خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت مسنون او...

Egypt's Dar Al-Ifta

خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت مسنون اور غیر مسنون اذکار کا حکم

Question

کیا کوئی مخصوص دعا یا ذکر ہے جسے طواف کے دوران پڑھنا مستحب ہو؟ اور کیا طواف میں غیر ماثور الفاظ کے ساتھ دعا کرنا جائز ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛

خانہ کعبہ کے طواف کی فضیلت
خانہ کعبہ کا طواف عبادات میں سے ایک عظیم عبادت اور قربِ الٰہی کے نہایت اعلیٰ ذرائع میں سے ایک ہے، جس پر مسلمان کو بہت بڑا اجر ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ﴾ ''اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔" [الحج: 26]

اور فرمایا: ﴿وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ﴾ ''اور وہ قدیم گھر (خانہ کعبہ) کا طواف کریں۔" [الحج: 29]

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص بیت اللہ کا پچاس مرتبہ طواف کرے، وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے اس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔"
اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

امام فاکہی نے "أخبار مكة" میں حجاج بن ابو رقیہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ اچانک میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا۔ انہوں نے فرمایا: "اے ابن ابو رقیہ! طواف کی کثرت کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''جو شخص اللہ کے اس گھر کا اس قدر طواف کرے کہ اس کے پاؤں تھک جائیں، تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ وہ ان (پاؤں) کو جنت میں راحت عطا فرمائے۔"

طواف کے دوران دعا اور ذکر کرنے کا حکم

طواف ایک عبادت ہے جو خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص ہے، جیسے کہ نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے ادا کی جاتی ہے۔ تاہم، اللہ تعالیٰ نے طواف کے دوران کلام کرنے کی اجازت دی ہے، اور اس عبادت میں سب سے بہترین کلام اللہ تعالی کا ذکر اور دعا ہے۔

جمہور فقہاءِ کرام نے طواف میں ذکر اور دعا کرنے کو مستحب قرار دیا ہے اور اس کے ثبوت میں وہ حدیث پیش کی ہے جسے امام ابوداؤد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بیت اللہ کے طواف، صفا و مروہ کے درمیان سعی، اور جمرات کو کنکریاں مارنے کا مقصد محض اللہ کے ذکر کو قائم کرنا ہے۔" (اور یہ الفاظ سننِ ابوداؤد کے ہیں)

علامہ مَوَّاق مالکی نے "التاج والإكليل" (جلد 4، صفحہ 153، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "(اور دعا کے لیے کوئی حد مقرر نہیں"۔امام قرافی نے کہا: "طواف کی سنتوں میں سے ایک دعا کرنا ہے۔

امام ابن حجر ہیتمی نے "تحفة المحتاج في شرح المنهاج" (جلد 4، صفحہ 88، المكتبة التجارية) میں فرمایا: (اور دعا کرے) یہ مستحب ہے، (جو چاہے) ہر جائز دعا کے ساتھ، چاہے وہ اپنے لیے ہو یا دوسروں کے لیے۔ اور سب سے افضل یہ ہے کہ آخرت سے متعلق دعا پر اکتفا کرے۔ (اور مسنون دعا) ذکر کو بھی شامل ہے؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا اطلاق دوسرے پر بھی ہوتا ہے، طواف کی تمام اقسام میں۔

امام بہوتی حنبلی نے "کشاف القناع" (جلد 2، صفحہ 559، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اور اپنے بقیہ طواف میں ذکر و دعا کی کثرت کرے... کیونکہ یہ (ذکر و دعا) ہر حال میں مستحب ہے، تو جب انسان اس عبادت میں مشغول ہو تو یہ اور بھی زیادہ مستحب ہو جاتا ہے۔

امام ابن قدامہ نے "المغني" (جلد 3، صفحہ 343، مکتبة القاهرة) میں فرمایا:'' طواف کے دوران دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرنا مستحب ہے، کیونکہ یہ ہر حال میں مستحب ہے، تو جب وہ اس عبادت میں مشغول ہو، تو اس کا مستحب ہونا اولیٰ ہے۔

طواف کے دوران سب سے افضل دعا یا ذکر

طواف کے دوران سب سے افضل دعا یا ذکر وہ ہے جو شرعی نصوص میں وارد ہوا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ رکن یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان یہ دعا فرمایا کرتے تھے: (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) ''اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔"

اسے امام احمد، ابن خزیمہ اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اسی طرح نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ''جو شخص بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کرے اور اس دوران صرف یہ کلمات کہے: ''سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ'' تو اس کے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں، اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اس کے دس درجے بلند کیے جاتے ہیں۔"

اسے امام ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سے مروی ہے نبی اکرم ﷺ رکن یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ''اللَّهُمَّ قَنِّعْنِي بِمَا رَزَقْتَنِي، وَبَارِكْ لِي فِيهِ، وَاخْلُفْ عَلَيَّ كُلَّ غَائِبَةٍ لِي بِخَيْرٍ"اے اللہ! جو رزق تو نے مجھے عطا فرمایا ہے، اس پر مجھے قناعت نصیب فرما، اور اس میں برکت عطا فرما، اور جو چیز مجھ سے گم ہو گئی ہے، اس کا مجھے بہترین نعم البدل عطا فرما۔"

اسے امام حاکم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

طواف میں رسول اللہ ﷺ سے منقول دعاؤں اور اذکار کے علاوہ دیگر اذکار یا دعائیں کرنے کا حکم

انسان کے لیے طواف کے دوران ایسے اذکار  کرنا بھی جائز ہے جو نبی اکرم ﷺ سے منقول نہیں، چاہے وہ اپنے الفاظ میں ذکر کرے یا کسی ولی اللہ سے منقول اذکار کو اپنائے۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کا بغیر کسی قید کے مطلق حکم دیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِكُمْ﴾ ''پس جب تم نماز ادا کر لو تو اللہ کو یاد کرو، کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے بھی۔''[النساء: 103]

اور مطلق کو اس کے اطلاق پر ہی رکھا جائے گا جب تک کہ شریعت میں کوئی قید نہ آجائے، اور یہ ایک مقررہ اصول ہے کہ مطلق حکم تمام مقامات، اوقات، اشخاص اور حالات کو شامل ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ شرعی طور پر ثابت شدہ ہے، جسے امت نے قبول کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔

اس کی دلیل حضرت رفاعہ بن رافع زُرَقی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ہم ایک دن نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا: ''سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ"

تو ایک شخص نے پیچھے سے کہا: ''رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ"

جب نبی اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: ''یہ کلمات کس نے کہے؟"

اس شخص نے عرض کیا: "میں نے۔

 آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں نے دیکھا کہ تیس سے زائد فرشتے ان کلمات کو لکھنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت کر رہے تھے کہ ان میں سے کون سب سے پہلے انہیں لکھے گا۔" (صحیح بخاری)

حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری (2/287) میں فرمایا: اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ نماز میں کوئی نیا ذکر کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ منقول (ماثور) ذکر کے خلاف نہ ہو۔"

لہٰذا، جب نماز جیسے اہم مقام پر غیر منقول ذکر جائز ہے، تو نماز سے باہر، جیسے طواف یا دیگر عبادات میں، اس کی گنجائش بدرجہ اولیٰ (اور زیادہ) ہوگی۔

علامہ زین الدین مُناویؒ نے التيسير بشرح الجامع الصغير (1/107) میں فرمایا: (جب تم رعد کی آواز سنو) یعنی جو آواز بادلوں سے سنائی دیتی ہے، (تو اللہ کا ذکر کرو)، جیسے تم کہو: ''سبحان الله الذي يسبح الرعد بحمده '' (پاک ہے وہ اللہ جس کی حمد کے ساتھ رعد تسبیح کناں ہے)، یا اس کے علاوہ کوئی اور ماثور دعا، یا ایسا ذکر جو اس کے معنی میں ہو۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ماثور اذکار میں بھی -جب تک وہ صحیح مفہوم پر مشتمل ہوں- علماء کے مطابق کوئی حرج نہیں۔

خلاصہ

اس بناء پر، اور سوال میں مذکور صورتِ حال کے مطابق: طواف کے دوران دعا اور ذکرِ الٰہی شرعاً مستحب ہے، اور سب سے افضل ذکر وہی ہے جو سنتِ نبویہ میں وارد ہے، جیسا کہ مذکورہ دعاؤں میں بیان کیا گیا۔ تاہم، غیر ماثور اذکار و دعائیں بھی جائز ہیں، چاہے کوئی خود سے وضع کردہ ذکر کرے یا کسی نیک شخص سے منقول دعا  اور ذکر کرے، جو اللہ تعالیٰ کی عطا سے انہیں حاصل ہوا ہو۔

والله سبحانه وتعالى أعلم۔

 

 

Share this:

Related Fatwas