وضو کیلئے پانی سے تر ٹشو (Water Wip...

Egypt's Dar Al-Ifta

وضو کیلئے پانی سے تر ٹشو (Water Wipes) کے استعمال کا حکم

Question

ایک کمپنی وضو کے متعلقہ ایک نئی پروڈکٹ کے بارے میں سوال کر رہی ہے، جس کی ضرورت کئی مواقع پر پیش آتی ہے؛ جیسے کہ جب نمازی مسجد حرام یا مسجد نبوی میں موجود ہوں، یا کسی طویل سفر پر ہوائی جہاز یا بس میں ہوں، تو بعض اوقات کسی نمازی کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، خصوصًا خواتین کا، جس کی وجہ سے انہیں شرمندگی یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ کیونکہ دوبارہ وضو کرنے کے لیے باہر جانا اور پھر جماعت میں شامل ہونا مشکل یا ناممکن ہوتا ہے۔

اس صورتحال کے حل کے لیے ایک مفصل مطالعے کے بعد ہم ایک نئے پروڈکٹ تک پہنچے ہیں جس کا نام "Water Wipes" ہے، یہ ماحول دوست ٹشو کی شکل میں ہوتا ہے جو خود بہ خود تحلیل ہو جاتا ہے اور 100% صاف پانی میں بھگویا گیا ہوتا ہے، اور اسے اچھی طرح پیک کیا گیا ہے۔ ہر پیک میں پانی کی مقدار (60–80 ملی لیٹر) ہے، جو ہماری رائے کے مطابق ایک مکمل شرعی وضو کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ایک نمونہ بھی منسلک ہے۔

تو کیا اس پروڈکٹ کو ان حالات میں وضو کے متبادل کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ وضو کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ پانی اعضاءِ وضو پر بہے، اور صرف ان پر مسح کرنا کافی نہیں ہوتا۔ منادیل (ٹشو) یا اس جیسی دیگر اشیاء سے پانی کی نمی کو اعضاء تک پہنچانا جبکہ وہ اعضاء پر نہ بہے، درحقیقت مسح کہلاتا ہے، غسل نہیں۔ لہٰذا، مذکورہ پروڈکٹ (یعنی پانی سے تر منادیل) کو استعمال کرتے ہوئے، جیسا کہ منسلک نمونے میں ہے، اعضاء پر صرف پونچھنے کے ذریعے وضو کرنا شرعًا فرض غسل کی ادائیگی میں کافی نہیں۔

تفصیلات

اسلام میں طہارت اور صفائی کی عظمت کا بیان

اسلام نے طہارت اور صفائی کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی محبت اور رضا کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلۡمُتَطَهِّرِينَ﴾ ترجمہ: (بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے) [البقرہ: 222]۔

امام شمس الدین قرطبی رحمہ اللہ "الجامع لأحكام القرآن" (3/91) میں فرماتے ہیں: ''المتطهرون": یعنی وہ لوگ جو جنابت اور دیگر ناپاکیوں سے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرتے ہیں۔

نماز پڑھنے والے کے لیے حدثِ اصغر سے طہارت کا اصل حکم

شرعی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص نماز پڑھنا چاہے، اس کے لیے حدثِ اصغر سے طہارت کا اصل طریقہ وضو ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ" ترجمہ: (جس شخص کا وضو ٹوٹ جائے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ وضو نہ کر لے۔) [متفق علیہ]۔

امام شمس الدین خطیب شربینی رحمہ اللہ "مغني المحتاج" (1/149) میں لکھتے ہیں: [قبول] کا لفظ کبھی ثواب کے حاصل ہونے کے لیے بولا جاتا ہے اور کبھی اس بات کے لیے کہ عمل شرعًا درست واقع ہوا ہے، اور یہاں دوسرا معنی مراد ہے اس پر اجماع سے قرینہ موجود ہے، پس مطلب یہ ہوا: وضو کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی

وضو کے لیے پانی والے ٹشو (Water Wipes) کے استعمال کا حکم

سوال میں مذکورہ ٹشو باریک کپڑے سے بنے ہوتے ہیں، جن میں جذب کرنے اور پانی کو محفوظ رکھنے کی اعلیٰ صلاحیت ہوتی ہے، اور یہ صاف پانی میں بھگوئی ہوئی ہوتی ہیں، جس کی مقدار ایک پیکٹ میں تقریباً 80 ملی لیٹر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ انہیں اس طرح پیک کیا جاتا ہے کہ وہ خشک یا گندے نہ ہوں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب پانی تک رسائی مشکل ہو، مثلاً پانی کا دور ہونا، یا شدید ہجوم ہونا، یا کوئی اور رکاوٹ ہو، تو ان کا استعمال وضو کے لیے کیا جائے؛ جیسا کہ طویل سفر کے دوران ٹرانسپورٹ میں یا حرم کے صحنوں میں پیش آنے والی صورتحال میں ہوتا ہے، جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے، اور سائل کی طرف سے دیے گئے نمونے (sample) میں بھی یہی چیز دیکھی گئی ہے۔

اور یہ بات شرعاً طے شدہ ہے کہ وضو کے اعضا—یعنی چہرہ، دونوں ہاتھ کہنیوں تک، اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک—میں فرض "پانی سے دھونا" ہے، سوائے سر کے، کہ اس میں صرف "مسح" پر اکتفا کیا جاتا ہے؛ جیسا کہ امام علاء الدین کاسانی حنفی کی کتاب بدائع الصنائع (1/21، دار الكتب العلمية)، امام دسوقی مالکی کی حاشية على الشرح الكبير (1/85، دار الفكر)، امام نووی شافعی کی منهاج الطالبين (ص 12-13، دار الفكر)، اور امام برہان الدین ابن مفلح حنبلی کی المبدع في شرح المقنع (1/91-92، دار الكتب العلمية) میں مذکور ہے۔

غَسل (دھونا) لغوی طور پر پانی کے بہنے کو کہا جاتا ہے، جیسا کہ علامہ تھانوی نے "کشاف اصطلاحات الفنون" میں بیان کیا ہے۔

فقہاء کی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ وضو کے اعضا پر غسل سے مراد یہ ہے کہ ان پر پانی بہایا جائے اور وہ ان سے گزرے، اور یہ بہاؤ اور جاری ہونا غَسل (دھونا) کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے۔ اگر پانی صرف چھو جائے اور بہے نہیں تو وہ غسل نہیں بلکہ مسح شمار ہوتا ہے، کیونکہ مسح محض پانی کے جلد سے لگنے کو کہتے ہیں۔ بلکہ حنفی فقہاء کی ظاہر الروایہ کے مطابق تو یہاں تک شرط ہے کہ اعضا سے پانی ٹپکے۔ امام علاء الدین کاسانی نے "بدائع الصنائع" میں فرمایا ہے کہ غَسل کا مطلب ہے پانی کو عضو پر بہانا، جبکہ مسح کا مطلب ہے پانی کا لگ جانا۔ اس لیے اگر کسی نے وضو کے اعضا کو اس طرح دھویا کہ پانی بہا نہیں بلکہ تیل وغیرہ کی طرح استعمال کیا، تو ظاہر الروایہ کے مطابق یہ جائز نہیں، اگرچہ امام ابو یوسف سے اس کے جواز کی روایت بھی منقول ہے۔

امام زین الدین ابن نجیم حنفی نے اپنی کتاب "البحر الرائق" میں فرمایا ہے کہ "غسل" (غین کے زبر کے ساتھ) لغت میں کسی چیز سے میل کچیل کو پانی بہا کر زائل کرنے کو کہتے ہیں، اور شرعی مفہوم کے بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کا کہنا ہے کہ غسل کا مطلب یہ ہے کہ پانی بہے اور اعضا سے ٹپکے۔ شیخ علیش مالکی نے "منح الجلیل" میں فرمایا کہ شرط یہ ہے کہ پانی عضو کے شروع سے آخر تک بہے۔ امام نووی شافعی نے "روضۃ الطالبین" میں بیان کیا کہ وضو کے اعضا کو دھونے میں پانی کا بہنا شرط ہے۔ امام ابن قدامہ حنبلی نے "المغنی" میں فرمایا کہ واجب غسل ہے، اور اس کی کم از کم مقدار یہ ہے کہ پانی عضو پر بہے۔

جہاں تک امام ابو یوسف حنفی سے منقول یہ بات کہ وضو کے اعضا دھونے میں پانی کے بہنے کی شرط نہیں، تو یہ بات اپنے ظاہر پر محمول نہیں، بلکہ فقہی کتابوں میں اس کی وضاحت، تاویل اور امام کا اصل مدعا بیان کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اُن کے نزدیک اس چیز سے وضو جائز ہے جس سے اگرچہ پانی جلدی نہ بہے، لیکن عضو پر پانی کی ایک یا دو بوند کا بہنا حاصل ہو جائے، جیسے برف کے پگھلنے کی حالت میں ہوتا ہے، چاہے وہ بہاؤ دھونے کے وقت سے کچھ دیر بعد ہو، اور اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ اعضاء پر پانی کے بہنے کی شرط بالکل ختم کر دی گئی ہو۔

امام ابن عابدین نے "رد المحتار" میں فرمایا: اگر کسی نے برف سے وضو کیا اور اس سے کوئی قطرہ نہ ٹپکا، تو وضو جائز نہیں۔ ابو یوسف سے منقول ہے کہ محض عضو کو تر کر دینا کافی ہے، چاہے پانی بہے یا نہ بہے۔ لیکن یاد رہے کہ انہوں نے بھی، دیگر فقہا کی طرح، پانی کے بہنے کے ساتھ ساتھ ٹپکنے کی صراحت کی ہے، اگرچہ سِیلان (بہنا) کی تعریف یہی ہے کہ پانی ٹپکے، لیکن تاکیداً دونوں کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس روایت سے احتراز کی طرف توجہ دلائی جا سکے۔ مزید یہ کہ "الحلیۃ" میں "الذخیرہ" وغیرہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ اس روایت کی تاویل یہ ہے کہ عضو سے ایک دو قطرے بہے ہوں، لیکن یہ فوری طور پر نہ بہے ہوں، بلکہ کچھ تاخیر سے ٹپکے ہوں۔ لہٰذا اس صورت میں تقاطر (کچھ قطرے ٹپکنا)کے ساتھ سَیلان (بہنا) کا ذکر اس حالت سے احتراز کے لیے ہوگا جس میں بوند گرے ہی نہیں یا فوراً نہ گرے۔ پس سمجھ لیجئے۔

غسل کی صحت کے لیے شرط ہے کہ پانی عضو پر بہے (یعنی جاری ہو)، محض عضو کا تر ہونا کافی نہیں، اور جمہور فقہاء کے نزدیک یہی معنی شرعی غسل کا ہے۔ ہاں، اگر سائل چیز جیسے نرم برف سے عضو کو دھویا جائے، جس سے فوراً قطرات نہ ٹپکیں لیکن کچھ دیر بعد ٹپکیں تو وہ بھی کافی ہوگا، بشرطیکہ پانی واقعًا بہا ہو، نہ کہ صرف تر کیا گیا ہو۔"

اور اس کی مثال، جسے امام ابو یوسف نے جائز قرار دیا ہے حالانکہ اس میں فوراً بوند نہیں ٹپکی، یہ ہے کہ: برف کو مکمل پگھلنے سے پہلے استعمال کیا جائے، جبکہ اس میں نرمی موجود ہو، اور اس سے پانی کا بہاؤ (سیلان) حاصل ہو جو سورج کی گرمی یا وضو کرنے والے کے جسم کی حرارت کے سبب پیدا ہو۔

امام نووی رحمہ اللہ نے "المجموع" (1/81، دار الفكر) میں فرمایا: "اگر برف یا اولے کو پگھلانے سے پہلے استعمال کیا جائے، تو اگر شدید گرمی، جسم کی حرارت اور برف کی نرمی کی وجہ سے وہ عضو پر بہنے لگے، تو صحیح قول کے مطابق وضو درست ہے، اور اسی پر جمہور کا فتویٰ ہے؛ کیونکہ اس صورت میں عضو پر پانی کا بہاؤ حاصل ہو جاتا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ وضو درست نہیں، کیونکہ اسے 'غَسل' (دھونا) نہیں کہا جاتا۔"

پس مذکورہ بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وضو میں اعضا پر پانی کا بہنا (جریان) شرط ہے، البتہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر پانی کا بہاؤ فورًا نہ ہو بلکہ کچھ تاخیر سے ہو تو کیا وہ کافی ہے۔

اسی طرح، وضو کی سنتوں میں سے (مضمضہ) یعنی کلی  کرنا اور (استنشاق) یعنی ناک میں پانی ڈالنا بھی ہے، بلکہ بعض فقہاء نے ان دونوں کو وضو کے واجبات میں شمار کیا ہے، یہاں تک کہ ان کے بغیر وضو مکمل اور صحیح نہیں ہوتا۔

امام نووی رحمہ اللہ نے "المجموع" (1/ 362-363) میں فرمایا: "مضمضہ (کلی کرنا) اور استنشاق (ناک میں پانی ڈالنا) وضو اور غسل میں سنت ہیں، یہی ہمارا مذہب ہے... دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ دونوں وضو اور غسل میں واجب ہیں اور ان کے بغیر وضو اور غسل صحیح نہیں ہوتے، یہ ابن ابی لیلیٰ، حماد، اسحاق، امام احمد سے مشہور روایت، اور عطا رحمہم اللہ کا قول ہے۔"

جہاں تک نرم کپڑے یا باریک رومال کے ذریعے پانی اعضاءِ وضو تک پہنچانے کا تعلق ہے—جیسے سوال میں بیان ہوا—تو صرف اس طرح اعضاء پر کپڑا پھیرنے سے پانی کا بہنا اور جاری ہونا حاصل نہیں ہوتا، خواہ وہ پانی کچھ دیر بعد ہی کیوں نہ ٹپکے، بلکہ یہ طریقہ شرعی طور پر "غسل" کے بجائے "مسح" شمار ہوگا، چاہے ایک عضو پر کئی بار وہ کپڑا پھیر لیا جائے۔ چنانچہ اس سے شرعی غسل حاصل نہیں ہوگا، اور اسی طرح مضمضہ اور استنشاق جیسی سنن کا ادا کرنا بھی اس طریقے سے ممکن نہیں۔

اس کے علاوہ، وضو میں ان اعضاء کی طہارت کے لیے جن کا دھونا واجب ہے، صرف مسح پر اکتفا کرنا کافی نہیں ہوتا؛ کیونکہ شریعت میں مسح کو غسل کے قائم مقام صرف اس وقت قرار دیا گیا ہے جب کوئی زخم ہو یا کسی بیماری کی وجہ سے عضو دھونا ممکن نہ ہو۔ اور وہ بھی صرف اسی جگہ تک محدود ہوتا ہے جہاں واقعی عذر موجود ہو، نہ کہ پورے عضو یا دیگر اعضاء پر۔ جیسا کہ یہ بات امام شرنبلالی حنفی کی کتاب "مراقي الفلاح" (ص 63، دار الكتب العلمية، مع حاشیہ طحطاوی)، امام شهاب الدین نفراوی مالکی کی "الفواكه الدواني" (1/163، دار الفكر)، امام شمس الدین خطیب شربینی شافعی کی "مغني المحتاج" (1/256، دار الكتب العلمية)، اور امام ابن قدامہ حنبلی کی "المغني" (1/205) میں وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔

علامہ ابن بزیزہ نے اپنی کتاب روضۃ المستبین فی شرح کتاب التلقین (1/174، دار ابن حزم) میں فرمایا:
"اور صرف مسح پر اکتفا کرنا درست نہیں؛ کیونکہ چہرے میں فرض 'غسل' ہے، 'مسح' نہیں۔"

اور علامہ ابو الحسنات لکھنوی نے عمدۃ الرعایۃ بتحشیۃ شرح الوقایۃ (1/474، دار الكتب العلمية) میں فرمایا:
"مسح کا ثبوت اور اس کا غسل کے قائم مقام ہونا خلافِ قیاس ہے، لہٰذا صرف اتنی ہی اس کی اجازت دی جائے گی جتنی شریعت میں وارد ہوئی ہے۔"

خلاصہ

اس بنا پر، اور سوال میں مذکور صورت حال کے مطابق: جن اعضا کا دھونا فرض ہے وضو کے صحیح ہونے کے لیے ان پر پانی کا بہنا شرط ہے اور صرف ان پر مسح کرنا کافی نہیں۔ اور پانی بہاۓ بغیر گیلے ٹشو وغیرہ کے ذریعے پانی کی صرف نمی پہنچانا شرعاً "مسح" شمار ہوتا ہے، نہ کہ "غسل" یعنی دھونا۔ لہٰذا- نمونہ کے لئے دیے گئے جیسے-  گیلے ٹشو کو وضو کیلئے استعمال کرنا اور انہیں اعضائے وضو پر پھیرنا شرعاً فرض غسل (دھونا کو ادا کرنے کے لیے کافی نہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas