حیض کے بعد خون کے دوبارہ آنے کے شرع...

Egypt's Dar Al-Ifta

حیض کے بعد خون کے دوبارہ آنے کے شرعی احکام

Question

حیض کے ختم ہونے کے بعد اگر خون دوبارہ آ جائے تو اس کے کیا شرعی احکام ہوں گے؟ ایک عورت کو معمول کے مطابق پانچ دن حیض آتا ہے، پھر تین دن کے لیے خون بند ہو جاتا ہے، اس کے بعد دو دن کے لیے دوبارہ خون آتا ہے۔ اسے کسی نے بتایا کہ صرف پہلے پانچ دن ہی حیض کے دن شمار ہوں گے، تو کیا نویں اور دسویں دن آنے والا خون بھی حیض شمار ہوگا یا نہیں؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر عورت کی عادت کے مطابق پانچ دن حیض آتا ہے، پھر تین دن خون بند رہتا ہے، اور اس کے بعد نویں اور دسویں دن دوبارہ خون آتا ہے، تو یہ خون بھی حیض شمار ہوگا بشرطیکہ کل ایام (یعنی خون آنے کے دن اور بیچ کے وقفے سمیت) دس دن اور دس راتوں سے زیادہ نہ ہوں، کیونکہ یہی حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت ہے۔ ایسے میں عورت پر نماز، روزہ، جماع اور وہ تمام امور ممنوع ہوں گے جو حائضہ پر حرام ہوتے ہیں۔ البتہ اگر ماہر طبیب یہ بتائے کہ یہ خون حیض کے علاوہ کسی اور طبّی وجہ سے ہے، تو پھر وہ استحاضہ شمار ہوگا، اور ایسی صورت میں اس عورت پر ان امور میں کوئی ممانعت نہ ہوگی جو حائضہ پر ممنوع ہوتے ہیں۔

تفصیلات:

حیض کا مفہوم اور اس سے متعلق احکام کی وضاحت

حيض سے مراد مخصوص وقت میں مخصوص مقام سے ایک مخصوص خون کا بہنا ہے، جو صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ایک طبعی حالت ہے۔ حیض کی حالت میں عورت پر وہ تمام امور حرام ہو جاتے ہیں جو جنابت کی حالت میں حرام ہوتے ہیں، جیسے نماز پڑھنا (اور اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہوتی)، قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا، مصحف کو چھونا یا اٹھانا، طواف کرنا، مسجد میں ٹھہرنا، جماع کرنا، اور روزہ رکھنا (جس کی قضا بعد میں دینا واجب ہوتی ہے، برخلاف نماز کے)۔ البتہ اگر مسجد سے گزرتے وقت ناپاکی کے پھیلنے کا اندیشہ نہ ہو، تو گزرنے کی اجازت ہے، جیسا کہ امام ابن جزَی کی کتاب "القوانين الفقهية" اور امام نووی کی کتاب "منهاج الطالبين" میں ذکر کیا گیا ہے۔

ہر وہ خون جو عورت کے رحم سے خارج ہو، حیض نہیں کہلاتا؛ کیونکہ بعض اوقات رحم سے خون صحت کے طور پر نہیں بلکہ کسی بیماری یا جسمانی خلل کی وجہ سے آتا ہے، اور ایسا خون "استحاضہ" کہلاتا ہے۔ اسی طرح خون اس وقت بھی آتا ہے جب رحم حمل سے خالی ہو جائے، اور اسے "نفاس" کا خون کہا جاتا ہے۔

حنفی فقہ کے مطابق – اور یہی فتویٰ کے لیے راجح قول ہے – حیض کی کم از کم مدت تین دن تین راتیں ہے، اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن دس راتیں ہے۔ اگر خون تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ آئے، تو وہ "استحاضہ" (یعنی بیماری کا خون) شمار ہوگا، نہ کہ حیض۔ یہ قول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور امام حسن بصری اور امام سفیان ثوری -رحمہما اللہ- کا بھی یہی مذہب ہے، نیز امام ابن المبارک سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔ چنانچہ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے، اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن۔"

حضرت ابوامامہ صدی بن عجلان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کنواری لڑکی ہو یا شادی شدہ (ثیب)، حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن۔ پس اگر کوئی عورت دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو وہ مستحاضہ ہے، اور اسے اپنے معمول کے ایام کے علاوہ زائد دنوں کی نمازیں قضا کرنی ہوں گی۔" یہ دونوں روایتیں امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "السنن" میں روایت کی ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: "حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن"۔ امام وکیع رحمہ اللہ نے کہا: "حیض تین سے دس دن تک ہوتا ہے، اور جو اس سے زیادہ ہو تو وہ استحاضہ ہے"۔ یہ روایت امام دارمی اور امام دارقطنی رحمہما اللہ نے "السنن" میں نقل کی ہے۔

نیز امام ترمذی رحمہ اللہ نے سنن ترمذی (1/221) میں مستحاضہ سے متعلق حدیث کے بعد فرمایا: اہلِ علم کا حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت میں اختلاف ہے؛ بعض علماء کرام نے کہا ہے کہ حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن۔ یہ قول سفیان ثوری اور اہلِ کوفہ کا ہے، اور اسی کو ابن مبارک نے بھی لیا ہے، اگرچہ ان سے اس کے خلاف بھی روایت ہے۔"

اور امام بغوی رحمہ اللہ نے "شرح السنۃ" (2/135، طبع المكتب الإسلامي) میں حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کے بارے میں فرمایا: علماء کی ایک جماعت نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن۔ یہ قول حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، امام حسن بصری رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے، اور یہی امام سفیان ثوری اور اہلِ رائے (رحمہم اللہ یعنی فقہاءِ کوفہ) کا مذہب ہے۔"

امام فخر الدین زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے "تبيين الحقائق" (1/55، ط. المطبعة الكبرى الأميرية) میں فرمایا: اور حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے، جیسا کہ حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے... پھر امام حسن کی روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ سے منقول ہے کہ یہ تین دن اور ان کے درمیان آنے والی دو راتیں ہیں، اور ظاہر الرواية کے مطابق تین دن اور تین راتیں ہیں۔ اور حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے، جیسا کہ ہم نے روایت کیا... اور جو اس سے کم ہو یا زیادہ ہو وہ استحاضہ ہے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ظاہر ہے... اور اس لیے بھی کہ شرعی طور پر جو مدت مقرر کی گئی ہے، اس میں کسی اور مدت کو شامل کرنا جائز نہیں۔"

امام علاء الدین حصکفی حنفی رحمہ اللہ نے "الدر المختار" (ص: 43، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اور حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور ان کی راتیں ہیں؛ یعنی تین مکمل دن راتوں سمیت۔ یہاں ’راتوں‘ کا ذکر عدد کو فلکی حساب کے مطابق بیان کرنے کے لیے ہے، مخصوص راتوں کے ساتھ مقید کرنے کے لیے نہیں، لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ انہی دنوں کی راتیں ہوں۔ اسی طرح فرمایا: حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہے، جیسا کہ دارقطنی وغیرہ نے روایت کیا۔ اور جو اس سے کم ہو یا زیادہ ہو، یا نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت سے بڑھ جائے، یا معمول (یعنی عادت) سے تجاوز کر جائے اور دونوں کی زیادہ سے زیادہ مدت سے بھی بڑھ جائے، نیز جو خون ایسی لڑکی دیکھے جو نو سال کی عمر سے کم ہو، یا ایسی عورت جو مایوس ہو چکی ہو (یعنی سنِ یأس کو پہنچ چکی ہو)، یا حاملہ ہو، اگرچہ بچے کی پیدائش کا زیادہ حصہ بھی باہر نہ آیا ہو، تو یہ سب استحاضہ شمار ہوگا۔"

حیض کے ختم ہونے کے بعد خون کے دوبارہ آنے کا حکم:
حنفی فقہ کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر عورت کی کوئی معروف (مقررہ) عادت ہو، تو اس کا حیض اُسی عادت کے مطابق شمار کیا جائے گا، جب تک خون حیض کی کم از کم مدت (تین دن) سے کم نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ (دس دن) سے نہ بڑھے۔ پس اگر خون اس کی معمول کی مدت تک آیا، پھر رک گیا، اور بعد میں دوبارہ آیا اور وہ دس دن کی حد سے نہ بڑھا، تو یہ دوبارہ آنے والا خون بھی حیض شمار ہوگا، اور یہ محض عادت کی تبدیلی شمار کی جائے گی۔ لیکن اگر دوبارہ آنے والا خون دس دن سے بڑھ جائے، تو عورت کو اس کی پچھلی عادت کے دنوں کی طرف لوٹا دیا جائے گا، چنانچہ جتنے دنوں کی اسے عادت تھی وہی حیض شمار ہوگا، اور جو دن زائد ہوں گے وہ استحاضہ (یعنی بیماری کا خون) شمار ہوں گے۔

اور اگر عورت کی کوئی معروف عادت نہ ہو، تو اس کو زیادہ سے زیادہ حیض کی مدت یعنی دس دن کی طرف لوٹا دیا جائے گا، پس اس کی حیض کی مدت دس دن شمار کی جائے گی، اور اس سے زائد خون استحاضہ (بیماری کا خون) ہوگا۔

امام کمال ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ نے "فتح القدیر" میں فرمایا: "اور اگر (خون) دس دن سے زائد نہ ہو، تو سب کا سب خون بالاتفاق حیض ہے۔"
اور امام زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ نے "البحر الرائق" میں فرمایا: "اگر خون عادت سے زیادہ ہو مگر زیادہ سے زیادہ (یعنی دس دن) سے نہ بڑھے، تو سب کا سب خون بالاتفاق حیض شمار ہوگا، بشرطیکہ اس کے بعد پاکی کی صحیح مدت پائی جائے۔"

اور امام ابن عابدین رحمہ اللہ نے "رد المحتار" میں فرمایا: "(قوله: والزائد على أكثره) یعنی: یہ اکثر مدت سے زیادہ ابتدائی حیض والی (جسے پہلے حیض نہ آیا ہو) کے بارے میں ہے، رہی وہ عورت جو معتادہ ہے (یعنی جس کی عادت متعین ہے)، تو اس کے حق میں وہ خون جو اس کی عادت سے زیادہ ہو اور حیض کے معاملے میں دس دن، اور نفاس کے معاملے میں چالیس دن سے تجاوز کر جائے، وہ استحاضہ ہوگا؛ جیسا کہ مصنف نے 'أو على العادة' کہہ کر اس کی طرف اشارہ فرمایا... الخ۔ البتہ اگر خون ان دونوں (یعنی حیض و نفاس) میں زیادہ سے زیادہ مدت سے تجاوز نہ کرے، تو یہ دونوں میں عادت کا انتقال شمار ہوگا؛ پس وہ خون حیض اور نفاس ہوگا۔"

اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ اگر عورت کو پانچ دن حیض آنے کی عادت ہو، پھر تین دن خون بند ہو جائے، پھر دو دن کے لیے دوبارہ خون آ جائے، تو وہ بعد میں آنے والا دو دن کا خون بھی حیض شمار ہوگا؛ کیونکہ وہ حیض کے ایام کے اندر عود کرنے والا خون ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت سے تجاوز نہیں کر رہا۔

قابل اعتماد ڈاکٹر سے رجوع کر کے خون کے دوبارہ آنے کی وجہ معلوم کرنا

اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ عورت کو چاہیے کہ وہ کسی ماہر اور قابل اعتماد ڈاکٹر سے رجوع کرے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ حیض بند ہونے کے بعد دوبارہ خون آنے کی کیا وجہ ہے؛ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ خون کسی طبی وجہ سے واپس آیا ہو جس کا حیض سے کوئی تعلق نہ ہو۔ چنانچہ اگر ڈاکٹر بتائے کہ یہ خون کسی طبی سبب سے آیا ہے اور حیض سے اس کا کوئی تعلق نہیں، تو وہ حيض نہیں ہوگا، اور اگر وہ بتائے کہ یہ حیض ہی کا خون ہے، تو پھر وہ حيض شمار ہوگا۔

خون کے بند ہونے کے بعد دوبارہ آنے پر مرتب ہونے والے احکام

جب خون بند ہونے کے بعد دوبارہ آنے والا خون حیض شمار کیا جائے، تو اس پر وہی تمام احکام لاگو ہوں گے جو حیض کے دوران ہوتے ہیں: عورت نہ نماز پڑھے گی، نہ روزہ رکھے گی، اور نہ ہی اس کے ساتھ ہمبستری جائز ہوگی۔ اور اگر وہ خون استحاضہ شمار کیا جائے، تو عورت پر نماز، روزہ، ہمبستری اور دیگر وہ امور جن سے حیض کی حالت میں رکا جاتا ہے، ترک کرنا لازم نہیں ہوگا۔ البتہ اگر عورت نے استحاضہ کے دنوں میں نماز چھوڑ دی ہو، تو اس پر ان نمازوں کی قضا واجب ہوگی۔

امام بدر الدین عینی حنفیؒ نے "البنایة" (1/664، ط۔ دار الکتب العلمیة) میں فرمایا: اگر عورت کے معمول کے دنوں سے زائد خون آئے لیکن وہ دس دن سے کم ہو، تو اس بارے میں مشائخ کا اختلاف ہے: بلخ کے آئمہ کا موقف یہ ہے کہ عورت کو غسل کرنے اور نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا، کیونکہ یہ زائد ایام حیض اور استحاضہ کے درمیان مشتبہ حالت میں ہوتے ہیں؛ اگر خون دس دن سے پہلے بند ہو گیا تو وہ حیض ہوگا، اور اگر دس دن سے تجاوز کر گیا تو استحاضہ ہوگا، لہٰذا شبہ کی حالت میں نماز کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ بخارا کے مشائخ کا قول یہ ہے کہ عورت کو غسل اور نماز کا حکم نہیں دیا جائے گا، کیونکہ ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ وہ حائضہ ہے، اور حیض کے باقی رہنے کی دلیل -یعنی خون کا جاری رہنا- موجود ہے، لہٰذا جب تک معاملہ واضح نہ ہو، وہ نماز نہ پڑھے۔ اگر خون دس دن سے تجاوز کر جائے، تو پھر اسے اپنے معمول کے دنوں کے بعد کی فوت شدہ نمازوں کی قضا کا حکم دیا جائے گا۔ اور "المجتبى" سے مراد امام نجم الدین مختار بن محمود الزاہدیؒ کی کتاب "المجتبى شرح مختصر القدوري" ہے، جن کا وصال 658ھ میں ہوا۔

امام نوویؒ نے "المجموع شرح المهذب" (2/542، ط۔ دار الفکر) میں فرمایا: مستحاضہ عورت کو قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے، اور اگر وہ وضو کر لے تو اسے مصحف کو چھونے، اسے اٹھانے، اور سجدۂ تلاوت و سجدۂ شکر کی اجازت ہو جاتی ہے، اور اس پر نماز، روزہ اور دیگر تمام وہ عبادات لازم ہوتی ہیں جو ایک پاک عورت پر فرض ہوتی ہیں۔ ان تمام باتوں میں ہمارے نزدیک کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارے اصحاب (یعنی شافعی فقہاء) نے فرمایا: مستحاضہ کے بارے میں جامع قول یہ ہے کہ اس کے لیے بلا خلاف حیض کے احکام میں سے کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ اور ابن جریر نے اجماع نقل کیا ہے کہ مستحاضہ قرآنِ مجید پڑھ سکتی ہے اور اس پر وہ تمام فرائض لازم ہیں جو پاک عورت پر لازم ہوتے ہیں۔

خلاصہ
لہٰذا، سوال کی صورت میں: اگر عورت کی عادت کے آخری دن کے بعد تین دن تک خون بند رہنے کے بعد نواں اور دسواں دن خون آیا ہو، تو جب تک خون دس دن اور راتوں (یعنی زیادہ سے زیادہ حیض کی مدت) سے تجاوز نہ کرے، یہ خون حیض شمار ہوگا۔ اس صورت میں عورت پر نماز، روزہ، جماع اور دیگر تمام وہ امور حرام ہوں گے جو حیض کے دوران ممنوع ہوتے ہیں۔

البتہ اگر کسی ماہر ڈاکٹر نے یہ بتا دیا کہ یہ خون کسی طبی وجہ سے آیا ہے جس کا حیض سے تعلق نہیں، تو پھر یہ خون استحاضہ شمار ہوگا، اور اس کے لیے وہ تمام امور بغیر کسی حرج کے جائز ہوں گے جو حیض کی حالت میں اس پر ممنوع تھے ۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas