گریجوایشن کی تقریبات منعقد کرنے کا ...

Egypt's Dar Al-Ifta

گریجوایشن کی تقریبات منعقد کرنے کا شرعی حکم

Question

جامعہ میں گریجوایشن کی تقریب منعقد کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے پر گریجوایشن کی تقریب کا انعقاد شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ اس میں اسلامی آداب اور شرعی حدود کا لحاظ رکھا جائے، جن کا مقصد انسان کے افعال و حرکات کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے مطابق قابو میں رکھنا ہوتا ہے۔ جیسے کہ یہ تقریبات اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اظہار کے لیے ہوں، نہ کہ دکھاوا، غرور یا برتری جتانے کے لیے۔ ان تقریبات میں پردے اور حجاب کا لحاظ رکھا جائے، بدن کے ستر کو ڈھانپا جائے، اور کوئی ایسا کام نہ ہو جو شرعاً حرام ہو۔ اسی طرح ان تقریبات میں تعلیمی آداب، اسلامی اخلاقیات، سماجی اقدار اور رائج عرف و روایات کی مکمل رعایت کی جائے۔ اور یہ تقریبات اسی تعلیمی ادارے کے اندر منعقد کی جائیں جہاں سے طلبہ فارغ التحصیل ہوئے ہوں، یا ایسی جگہوں پر ہوں جو اس تعلیمی ادارے کے زیر نگرانی ہوں، جب تک یہ ممکن ہو، تاکہ نظم و ضبط قائم رہے اور اقدار و روایات سے انحراف نہ ہو۔

تفصیلات:

شریعتِ مطہرہ کی جانب سے حصولِ علم کی ترغیب

قرآنِ کریم اور سنتِ نبویہﷺ کے نصوص میں علم حاصل کرنے اور اس کے حصولِ میں کوشش کرنے کی بھرپور ترغیب دی گئی ہے۔ شریعت کے واضح دلائل اس بات پر متفق ہیں کہ علم حاصل کرنا اور سیکھنا ایک عظیم عبادت ہے، اور تقربِ الٰہی کے بہترین ذرائع میں سے ایک ہے۔ یہ عمل عبادت کی نیت سے انجام دیا جائے تو سب سے زیادہ اجروثواب کا باعث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ ترجمہ: "اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا۔" [المجادلة: 11]

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص علم کے حصول کے لیے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ اور فرشتے طالبِ علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اس کی طلبِ علم پر خوش ہو کر۔ اور بے شک آسمانوں اور زمین میں موجود ہر چیز، حتیٰ کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی عالم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ اور ایک عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے بدرِ تمام کی فضیلت تمام ستاروں پر۔ بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے دینار اور درہم کا ترکہ نہیں چھوڑا، بلکہ انہوں نے علم کا ترکہ چھوڑا ہے، تو جس نے اسے حاصل کیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا۔" اس حدیث کو امام احمد، امام ابو داود، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے۔

گریجویشن کی تقریبات کا شرعی حکم

علم کے ساتھ خوشی منانا اور اس پر مسرور ہونا ان عمومی شرعی دلائل میں شامل ہے جو انسان کو کسی نعمت کے حاصل ہونے پر خوشی و مسرت ظاہر کرنے کی اجازت دیتے ہیں، خصوصًا جب یہ خوشی تعلیمی مراحل میں کامیابی یا فراغتِ تعلیم پر ہو، تو یہ انسانی فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ امر ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنا اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنا طالب علم کی زندگی میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے، جو کہ عملی زندگی کا مرحلہ ہے، جس میں وہ اپنی محنت اور کوشش کا پھل حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا﴾ ترجمہ: فرما دیجیے: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ہی کے باعث چاہیے کہ وہ خوشی منائیں۔ [یونس: 58]۔

اسی لیے یہ تقریب جائز خوشی کے دائرے میں آتی ہے، اور اگر انسان اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اظہار کی نیت شامل کر لے، تو یہ ایک عبادت بن جاتی ہے جس پر ثواب ملتا ہے؛ مثلاً: طلبہ کو علم حاصل کرنے کی توفیق ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا، علمِ نافع، امتیاز اور کامیابی پر اللہ کے فضل و احسان کا اظہار کرنا، اور اپنے اندر مزید علم حاصل کرنے اور کوشش کرنے کی تحریک پیدا کرنا، تاکہ اعلیٰ اسناد حاصل کی جا سکیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ ترجمہ: ''اور اپنے رب کی نعمت کا چرچا کرو۔" [الضحى: 11]۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نعمت کو بیان کرنا شکر ہے۔ اس حدیث کو امام احمد، طبرانی نے "المعجم الکبیر" میں، ابن ابی الدنیا نے "کتاب الشکر" میں، اور بیہقی نے "شعب الإيمان" میں روایت کیا ہے۔

اس طرح ''مسلمانوں کے نزدیک نعمتوں کا ذکر کرنا، شکر گزاری کی ایک صورت ہے''۔ یہ روایت حضرت ابو نضرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور اسے ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر (جلد 24، صفحہ 489، طبع: مؤسسۃ الرسالۃ) میں روایت کیا ہے۔

گریجوایشن کی تقریب منانے میں فارغ التحصیل طالب علم کو خوشی اور مسرت پہنچانے کا پہلو بھی شامل ہے، جب اسے اس تقریب میں شریک کیا جاتا ہے، خوشی منائی جاتی ہے، اسے تحفے دیے جاتے ہیں اور حسن سلوک سے نوازا جاتا ہے، نیز باہمی خیرسگالی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ سب امور باہمی تعلق کو مضبوط کرتے ہیں، محبت بڑھاتے ہیں اور دلوں کو جوڑتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عطا بن عبد اللہ خراسانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «تَصَافَحُوا يَذْهَبِ الْغِلُّ، وَتَهَادَوْا تَحَابُّوا وَتَذْهَبِ الشَّحْنَاءُ» ترجمہ: "آپس میں مصافحہ کرو، کینہ دور ہو جائے گا، اور ایک دوسرے کو تحفے دو، آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دل کی رنجشیں ختم ہو جائیں گی۔" اسے امام مالک نے "الموطأ" میں مرسلاً روایت کیا ہے، اور امام بخاری نے "الأدب المفرد" میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: «تَهَادَوْا تَحَابُّوا» ترجمہ: "آپس میں تحفے دو، محبت پیدا ہوگی۔"

طالبِ علم کے لیے سندِ فراغت حاصل ہونے اور اس پر خوشی منانے کا تعلق درحقیقت تعلیم کے حکم کی تعمیل کے ایک مظہر سے ہے، اور یہ علم سے وابستگی کے شرف اور اہلِ علم کی صف میں شامل ہونے کی قدر افزائی کا اظہار ہے۔ اس مفہوم کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابو نعیم نے "حلیة الأولیاء" میں امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: "علم کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ جو اس میں نہیں بھی ہوتا، وہ بھی اس کی نسبت پر خوش ہوتا ہے، اور جہالت کی رسوائی کے لیے یہی کافی ہے کہ جو اس میں مبتلا ہوتا ہے، وہ بھی اس سے بری الذمہ ہونا چاہتا ہے اور اگر اس کی طرف جہل کی نسبت کی جائے تو ناراض ہوتا ہے۔"

اس کے ساتھ ساتھ ان تقریبات میں کئی سال کی مسلسل جاگنے، محنت کرنے اور تعلیم و مطالعہ کی مشقت کے بعد نفس کو راحت پہنچانے کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے، تاکہ کامیاب طالب علم نفسیاتی طور پر اپنی توانائی بحال کر سکے اور اس کے سامنے اپنی عمر اور تعلیمی مرحلے کے لحاظ سے مطلوبہ ہدف اور مقصد کے جلد پورا ہونے کی امید کی کرن روشن ہو۔ یہ ایسی راہ کی نشان دہی بھی ہے جس پر چل کر انسان دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتا ہے، اور یہ اس حکمت کے بھی موافق ہے جس کے تحت اسلام میں عید مشروع کی گئی ہے، کیونکہ عید ایسے اوقات کے بعد آتی ہے جو عبادت، محنت اور اطاعت میں مشغولیت کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ چنانچہ رمضان کے روزے رکھنے والے کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت، اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔" (صحیح بخاری و مسلم، اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔)

گریجوایشن کی تقریبات میں شرعی آداب و ضوابط کی رعایت

گریجوایشن کی تقریبات کو شرعی ضوابط اور آداب کی رعایت کے ساتھ منعقد کیا جانا چاہیے، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں:

  1. ایسی تقریبات اللہ تعالیٰ کی نعمت کے اظہار، اس کی تشہیر اور اس پر شکر کے طور پر ہوں، نہ کہ فخر، ریاکاری یا دوسروں پر بڑائی جتانے کے جذبے کے ساتھ۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے "نیل الأوطار" (8/258) میں فرمایا: اللہ کی نعمت کا اظہار کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے، جیسا کہ اس کے فرمان ﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ (یہ امر ہے اور) اللہ تعالیٰ کا امر جب وجوب کیلئے نہ ہو تو استحباب کیلئے ہوتا ہے، اور یہ دونوں چیزیں اللہ کو محبوب ہیں۔ لہٰذا جس شخص پر اللہ نے اپنی کوئی ظاہری یا باطنی نعمت فرمائی ہو، اسے چاہیے کہ اس نعمت کے اظہار میں ہر ممکن طریقے سے مبالغہ کرے، بشرطیکہ اس اظہار کے ساتھ ریاکاری یا خودپسندی نہ ہو۔

  1. یہ تقاریب کسی بھی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو شریعت میں حرام ہو، جیسے مردوں اور عورتوں کا اختلاطِ فاحش۔
  2. ایسی چیزوں کو دیکھنے سے اجتناب کیا جائے جن کا دیکھنا شرعاً جائز نہیں۔
  3. حجاب اور پردے کا خیال رکھا جائے اور شرمگاہوں کو ظاہر نہ کیا جائے۔
  4. ان تقریبات کے انعقاد میں اُن تدابیر کا لحاظ رکھا جائے جو تعلیمی نظام کے منتظمین اور متعلقہ ماہرین طے کرتے ہیں، تاکہ یہ تقریبات تعلیمی آداب، شرعی اخلاق اور معاشرتی اقدار کے مطابق ہوں۔
  5.  ان تقریبات کو، جہاں تک ممکن ہو، انہی تعلیمی اداروں کے اندر منعقد کیا جائے جہاں سے طلبہ فارغ التحصیل ہو رہے ہوں، یا اُن اداروں کی زیر نگرانی جگہوں پر ہوں؛ تاکہ نظم و ضبط قائم رہے اور رائج اقدار و آداب کی خلاف ورزی نہ ہو۔

چنانچہ اگر ان ضوابط اور آداب کا لحاظ رکھا جائے تو ایسی تقریبات شرعاً جائز ہوں گی، بصورتِ دیگر نہیں۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک ہی عمل اگر کسی خاص نیت سے کیا جائے تو وہ عبادت بن جاتا ہے، اور اگر کسی اور مقصد سے کیا جائے تو وہ عبادت نہیں رہتا۔ " (الموافقات، 3/8، ط. دار ابن عفان)۔

اسی طرح علامہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے "الروح" (ص: 230، ط. دار الكتب العلمية) میں انسان پر مشتبہ ہونے والے باریک فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ایک ہی چیز بظاہر ایک جیسی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، لیکن وہ تعریف کے لائق بھی ہو سکتی ہے اور مذمت کے بھی، جیسے خوشی اور غم، افسوس اور غصہ، غیرت، تکبر، حرص، زیب و زینت، خشوع، حسد، رشک اور جرأت وغیرہ..."

خلاصہ:

خلاصہ یہ ہے کہ: یونیورسٹی کے طلبہ کی گریجوایشن کی تقریبات کا انعقاد شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ ان میں شرعی آداب اور حدود کا لحاظ رکھا جائے، جو انسان کے طرزِ عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے مطابق رکھتے ہیں۔ جیسے: ان تقریبات کا مقصد اللہ کی نعمت کا اظہار ہو، نہ کہ دکھاوا، فخر یا برتری جتانا؛ نیز پردے اور ستر کا مکمل اہتمام ہو، اور کوئی بھی شرعاً حرام چیز ان تقریبات میں شامل نہ ہو، ساتھ ہی تعلیمی آداب، دینی اخلاق اور معاشرتی اقدار کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ بہتر یہ ہے کہ یہ تقریبات انہی تعلیمی اداروں کے اندر ہوں جن سے طلبہ فارغ ہو رہے ہوں، یا کم از کم ایسے مقامات پر ہوں جن کی نگرانی وہی ادارے کریں؛ تاکہ نظم و ضبط قائم رہے اور اقدار و روایات پامال کی خلاف ورزی نہ ہو۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas