مرحوم شوہر کے مالی واجبات میں سے، ورثاء میں تقسیم سے قبل بیوی کو مہرِ مؤخر ادا کرنے کا حکم
Question
شوہر کی وفات کے بعد اس کے مالی واجبات میں سے بیوی کا مؤخر مہر ادا کرنے کا کیا حکم ہے، جبکہ ورثاء میں ابھی تقسیم نہیں ہوئی؟ ہم ایک پٹرولیم خدمات کی کمپنی ہیں، اور ہمارے یہاں کام کرنے والے ایک ملازم کا انتقال ہو گیا۔ اس کی بیوی نے کمپنی کو ایک درخواست دی ہے جس کے ساتھ اس کا نکاح نامہ منسلک ہے، جس میں مہرِ مؤخر کی رقم بیس ہزار (20,000) پاؤنڈ درج ہے، نیز وفات اور وراثت کے سرکاری دستاویز بھی منسلک ہے جس میں یہ عورت ایک وارث کے طور پر درج ہے۔
درخواست کا مضمون یہ ہے کہ شوہر کے مالی واجبات میں سے کمپنی اس کی بیوی کو مہرِ مؤخر کی رقم ادا کرے اور وہ بھی ورثاء میں ترکہ کی تقسیم سے پہلے۔اور شوہر کے مالی واجبات میں شامل ہیں: (خالص واجبات یعنی ترکہ، ملازمت کے اختتام پر ملنے والی رقم، سوشل انشورنس سے حاصل ہونے والی رقم، اور جنازے کے اخراجات) ۔ لہٰذا، کمپنی کی آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں واضح شرعی فتویٰ مرحمت فرمائیں، تاکہ کمپنی مہرِ مؤخر کی مذکورہ رقم ترکہ سے منہا کر کے درخواست گزار کو ادا کرے یا نہ کرے ۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر یہ مالی واجبات (جن کا سوال میں ذکر ہے) اس شوہر کے وہ حقوق ہیں جو اس کی زندگی میں ثابت ہو چکے تھے لیکن اس کی وفات تک ادا نہ کیے گئے، تو ایسی صورت میں یہ تمام رقوم اس کا ترکہ شمار ہوں گی۔ پس اگر شوہر کی کوئی اور جائیداد یا مال موجود نہ ہو، اور بیوی نے اپنے مہرِ مؤخر کی رقم نہ تو وصول کی ہو اور نہ ہی اپنے شوہر کو اس سے بری الذمہ کیا ہو، تو بیوی کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مہرِ مؤخر کی رقم شوہر کے ترکہ میں سے، ورثہ میں تقسیم سے پہلے وصول کر لے۔ البتہ اگر مرحوم کے ورثہ میں نابالغ بچے شامل ہوں تو قانونِ ولایتِ مال (Guardianship Law) کے مطابق نابالغوں کے مال کے بارے میں جو قانونی ضوابط مقرر ہیں، ان کی مکمل رعایت ضروری ہے، اور اس کا نفاذ نیابۃ حسبیہ (حکومتی نگران ادارہ برائے نابالغوں کی مالیات) کے ذریعے عمل میں آئے گا۔ اس کے بعد جو ترکہ بچے گا، وہ شرعی ورثہ کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
اگر مرحوم کے پاس ان مذکورہ مالی واجبات کے علاوہ بھی کوئی دیگر جائیداد یا اموال موجود ہوں جو مہرِ مؤخر کے برابر یا اس سے زیادہ مالیت رکھتے ہوں، تو ایسی صورت میں بیوی کا مہرِ مؤخر ان مالی واجبات (جیسے تنخواہ، انشورنس، پنشن وغیرہ) میں سے منہا نہیں کیا جا سکتا، مگر جب تمام ورثاء اس پر متفق ہوں اور رضامند ہو جائیں، یا اس کے لیے کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہو تو جائز ہے۔
اور اگر یہ مالی واجبات ایسے ہوں جو کمپنی اپنے ضابطے (لائحہ) کے مطابق مخصوص افراد کو دیتی ہے، اور ان کا استحقاق مرحوم کی زندگی میں متعین نہ تھا، تو ایسی صورت میں یہ رقوم اس کا شرعی ترکہ نہیں شمار ہوں گی، بلکہ یہ کمپنی کی طرف سے ایک مخصوص رقم ہوگی جو وہ جسے چاہے، اپنے ضابطے کے مطابق دے سکتی ہے، اور اس کی تقسیم کمپنی کی مرضی اور لائحہ کے مطابق ہوگی ۔
تفصیلات:
اوّلًا: شرعًا یہ بات طے شدہ ہے کہ ترکہ اس مال یا حق کو کہا جاتا ہے جو کوئی شخص اپنی وفات کے بعد چھوڑ جاتا ہے۔ مورِّث (مرحوم) کا انتقال ورثاء کے لیے ترکہ میں حق دار بننے کا سبب ہوتا ہے، اور وقتِ وفات وہ حدِ فاصل ہے جو ترکہ اور غیر ترکہ کے درمیان فرق ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ جو کچھ بھی وفات سے پہلے مرحوم کی ملکیت میں ہو، اس میں سے میت کے قرضے اور وصیتیں نکال لینے کے بعد باقی مال ترکہ شمار ہوتا ہے۔ اور جو چیزیں مرحوم کی زندگی میں اس کی ملکیت میں نہ ہوں اور نہ ہی وہ ان کا حق دار ہو، جیسے: مکافأتِ خدمت (End of service benefits) انشورنس کی واجب الادا رقم، اور جنازے کے اخراجات کی مد میں دی جانے والی رقم تو یہ سب چیزیں شرعی طور پر ترکہ میں شامل نہیں ہوتیں؛ بلکہ یہ مرحوم کے خاندان یا کسی مخصوص فرد کو عطیہ کے طور پر دی جاتی ہیں، اور اس کا استحقاق کمپنی یا ادارے کی پالیسی کے مطابق ہوتا ہے، کیونکہ یہ چیزیں مرحوم کی ملکیت میں اس کی زندگی میں داخل نہ تھیں۔
دومًا: مہرِ مؤخر بیوی کے واجب الادا مہر کا حصہ ہے، اور مہر صحیح عقد نکاح کے اثرات میں سے ایک اثر ہے، جو اس کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ اس کا وجوب شریعت کی طرف سے ہے، اس لیے نہ اسے ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عورت کو اس سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ مہرِ مؤخر اس وقت واجب الادا ہو جاتا ہے: جب طلاق بائن واقع ہو جائے، یا رجعی طلاق کے بعد عدت مکمل ہو جائے، یا وفات ہو جائے، ان تینوں میں جو بات پہلے واقع ہو، اسی سے مہر کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن نجیم حنفی نے "البحر الرائق" (جلد 3، صفحہ 190-191، طبع دار الکتاب الإسلامي) میں ذکر فرمایا ہے۔
مہرِ مؤخر عورت کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد ملتا ہے اور یہ ورثاء میں ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے اس میں سے منہا کیا جاتا ہے، کیونکہ مہرِ مؤخر میت کے ذمے واجب الادا قرض شمار ہوتا ہے۔ البتہ یہ قرض ترکہ کے کسی خاص حصے سے وابستہ نہیں ہوتا بلکہ پوری ترکہ سے وابستہ ہوتا ہے، بشرطیکہ ترکہ اس مہرِ مؤخر سے زیادہ ہو، کیونکہ ترکہ کا ہر حصہ اس قرض سے مشغول ہوتا ہے، اور کسی ایک حصے کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا بیوی تمام ورثاء سے اپنے مہرِ مؤخر کا مطالبہ کر سکتی ہے بغیر اس کے کہ وہ ترکہ کے کسی مخصوص حصے کی نشاندہی کرے۔ لیکن اگر ترکہ مہرِ مؤخر کی مقدار سے کم ہو یا برابر ہو، تو بیوی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مہرِ مؤخر کی ادائیگی اسی مخصوص مال سے طلب کرے کیونکہ اس وقت اس مخصوص مال سے ہی اس کا حق متعلق ہوتا ہے۔
امام فخر الدین زیلعی رحمہ اللہ نے "تبيين الحقائق" (5/52) میں فرمایا: "ترکہ کا ہر حصہ قرض سے مشغول ہوتا ہے، کیونکہ ترکہ کے کسی ایک حصے کو دوسرے پر ادائیگی میں ترجیح حاصل نہیں ہوتی۔"
لہٰذا، سوال میں مذکور صورتِ حال کے مطابق: اگر یہ واجبات اُس شوہر کے حقوق میں سے ہیں جو اُسے اُس کی زندگی میں حاصل ہو چکے تھے لیکن اُن کی ادائیگی اس کی وفات کے بعد ہوئی، تو یہ اس کا ترکہ شمار ہوگا۔ اگر اس کے علاوہ شوہر کا کوئی اور مال نہ ہو، اور بیوی نے اپنی زندگی میں مہرِ مؤخر وصول نہ کیا ہو یا اپنے شوہر کو اس سے بری نہ کیا ہو، تو وہ ان واجبات میں سے مہرِ مؤخر لینے کی حق دار ہوگی، لیکن اس میں قانونِ ولایت برائے اموالِ نابالغاں کے تحت مقررہ قانونی طریقہ کار کو ملحوظ رکھا جائے گا، جس کا نفاذ نیابتِ حسبیہ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کے بعد باقی ترکہ کو شرعی ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
اگر مرحوم کے پاس ان واجبات کے علاوہ اور بھی اموال ہوں جو مہرِ مؤخر کے برابر یا اس سے زیادہ ہوں، تو اس صورت میں مہرِ مؤخر کی رقم ان واجبات سے صرف اس صورت میں کاٹی جائے گی جب تمام وارثاء کی اتفاق رائے ہو یا عدالت کا حکم موجود ہو۔
البتہ اگر یہ واجبات کمپنی بعض مخصوص افراد کو اپنی وضع کردہ پالیسی کے مطابق دیتی ہو، اور مرحوم اپنی زندگی میں ان واجبات کا حقدار نہیں ہوتا، تو ایسی صورت میں وہ مرحوم کا ترکہ شمار نہیں ہوں گی، بلکہ ان پر اس شخص کا حق ہوگا جسے کمپنی متعین کرے، اور تقسیم بھی کمپنی کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ یہ حکم اسی صورت میں ہے جب صورتِ حال وہی ہو جیسا کہ سوال میں بیان کیا گیا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.