حدیث ’’أتسمع النداء؟ قال: نعم، قال:...

Egypt's Dar Al-Ifta

حدیث ’’أتسمع النداء؟ قال: نعم، قال: فأجب‘‘ میں ’’فأجب‘‘ کا مفہوم

Question

رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے جو آپ ﷺ نے ایک نابینا شخص سے فرمائی، جو مسجد میں نماز پڑھنے کا عادی تھا، لیکن اس نے یہ عذر پیش کیا کہ اسے مسجد لے جانے والا کوئی نہیں ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اُسے پہلے رخصت دے دی، لیکن جب وہ چلا تو آپ ﷺ نے اُسے آواز دی اور پوچھا: ’’کیا تم اذان سنتے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’جی ہاں۔‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’فأجب‘‘ (حاضر ہو جایا کرو/جواب دیا کرو)

سائل یہ جاننا چاہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’فأجب‘‘ فرما کر کیا مراد لی؟ کیا یہ لفظ نابینا شخص کے لیے مسجد میں حاضر ہونے کا حکم ہے؟ یا رسول اللہ ﷺ کا اس لفظ سے کوئی اور مقصد تھا؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر نابینا شخص کے لیے بغیر مشقت کے خود مسجد جانا ممکن نہ ہو، اور کوئی ایسا بھی نہ ہو جو اُسے مسجد تک لے جائے، تو علماء کے نزدیک اس پر جمعے کی نماز واجب نہیں ہوتی۔

امام احمد بن حنبلؒ کے فقہاء کے نزدیک تو یہاں تک ہے کہ اگر وہ شخص آسانی سے خود بھی مسجد جا سکتا ہو، تب بھی اس پر جمعہ فرض نہیں ہوتا۔

امام ابو حنیفہؒ کا کہنا ہے کہ نابینا شخص پر جمعہ واجب نہیں، چاہے کوئی اُسے مسجد تک لے جانے والا موجود ہو۔

جبکہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک اگر اُسے مسجد لے جانے والا کوئی موجود ہو، تو اس پر جمعہ واجب ہے۔

یہ بات جمعہ کی نماز کے بارے میں ہے، جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ کسی آدمی کو لوگوں کی جماعت کرانے کا حکم دوں، پھر ان لوگوں کو جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں، ان کے گھروں سمیت جلا دوں " (اسے امام مسلمؒ نے روایت کیا ہے)۔

اور باقی فرض نمازوں میں جماعت کے بارے میں بھی — باوجود اس کے کہ فقہاء کے درمیان باجماعت نماز کے حکم میں اختلاف ہے: کچھ کے نزدیک یہ فرضِ عین ہے، کچھ کے نزدیک فرضِ کفایہ، اور بعض کے نزدیک سنتِ مؤکدہ جو واجب کے مشابہ ہے — یہی حکم لاگو ہوتا ہے۔

رہی بات اس حدیث کی جس میں رسول اللہ ﷺ نے اُس نابینا شخص سے فرمایا جس نے یہ عذر پیش کیا کہ اس کے پاس مسجد لے جانے والا کوئی نہیں: ''کیا تم اذان سنتے ہو؟ اس نے کہا: "جی ہاں۔"
تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’فأجب‘‘ پس حاضر ہو جایا کرو/پس جواب دیا کرو۔"
تو اس حدیث میں یہ احتمال ہے کہ وہ نابینا شخص درحقیقت مسجد تک پہنچنے کے لیے کسی کی رہنمائی کا محتاج نہ تھا، بلکہ خود ہی راستہ پہچان لیتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ فرمایا ہو جماعت کیلئے آیا کرو۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ "فَأَجِبْ" کا مطلب (پس جواب دیا کرو) ہو کہ مؤذن جو اذان کہہ رہا ہے، تم بھی انہیں الفاظ کے ساتھ جواب دو (یعنی اذان کے الفاظ دہراؤ) — اور یہی مفہوم زیادہ راجح اور قریب تر ہے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اُسے باجماعت نماز میں حاضر نہ ہونے کی رخصت دینے کے بعد یہ سکھایا کہ وہ مؤذن کے ساتھ کس طرح شریک ہو اور اذان کا جواب دے۔
اس بنا پر "فَأَجِبْ" (پس جواب دیا کرو) میں جو امر (حکم) ہے، وہ ندب (استحباب) کے لیے ہے، یعنی بطورِ ترغیب ہے نہ کہ وجوب کے لیے۔ اس کی تائید ان احادیثِ شریفہ سے بھی ہوتی ہے جو مؤذن کو جواب دینے کے بارے میں آئی ہیں۔ اور فقہاء نے بھی فرمایا ہے کہ مؤذن کو جواب دینا مستحب ہے، اگرچہ ان کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ جواب کے الفاظ کیا ہونے چاہییں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas