔ اس میں کسی بھی شریک کو دوسرے پر فوقیت دینا جائز نہیں، اور نہ ہی یہ شرط رکھی جا سکتی ہے کہ کوئی شریک اپنی سرمایہ کاری سے زیادہ یا کم نقصان برداشت کرے۔ اگر ایسی شرط رکھی گئی ہو توحنفی اور حنبلی فقہاءِ عظام کے نزدیک یہ شرط باطل ہوگی، لیکن معاہدہ درست رہے گا۔ مالکی اور شافعی فقہاء عظام کے مطابق ایسی شرط معاہدے کو ابتداءً ہی باطل کر دیتی ہے۔ اور خسارے کی تقسیم میں ہر شریک کے سرمائے کی مقدار کو مدنظر رکھا جاتا ہے، کیونکہ فقہاء کے ہاں عمومی قاعدہ یہ ہے کہ نقصان کو سرمائے کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل کتب کو دیکھا جا سکتا ہے:
"حاشية ابن عابدين حنفي على الدر المختار" جلد 4، صفحہ 305، طبع دار الفكر
"الفواكه الدواني" از علامہ نفراوی مالکی جلد 2، صفحہ 121، طبع دار الفكر
"شرح المحلي على منهاج الطالبين" جلد 2، صفحہ 420، مع "حاشيتي قليوبي وعميرة"، طبع دار الفكر
"المغني" از امام ابن قدامہ حنبلی جلد 5، صفحہ 27-28، طبع مكتبة القاهرة
شرکتِ عنان میں کسی شریک کا انتظامی امور کے بدلے اضافی منافع کی شرط لگانے کا حکم
کسی شریک کا شرکتِ عنان میں انتظامی امور انجام دینے کے عوض اضافی منافع لینے کی شرط رکھنا جائز ہے، اور یہ فتویٰ حنفیہ اور حنابلہ کے قول کے مطابق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جیسے سرمایہ سے منافع کا مستحق ہوتا ہے اسی طرح عمل کے ذریعے بھی منافع کا مستحق ہوتا ہے، جیسا کہ مضاربہ میں ہے۔ یہاں عمل کو منافع کے حصول کے لیے ایک مستقل سبب سمجھا جائے گا، اسے سرمایہ سے مشروط نہیں کیا جائے گا۔ شریعت کا یہ اصولی قاعدہ بھی ہے کہ جائز شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''المسلمون على شروطهم إلا شرطًا حرم حلالًا أو شرطًا أحل حرامًا" (مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں، سوائے ایسی شرط کے جو حلال کو حرام یا جو شرط حرام کو حلال کر دے)۔
یہ حدیث امام ابو داود، ترمذی، دارقطنی، بیہقی، اور طبرانی نے اپنی کتب میں روایت کی ہے۔
امام مرغینانی حنفی نے "الهداية" (جلد 3، صفحہ 9، طبع دار إحیاء التراث العربي) میں فرمایا: ''اور یہ جائز ہے کہ دونوں سرمایہ میں برابر ہوں لیکن منافع میں تفاوت ہو"... اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جیسے سرمایہ کی وجہ سے منافع کا مستحق ہوتا ہے اسی طرح عمل کے ذریعے سے بھی منافع کا مستحق ہوتا ہے، جیسا کہ مضاربہ میں ہے۔ اور ممکن ہے کہ ایک شریک زیادہ ماہر، بہتر جاننے والا ہو، زیادہ محنتی، اور زیادہ قوت والا ہو، تو وہ برابر منافع پر راضی نہ ہو۔ اس صورت میں تفاوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔ اور یہ معاہدہ اس لحاظ سے مضاربہ سے مشابہ ہے کہ اس میں ایک شریک دوسرے کے مال پر کام کرتا ہے، اور شرکت سے اس لحاظ سے مشابہ ہے کہ دونوں شریک کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے مضاربہ کی مشابہت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ منافع کی شرط بغیر ضمانت کے جائز ہے، اور چونکہ یہ عقد شرکت سے مشابہ ہے، اس لیے ان دونوں پر کام کرنے کی شرط رکھنے سے معاہدہ باطل نہیں ہوتا۔
امام ابن قدامہ نے "الكافي في فقه الإمام أحمد" (جلد 2، صفحہ 146، طبع دار الكتب العلمية) میں فرمایا: منافع دونوں کے درمیان طے شدہ شرط کے مطابق تقسیم ہوں گے؛ کیونکہ عمل کے ذریعے بھی منافع کا استحقاق ہوتا ہے، اور عمل میں تفاوت ممکن ہے، جیسے کہ ایک شریک کی مہارت اور قوت زیادہ ہو، تو اس کے لیے منافع کا الگ حصہ مقرر کرنا جائز ہے، جیسا کہ مضاربہ میں ہوتا ہے۔
اسی طرح "المغني" (جلد 5، صفحہ 23) میں فرمایا: ''اور منافع وہی ہوگا جس پر دونوں نے اتفاق کیا ہو"، یعنی شرکت کی تمام اقسام میں۔
لہٰذا، شراکت کے معاہدے میں کسی شریک کا انتظامی امور انجام دینے کے عوض اضافی منافع کی شرط رکھنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ تمام شرکاء کے درمیان باہمی رضامندی اور اتفاق سے طے پائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی ضروریات اس طرح کی شرط کا تقاضا کرتی ہیں تاکہ ان کے مفادات پورے ہو سکیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شریک تجارت میں زیادہ تجربہ کار، مواقع کو بہتر سمجھنے والا، اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محنتی ہو، اور وہ اس بات پر راضی نہ ہو کہ اس کا منافع بھی دوسرے شریکوں کے برابر ہو جو کام نہیں کرتے، اس لئے وہ اضافی کام کرنے سے انکار کر سکتا ہے، لہٰذا، منافع میں تفاوت کی شرط رکھنا جائز ہے تاکہ تمام شرکاء کی مصلحتوں کا تحفظ ہو سکے۔
خلاصہ:
اس تفصیل کی بنیاد پر اور سوال کی صورتحال میں: سائل نے اپنے دوستوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرتے وقت جو اتفاق کیا ہے کہ وہ انتظامی امور چلانے کے عوض دیگر شرکاء سے زیادہ منافع لے گا یہ اتفاق شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بشرطیکہ مالی معاملات کے متعلق موجودہ قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی نہ ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.