جلی ہوئی میت کو غسل دینے کا حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

جلی ہوئی میت کو غسل دینے کا حکم

Question

کیا جلی ہوئی میت کو غسل دیا جائے گا؟ اور کیا اس کی جسمانی حالت کے پیش نظر اسے غسل نہ دینے کی کوئی شرعی اجازت ہے؟ اگر غسل ممکن نہ ہو تو شرعی متبادل کیا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ جلی ہوئی میت کو غسل دینے کا حکم اس کے جسم کی حالت پر موقوف ہے۔ اگر میت کا جسم سلامت ہو اور بغیر نقصان پہنچائے اسے دھونا اور پورے بدن پر پانی بہانا ممکن ہو، تو اسے دیگر میتوں کی طرح مکمل غسل دیا جائے گا۔ اور اگر پانی کے محض چھونے سے ہی میت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو پھر حکم تیمم کی طرف منتقل ہو گا، یعنی ہتھیلیوں کے اندرونی حصے کو کسی بھی ایسی پاک چیز پر مارا جائے جو زمین کی جنس سے ہو، جیسے پاک مٹی، پتھر، سنگِ مرمر وغیرہ۔ پہلی ضرب کے ساتھ میت کے چہرے پر مسح کیا جائے گا، اور دوسری ضرب سے دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک۔ اگر میت کا کچھ حصہ سلامت ہو اور کچھ حصہ ایسا ہو جس پر پانی پہنچانے سے نقصان ہو، تو جو حصہ دھونا ممکن ہو، اسے دھویا جائے گا، اور جنا اعضاء کو پانی سے نقصان پہنچ سکتا ہو، ان أعضاء کی طرف سے تیمم کیا جائے گا۔ اگر غسل اور تیمم دونوں ناممکن ہوں، جیسے میت کا جسم شدید طور پر جل کر کوئلہ بن گیا ہو، یا تیمم کی جگہ باقی نہ رہی ہو یا اس جیسی کوئی اور صورت پیش آ جائے، تو ایسی حالت میں غسل اور تیمم دونوں ساقط ہو جاتے ہیں۔ اور میت کو اسی حالت میں کفن دینا، اس پر نماز جنازہ پڑھنا اور دفن دینا کافی ہوگا۔ یہ سب میت کی تکریم، اس کے جسم کی حفاظت، اسے مزید نقصان یا بگاڑ سے بچانے کیلئے اور جنازے اور تدفین کے امور انجام دینے والوں کی آسانی کی خاطر ہے۔

تفصیل:

میت کو غسل دینے کا حکم

اسلامی شریعت نے انسان کو ہر حالت میں عزت و تکریم عطا کی ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا﴾ ترجمہ: "اور ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و تری میں سواری دی، اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی۔"  ]بنی اسرائیل: 70 [
اسی تکریم کے مظاہر میں سے ایک یہ ہے کہ شریعت نے میت کو کفن دینے، اس پر نماز جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے سے پہلے غسل دینا لازم قرار دیا ہے۔ یہ ایک فرضِ کفایہ ہے جو سنت متواترہ اور امت کے اجماع سے ثابت ہے، اور یہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق بھی ہے۔ اس کی دلیل میں یہ روایت بھی آئی ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو غسل دیا اور ان کے بیٹوں سے فرمایا: "هَذِهِ سُنَّتُكُمْ يَا بَنِي آدَمَ فِي مَوْتَاكُمْ" یعنی: "اے اولادِ آدم! یہی تمہارا طریقہ ہے اپنے مُردوں کے ساتھ۔" اسے امام طبرانی (اور انہی کے الفاظ ہیں) اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے، جب ایک مُحرِم شخص کو اونٹنی نے گرا دیا (اور وہ فوت ہوگیا) تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو" یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے متفق علیہ ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ نے "المجموع" (5/128) میں فرمایا: "میت کو غسل دینا مسلمانوں کے اجماع کے مطابق فرض کفایہ ہے۔ اور فرض کفایہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ اس فرض کو ادا کر لیں تو باقیوں سے گناہ ساقط ہو جاتا ہے، لیکن اگر سب ہی چھوڑ دیں تو سب گناہگار ہوں گے۔ جان لو کہ میت کو غسل دینا، کفن دینا، اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا سب فرض کفایہ ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں"۔

اورغسل کی کم از کم مقدار یہ ہے کہ میت کے جسم کو ایک مرتبہ مکمل طور پر پانی سے دھویا جائے، بشرطیکہ اگر کوئی نجاست ہو تو پہلے اسے زائل کر دیا جائے۔ جیسا کہ "روضۃ الطالبین" (2/99) میں آیا ہے۔
اس اصولی حکم — کہ میت کو غسل دینا واجب ہے — کا اطلاق اس صورت میں ہوتا ہے جب میت کا جسم سلامت ہو۔ لیکن جب موت غیر طبعی حالات میں واقع ہوئی ہو، جیسے کہ کسی شخص کا جل کر فوت ہونا، یا کسی ایسے شدید زخم یا چوٹ کی وجہ سے جان جانا جس سے جسم کا حال بگڑ گیا ہو، تو ایسی صورتوں میں یہ حکم اپنی اصل حالت پر باقی نہیں رہتا، بلکہ میت کے جسم کی حالتِ وفات کے بعد جو کیفیت ہو، اس کے مطابق حکم میں فرق آ جاتا ہے۔

ایسی جلی ہوئی میت کو غسل دینے کا حکم جسے بلا ضرر غسل دینا ممکن ہو

اگر جلنے کے سبب فوت ہونے والے شخص کو بغیر کسی ضرر یا تکلیف کے پانی سے غسل دیا جا سکتا ہو، تو اسے مکمل طور پر غسل دینا واجب ہے، جیسے دیگر تمام میتوں کو دیا جاتا ہے، اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے؛ کیونکہ یہ شرعی طور پر طے شدہ اصل حکم ہے کہ ہر مسلمان میت، جو معرکۂ قتال میں شہید نہ ہو، اُس کا غسل واجب ہے، اور جب تک غسل دینے کی قدرت موجود ہو اور کوئی شرعی یا جسمانی مانع نہ ہو، اس اصل حکم سے عدول نہیں کیا جا سکتا۔
امام ابو الحسن عمرانی رحمہ اللہ نے البيان (3/86) میں فرمایا: شیخ ابو حامد نے فرمایا ہے: باقی تمام شہداء، جیسے جو جل کر، یا ڈوب کر، یا پیٹ کی بیماری، یا عمارت کے نیچے دب کر فوت ہوئے، تو انہیں بلا اختلاف غسل دیا جائے گا اور ان پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی ؛ کیونکہ حدیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے، اور وہ مسلمان ہے جس کی موت کفار کے ساتھ میدانِ جنگ میں نہیں ہوئی، اس لیے اس کا غسل اور نمازِ جنازہ واجب ہے، جیسے وہ شخص جس کی موت ان بیماریوں کے علاوہ کسی اور سبب سے ہوئی ہو۔"
اسی طرح امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغني (2/399) میں فرمایا: اور وہ شہید جسے قتل نہ کیا گیا ہو، جیسے پیٹ کی بیماری والا، چھری وغیرہ سے مارا گیا، یا ڈوب کر، یا عمارت کے نیچے دب کر فوت ہونے والا، یا نفاس کی حالت میں فوت ہونے والی عورت—تو ان سب کو غسل دیا جائے گا اور ان پر نماز پڑھی جائے گی، اور اس میں ہمیں کسی کا اختلاف معلوم نہیں۔"

ایسی جلی ہوئی میت کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے جسے غسل دینا ممکن نہ ہو

اگر جلنے کے سبب وفات پانے والے شخص کو غسل دینا یا اس کے تمام بدن پر پانی پہنچانا ممکن نہ ہو، مثلاً پانی کے استعمال سے گوشت گلنے، جسم کے ٹکڑے ہونے یا جلد اُترنے کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں غسل کے بجائے تیمم کیا جائے گا؛ تاکہ میت کے جسم کی حرمت محفوظ رہے اور اُسے اسی حالت میں دفن کیا جائے۔ اور اس لئے کہ میت کو غسل دینا ایک طہارتِ بدنی ہے، جیسے زندہ شخص پر وضو یا غسلِ جنابت فرض ہوتا ہے۔ اور جس طرح زندہ شخص کو پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرتاہے، اسی طرح میت کو بھی تیمم کرایا جائے گا جب پانی سے ضرر کا اندیشہ ہو۔

امام بابرتی رحمہ اللہ نے العناية شرح الهداية (10/520) میں فرمایا: اگر کسی کو غسل دینا ممکن نہ ہو، مثلاً پانی موجود نہ ہو، تو اس کو پاک مٹی سے تیمم کر دیا جائے گا۔"

امام دردير رحمہ اللہ الشرح الكبير (1/410) میں ان احوال کی وضاحت کرتے ہوئے جن میں میت کو تیمم کرایا جاتا ہے، فرماتے ہیں: اور اگر جسم کے ٹکڑے ہونے (یعنی: اعضا کے جدا ہونے) یا جلد کے اترنے کا اندیشہ ہو، تو غسل دینا حرام ہو جاتا ہے، ایسی دونوں صورتوں میں میت کو تیمم کرایا جائے گا، اور تیمم کہنیوں تک کرایا جائے گا۔ اور اگر زخم والے شخص پر پانی ڈالنا ممکن ہو تو اس پر پانی ڈالنا جائے گا ، بشرطیکہ اعضا کے الگ ہونے یا جلد کے اترنے کا خوف نہ ہو، مثلاً چیچک زدہ یا اس جیسے کسی اور مرض میں مبتلا شخص پر،  بشرطیکہ ایسا کرنے سے اس کے جسم کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو تیمم کرایا جائے گا۔"

امام خطیب شربینی رحمہ اللہ مغني المحتاج (2/46) میں لکھتے ہیں: اور جس شخص کو غسل دینا ممکن نہ ہو، مثلاً پانی نہ ہو یا وہ جل گیا ہو... تو غسلِ جنابت پر قیاس کرتے ہوۓ اسے وجوباً تیمم کرایا جائے گا، اور اسے غسل نہیں دیا جائے گا تاکہ اس کا جسم اسی حالت میں محفوظ کر کے دفن کیا جا سکے۔"

امام بُہوتی رحمہ اللہ نے کشاف القناع (2/102، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اور جس میت کو غسل دینا ممکن نہ ہو، مثلاً پانی میسر نہ ہو یا کوئی دوسرا عذر ہو—جیسے جل جانا، یا جذام (کوڑھ) یا جسم کا کٹ جانا—تو اس کو تیمم کرایا جائے گا، کیونکہ میت کو غسل دینا ایک بدنی طہارت ہے، اور جب اس پر قدرت نہ ہو تو تیمم اس کا قائم مقام ہوتا ہے، جیسے جنابت میں ہوتا ہے۔ اور پھر تیمم کے بعد اس کو کفن دیا جائے گا اور اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، جیسے دیگر میتوں پر پڑھی جاتی ہے۔"

اس شخص کے تیمم کا طریقۂ کار جو جل کر فوت ہوا ہو اور اسے غسل دینا ممکن نہ ہو

تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہتھیلیوں کے اندرونی حصے سے زمین کی جنس کی کسی بھی چیز -جیسے پاک مٹی، پتھر، سنگ مرمر یا اسی قسم کی کوئی اور چیز- پر دو بار مارا جائے۔
پہلی ضرب سے میت کے چہرے کا مسح کیا جائے اور دوسری ضرب سے ہاتھوں کو کہنیوں تک مسح کیا جائے۔
" حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تیمم دو ضربیں ہیں: ایک چہرے کے لیے، اور ایک ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک۔" اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں، امام دارقطنی، بیہقی اور حاکم رحمہم اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔

امام خَرَشی رحمہ اللہ نے شرح مختصر خلیل (2/116، ط. دار الفكر) میں فرمایا: اگر میت کو غسل دینے کے لیے پانی موجود نہ ہو تو اس کے چہرے اور کہنیوں تک ہاتھوں کو تیمم کرایا جائے گا۔"

جلنے سے فوت ہونے والے شخص کا غسل: اگر بدن کا کچھ حصہ متاثر ہوا ہو

اگر کوئی شخص جلنے کی وجہ سے اس کے جسم کا کچھ حصہ محفوظ اور باقی حصہ متاثر ہو چکا ہو، تو اس کے غسل کا طریقہ یہ ہے کہ جسم کے جس حصے کو پانی سے دھونا ممکن ہو، اسے غسل دیا جائے، اور ان متاثرہ حصوں کیلئے تیمم کیا جائے جن پر پانی پہنچانے سے نقصان یا خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔ یہ طریقہ بالکل اسی طرح ہے جیسے زندہ شخص وضو یا غسل کے وقت کسی زخم یا جلنے کی صورت میں متاثرہ جگہ پر تیمم کرتا ہے۔ اس اصول کی بنیاد شریعت کے اس قاعدے پر ہے کہ "جو چیز میسر اور ممکن ہو، وہ ناممکن کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتی "، جیسا کہ امام تاج الدین سبکی رحمہ اللہ نے "الأشباه والنظائر" میں بیان فرمایا ہے۔ اس کی اصل وہ حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جتنی استطاعت ہو اسے بجا لاؤ" (متفق علیہ)۔

امام بُہوتی رحمہ اللہ نے "کشاف القناع" میں میت کے غسل کے بارے میں فرمایا: "اگر میت کے بعض اعضا کو غسل دینا ممکن نہ ہو تو جس قدر ممکن ہو، اسے غسل دیا جائے اور باقی اعضا کے لیے تیمم کیا جائے، جیسے جنابت کی حالت میں تیمم کیا جاتا ہے۔"

اگر میت کو نہ غسل دیا جا سکتا ہو اور نہ تیمم ممکن ہو تو کیا کیا جائے؟

اگر میت کی حالت ایسی ہو کہ نہ اسے غسل دینا ممکن ہو اور نہ ہی تیمم کیا جا سکے — مثلاً پورا جسم بری طرح جل کر کوئلہ بن چکا ہو، یا تیمم کے لیے ضروری جگہ ہی باقی نہ ہو تو اس وقت اس کا غسل اور تیمم دونوں ساقط ہو جاتے ہیں۔کیونکہ شریعتِ مطہرہ کا واضح اصول ہے کہ جس چیز کی استطاعت نہ ہو، اس کا مکلف بنانا جائز نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ترجمہ: ''اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا''۔ سورۃ البقرۃ: 286۔ لہٰذا ایسی حالت میں نہ غسل واجب رہے گا، نہ تیمم، بلکہ میت کو اسی حالت میں کفن دیا جائے گا، اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور باعزت طریقے سے دفن کیا جائے گا۔ اس لیے کہ نمازِ جنازہ کا مقصد میت کے لیے دعا کرنا اور شفاعت کرنا ہے، اور دفن کا مقصد میت کے جسم کو عزت کے ساتھ زمین میں چھپانا ہے۔ مغنی المحتاج  (2/ 50) امام خطیب شربینی رحمہ اللہ ۔

خلاصہ

اس بنا پر اور سوال کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے: جلی ہوئی میت کو غسل دینے کا حکم وفات کے بعد اس کے جسم کی حالت پر موقوف ہے؛ اگر اس کا جسم سلامت ہو اور بغیر کسی نقصان کے پانی بہا کر غسل دینا ممکن ہو تو اسے عام میتوں کی طرح مکمل غسل دیا جائے گا۔ اگر محض پانی لگانے سے ہی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں غسل کی جگہ تیمم کیا جائے گا، یعنی دونوں ہتھیلیوں کے اندرونی حصے سے زمین کی جنس کی کسی بھی چیز — جیسے پاک مٹی، پتھر، یا سنگِ مرمر وغیرہ — پر مار کر کیا جائے گا، پھر پہلی ضرب سے میت کا چہرہ اور دوسری ضرب سے دونوں ہاتھ کہنیوں تک مسح جائیں گے۔ اگر کچھ حصہ جسم کا سلامت ہو اور کچھ جلا ہوا ہو، تو جو اعضاء سلامت ہوں وہ دھوئے جائیں گے اور جلے ہوئے حصوں کی طرف سے تیمم کیا جائے گا۔ لیکن اگر نہ غسل دینا ممکن ہو نہ تیمم، جیسے کہ جسم جل کر کوئلہ بن گیا ہو یا تیمم کی جگہ نہ رہے، تو ایسی حالت میں غسل اور تیمم دونوں ساقط ہو جائیں گے، اور میت کو اسی حالت میں کفن دینا، اس پر نماز جنازہ پڑھنا اور دفن دینا کافی ہوگا۔ یہ سب میت کی تکریم، اس کے جسم کی حفاظت، اسے مزید نقصان یا بگاڑ سے بچانے کیلئے اور جنازے اور تدفین کے امور انجام دینے والوں کی آسانی کی خاطر ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas