"المسجد الأقصى" کا یہ نام رکھنے کی ...

Egypt's Dar Al-Ifta

"المسجد الأقصى" کا یہ نام رکھنے کی خصوصیت

Question


کسی غیر عربی ملک کے ایک گاؤں میں کچھ افراد نے نئی مسجد تعمیر کی ہے اور اس کا نام "مسجد اقصیٰ" رکھا، لیکن اس نام پر لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ سائل یہ جاننا چاہتا ہے کہ شرعی طور پر اس نام رکھنے کا کیا حکم ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ مسجد اقصیٰ ان مساجد میں سے ہے جنہیں شریعتِ اسلامیہ میں نمایاں مقام اور مخصوص فضیلت حاصل ہے، اور ان مساجد کو اللہ عزوجل کی طرف سے دیگر تمام مساجد کے مقابلے میں خاص عزت و تقدیس حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ﴾ (بنی اسرائیل: 1) ترجمہ: ''پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے گرد و نواح کو ہم نے برکت دی، تاکہ ہم اُسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے"۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے سفر نہ کیا جائے، ” میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ " (مسند احمد)

جب معاملہ ایسا ہے تو روۓ زمین کی کسی بھی دوسری مسجد کو "المسجد الأقصى" کا نام دینا جائز نہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas