شریعتِ اسلامیہ میں لوگوں کی عادات اور عرف کا اعتبار اور اس کی شرائط
Question
ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ یہ واضح کریں کہ لوگوں کی عادات اور عرف کا شریعت کے دلائل میں کس حد تک اعتبار کیا جاتا ہے؟ اور اس کے لیے کون سی شرائط لازم ہیں؟ کیونکہ بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دلیل صرف قرآن و سنت تک محدود ہے۔ لہٰذا آپ سے وضاحت کی گزارش ہے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
عادت کا مفہوم: لغوی اور اصطلاحی تعریف
عادۃ عربی لغت میں: اس طریقہ یا معمول کو کہتے ہیں جو بار بار دہرایا جائے اور جس کی طرف بار بار رجوع کیا جائے۔ اس کا معنی ہے ایسا طریقہ جو انسان کا معمول بن جائے، اور اس کی جمع "عاد"، "عادات" اور "عِید" آتا ہے۔ (لسان العرب، 3/316، طبع دار صادر (
بسا اوقات لفظ "دین" بھی اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے کہ اس سے "عادت" مراد لی جائے، کیونکہ دونوں میں یہ قدرِ مشترک ہے کہ انسان ان دونوں پر ہمیشگی اور التزام کے ساتھ قائم رہتا ہے اور انہی کی طرف اپنے افعال و تصرفات میں رجوع کرتا ہے۔ علامہ ابن منظور نے لسان العرب (13/169) میں فرمایا:
"الدِّينُ: الْعَادَةُ وَالشأْن، تَقُولُ الْعَرَبُ: مَا زالَ ذَلِكَ دِيني ودَيْدَني أَي عَادَتِي"
(یعنی دین کا مطلب عادت اور معاملہ بھی آتا ہے، عرب کہتے ہیں: یہ میرا دین و دیـدن ہے، یعنی میری عادت ہے)۔
اور جو چیز معمول بن جائے، اسے نفس مانوس کر لیتا ہے، کیونکہ اس کا کرنے والا اسے بار بار دہراتا ہے، یعنی اس کی طرف بار بار رجوع کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے: تَعَوَّدَ الشَّيْءَ، یعنی کسی چیز کو عادت بنا لینا، اور عَاوَدَهُ، یعنی اسے بار بار کرنا، مُعَاوَدَةً، عِوَادًا، اعْتَادَهُ، اسْتَعَادَهُ، أَعَادَهُ، سب اسی معنی میں آتے ہیں۔ ابنِ اعرابی نے کہا:
تَعَوَّدْ صالِحَ الأَخْلاقِ إِنِّي
رأيتُ المرءَ يأْلَفُ مَا اسْتَعَادَ
یعنی نیک اخلاق کی عادت ڈالو، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ انسان اسی چیز سے مانوس ہوتا ہے جسے وہ بار بار کرتا ہے (المحكم والمحيط الأعظم، 2/321، طبع دار الكتب العلمية)
اور اصطلاحًا "عادت" عرف کے مترادف ہے، اور اس کی تعریف یہ ہے: وہ معاملہ ہے جو بار بار واقع ہونے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جم جائے اور فطرتِ سلیمہ رکھنے والے افراد کے نزدیک قابلِ قبول ہو، بشرطیکہ وہ چیز بار بار دہرائی گئی ہو، برخلاف اُس کام کے جو اتفاقًا ایک یا دو بار پیش آیا ہو اور لوگوں کا معمول نہ بنا ہو؛ ایسی چیز نہ "عادت" کہلاتی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی شرعی حکم قائم کیا جاتا ہے۔ "عرف" بھی "عادت" کے مترادف کے طور پر آتا ہ۔ ( درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، 1/44، مادہ 36، طبع دار الجيل)۔
شرعی احکام کے اثبات میں عرف کی حجیت
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرمایا: ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾ [الأعراف: 199] ترجمہ: نرمی اختیار کرو، بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ موڑ لو۔'' علامہ ابن النجّار الفتوحی نے شرح الكوكب المنير (ص 599-600، طبع مطبعة السنة المحمدية) میں فرمایا: فقہ کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عادت کو حجت بنایا جاتا ہے، اور یہی فقہاء کے اس قول کا مفہوم ہے: "العادة محكمة"، یعنی شریعت میں اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفًا مروی یہ حدیثِ مبارکہ ہے: "ما رآه المؤمنون حسنًا فهو عند الله حسنٌ" یعنی جس چیز کو اہلِ ایمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہوتی ہے۔ اور امام ابن عطیہ نے آیتِ قرآنی ﴿وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ﴾ کی تفسیر میں فرمایا کہ "عرف" کا مطلب ہے وہ سب کچھ جو انسانی فطرت اور عقل سلیم کے مطابق معروف ہو، اور شریعت اسے رد نہ کرتی ہو۔
امام ابن ظفر نے الينبوع میں فرمایا: عرف وہ ہے جسے عقلمند لوگ اچھا مانیں اور شریعت بھی اسے برقرار رکھے"۔ قرآنِ کریم میں "المعروف" کا جو لفظ بار بار آیا ہے، جیسے فرمانِ الٰہی: ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾ [النساء: 19] یعنی ''عورتوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو''، تو اس سے مراد وہ طور طریقے ہیں جو اس وقت کے لوگوں میں رائج اور متعارف ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرعی احکام ایسے امور پر مبنی ہوتے ہیں جنہیں لوگ اس زمانے میں معمول کے مطابق اپنائے ہوئے ہوتے ہیں، یعنی عرف پر۔ اسی اصول کی نظیر حضور نبی کریم ﷺ کا حضرت ہند رضی اللہ عنہا سے یہ فرمان بھی ہے: (خُذِي وَبَنُوكِ مَا يَكْفِيكِ بِالْمَعْرُوفِ( یعنی: تم اور تمہارے بچے بقدرِ ضرورت معروف طریقے سے (شوہر کے مال سے) لے سکتے ہو''۔ یہاں "بالمعروف" کا مطلب بھی عرف و رواج کے مطابق لیا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت حرام بن محیصہ انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ براء رضی اللہ عنہ کی اونٹنی ایک باغ میں داخل ہو گئی اور اس میں نقصان کر دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ دن کے وقت باغات کی حفاظت ان کے مالکان کے ذمے ہے، اور رات کے وقت مویشیوں کی حفاظت مویشیوں کے مالکان کے ذمے ہے۔ اسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے اور متعدد محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ یہ روایت اس بات کی سب سے واضح دلیل ہے کہ شریعت اسلامی احکام کے اثبات میں عرف و عادت کو معتبر مانتی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں ضمان (نقصان کی تلافی) کا فیصلہ اسی پر مبنی فرمایا جو عادتاً معمول تھا۔ عرف کی عمومی تعریف یہی ہے کہ وہ عمل جس پر کوئی شرعی یا لغوی ضابطہ موجود نہ ہو، لیکن لوگوں کا تعامل اسے ضابطہ بنا دے، جیسے بنجر زمین کو آباد کرنے کا حق ، چوری میں محفوظ مقام (حرز)، دوست کے گھر سے کھانے کا معمول، کسی چیز کا قبضہ سمجھا جانا، امانت رکھوانا، دینا، ہدیہ دینا، غصب کرنا، میاں بیوی کی باہمی زندگی میں معروف طریقہ، یا کرایہ دار کا کسی چیز سے اس طرح فائدہ اٹھانا جیسا کہ عادتاً جائز ہو، وغیرہ۔ ایسے احکام کی مثالیں بے شمار ہیں جو عرف پر مبنی ہیں اور شریعت نے ان کو تسلیم کیا ہے۔
قاعد "العادَةُ مُحَكَّمَةٌ" اور اس کا مفہوم بیان
یہ ایک مشہور شرعی قاعدہ ہے، اور ان پانچ بڑے فقہی قواعد میں سے ایک ہے جن پر علماء کا اتفاق ہے۔ ان پانچ قواعد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلامی فقہ کے تمام مسائل انہی کی طرف لوٹتے ہیں۔"الأشباه والنظائر" از إمام السيوطي (ص: 7، ط. دار الكتب العلمية)۔
اس قاعدے کا مطلب جیسا کہ "درر الحكام" (1/44) میں آیا ہے، یہ ہے کہ چاہے وہ عادت عام ہو یا خاص، شرعی حکم کے ثابت کرنے میں اسے معیار بنایا جائے گا۔ یہ وہی اصول ہے جو 'کتاب الأشباه' اور 'کتاب المجامع' میں ذکر ہوا ہے۔ اور 'محکَّمہ' کا مطلب یہ ہے کہ کسی تنازعے کی صورت میں یہی عادت فیصلہ کن مآخذ شمار کی جائے گی، کیونکہ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس پر شرعی حکم کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔"
عادات اور عرف کو شرعی دلائل میں شمار کرنے کی حد اور اس کی شرائط
امام سیوطی رحمہ اللہ عرف اور عادت کو شرعی احکام کے استنباط میں اہم ذریعہ قرار دیتے ہیں، جو کہ زمانے اور حالات کے مطابق مناسب احکام کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ وہ اپنی کتاب "الأشباه والنظائر" (ص: 90، ط. دار الكتب العلمية) میں ان فقہی فروعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی بنیاد عرف پر ہے، اور فرماتے ہیں: جان لو کہ عادت اور عرف کا اعتبار فقہ میں اتنے مسائل میں کیا گیا ہے جن کی کثرت شمار سے باہر ہے؛ ان میں سے ہیں: حیض کی عمر، بلوغ کی علامات، انزال کی کیفیت، حیض کی ، نفاس اور طہر کی کم سے کم مدتیں ، ان کی غالباً مدتیں اور زیادہ سے زیادہ مقداریں۔ اور "ضبہ" (برتن پر چاندی وغیرہ سے جوڑ لگانا) کے بارے میں قِلّت و کثرت کا معیار، نماز کے منافی افعال، وہ نجاستیں جن کی معمولی مقدار معاف ہے، وضو کی موالات (تسلسل) میں وقت کی درازی یا کمی — ایک قول کے مطابق — اور جمعِ نماز میں ایک نماز کو دوسری پر بنیاد بنانا، خطبہ، جمعہ، ایجاب و قبول کے درمیان فاصلہ، سلام کہنا اور اس کا جواب دینا، عیب کی بنا پر رد کرنے میں تاخیر، ملکیت والی نہروں اور نالوں سے پانی پینے یا جانوروں کو پلانے میں اس عمل کو زبانی اجازت کے قائم مقام سمجھنا، زمین پر گری ہوئی پھلوں کا لینا، چوری شدہ مال کا محفوظ کیا جانا، اور معاطاة (یعنی بغیر زبانی ایجاب و قبول کے صرف تبادلہِ مال) — جیسا کہ امام نوویؒ نے اختیار کیا ہے۔ مزدوروں (کاریگروں) کے معمولات جسے رافعی نے پسند کیا، سواری کے لیے کرائے پر لئے گئے جانور پر زین و پالان کا وجوب، سیاہی، دھاگا، سرمہ—اگر عرف کے مطابق ان کا خرچ کسی پر عائد ہوتا ہو، تو وہی معتبر ہوگا، غصب کی صورت میں قبضہ، ہدیے کے برتن کو واپس کرنا یا نہ کرنا، وہ اشیاء جن کی مقدار یا وزن رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں معلوم نہ تھا تو ان میں شہر کی عرف کو معیار بنایا جائے گا، دن کے وقت مویشیوں کا چرانا اور رات میں محفوظ رکھنا، اور اگر کسی علاقے میں اس کے برعکس عرف ہو تو وہی معتبر ہوگا (صحیح قول کے مطابق)، شک کے دن کا روزہ جس کے لیے کسی شخص کی مستقل عادت ہو، قاضی کا ایسے شخص سے ہدیہ قبول کرنا جس سے پہلے سے تعلق ہو، قبضہ کرنے اور قبضے میں دینا، حمام (غسل خانہ) میں داخل ہونا، قضاۃ و حکام کے دفاتر، بغیر الفاظ کہے مہمان کے لیے پیش کیے گئے کھانے کو کھانا، نشانہ بازی اور دوڑ میں، اگر نشانہ بازوں کی کسی مسافت پر مستقل عادت ہو تو وہی اس پر معیار سمجھی جائے گی، اگر مبارزہ یعنی مقابلہ کرنے والوں کے درمیان امان کی عرفی عادت ہو اور کوئی صریح شرط نہ ہو تو صحیح قول کے مطابق وہ عرفی عادت ہی شرط کے قائم مقام ہوگی، اسی طرح وقف اور وصیت کے الفاظ میں بھی، اور قسموں کے باب میں بھی، جس کی مزید مثالیں آگے آئیں گی۔
اور عادت کو صرف اسی وقت کسی شرعی حکم کے اثبات کے لیے حَکَم (یعنی معیار) بنایا جاتا ہے جب اس مخصوص حکم کے بارے میں کوئی نص (واضح شرعی دلیل) وارد نہ ہو۔ پس جب نص وارد ہو جائے تو اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا اور نص کو چھوڑ کر عادت پر عمل کرنا جائز نہیں؛ کیونکہ بندوں کو نصوص کو بدلنے کا حق نہیں، اور نص عرف سے زیادہ مضبوط ہے؛ کیونکہ عرف بعض اوقات باطل پر مبنی ہو سکتا ہے، جبکہ شارع کی نص باطل پر مبنی نہیں ہو سکتی، لہٰذا قوی دلیل کو چھوڑ کر کمزور پر عمل کرنا درست نہیں۔ البتہ امام ابو یوسف فرماتے ہیں: اگر نص اور عرف میں تعارض واقع ہو تو دیکھا جائے گا کہ آیا نص عرف و عادت پر مبنی ہے یا نہیں؟ اگر نص عرف و عادت پر مبنی ہو تو عرف کو ترجیح دی جائے گی اور نص کو چھوڑ دیا جائے گا، اور اگر نص کسی عرف و عادت پر مبنی نہ ہو تو نص پر عمل کیا جائے گا اور عرف کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ امام ابو یوسف کا یہ موقف یہ نہیں کہ وہ نص کو چھوڑ کر عرف پر عمل کے قائل ہیں، بلکہ ان کا موقف نص کی تاویل کے درجے میں ہے۔ "درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (1/ 44-45)۔
اور اسی بنیاد پر، یہ بات متصور ہے کہ واجب فعل عبادات میں سے بھی ہو سکتا ہے، اور عادات میں سے بھی، جیسے معروف طریقے سے معاشرت (رہن سہن) کو واجب قرار دینا۔ تو یہاں وجوب عبادات کے باب میں داخل نہیں بلکہ معاملات اور عادات کے باب میں سے ہے۔ اور سابقہ وضاحت سے سوال کا جواب بھی معلوم ہو جاتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.