اتحادِ امت اور تفرقے سے اجتناب پر م...

Egypt's Dar Al-Ifta

اتحادِ امت اور تفرقے سے اجتناب پر مبنی منصوبے سے متعلق شرعی رائے

Question

ہمیں ایک سوال موصول ہوا ہے جو کہ مغربی ممالک میں مقیم ایک مسلمان عالم دین کی طرف سے ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں: براہِ کرم اس دعوتی منصوبے کے متعلق شرعی رائے واضح فرمائیں، جس کا عنوان ہے: "دعوتِ اتحاد اور تفرقے سے اجتناب" ۔ یہ منصوبہ ایک جدول پر مشتمل ہے جس میں قرآن و سنت کے نصوص سے ماخوذ اصول و ضوابط بیان کیے گئے ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں میں وحدت کا تصور راسخ کرنا اور اختلاف و تفرقہ کی ظاہری صورتوں کو ختم کرنا ہے۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ سائل محترم کی طرف سے پیش کردہ مواد، اس پر کی گئی گفتگو، اور اس کے ساتھ منسلک دعوتی منصوبے کے خاکے کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے نزدیک جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس منصوبے کا بنیادی تصور شریعتِ اسلامیہ کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے، اور اس موقف کے موافق ہے جسے علماء کرام نے صدیوں سے نسل در نسل اور قرن در قرن اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ کہ ائمہ مجتہدین کے درمیان پایا جانے والا اختلاف دراصل امتِ مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم رحمت ہے، اور اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے۔ نیز یہ کہ فقہائے کرام کے مختلف فقہی مذاہب حق تک پہنچنے کے جدا جدا راستے ہیں، اور ان میں سے جو شخص بھی کسی ایک راہ پر چل پڑے، وہ اُسے حق تک پہنچا دیتا ہے۔

تفصیلات...

اسلامی شریعت میں اختلاف کے قابل اور ناقابل امور
اگر ہم شریعت کے قانون، اس کے اصول اور قواعد پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے ان شرعی نصوص  اور احکام کے درمیان فرق کیا ہے جو قطعی ہیں جن میں اختلاف کی گنجائش نہیں، اور ان فقہی احکام کے درمیان جو علماء کی اجتہادی کاوشوں اور استنباطات پر مبنی ہوتے ہیں۔ علما نے اسی فرق کو اس معیار کے طور پر اپنایا ہے جس سے یہ پہچانا جاتا ہے کہ کون سا مسئلہ اختلاف کو قبول کرتا ہے اور کون سا نہیں۔ چنانچہ جس مسئلے پر اجماع قائم ہو چکا ہو اور جو دین کے ضروری امور میں سے شمار ہوتا ہو — خواہ اس کی بنیاد براہ راست قطعی الدلالت نص پر ہو یا امت کے اجماع کی وجہ سے وہ قطعی حیثیت اختیار کر گیا ہو — تو ایسے مسئلے کی مخالفت جائز نہیں۔ علما نے ایسے امور میں مخالفت کو "خلاف" (یعنی ناقابل قبول اختلاف) کا نام دیا، کیونکہ یہ اسلام کی شناخت اور اس کی پہچان کا حصہ ہوتے ہیں، اور ان میں طعن کرنا دینی مسلمہ اصولوں پر طعن شمار ہوتا ہے۔ جبکہ وہ مسائل جن کے حکم میں اہل علم مجتہدین کے درمیان اختلاف پایا گیا ہو اور ان پر اجماع منعقد نہ ہوا ہو، تو وہ آراء و اقوال کے تعدد اور تنوع کی گنجائش رکھتے ہیں۔ علما نے ایسے اختلاف کو "اختلاف" کا نام دیا ہے، اور یہ اختلاف تنوّع کے باب سے ہوتا ہے، نہ کہ تضاد کے اعتبار سے۔ کیونکہ ان کا مقصود ایک ہی ہوتا ہے، مگر اس تک پہنچنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ اور فقہی احکام کی اکثریت اسی قسم پر مشتمل ہوتی ہے۔

اختلاف اور خلاف میں فرق
اختلاف یہ ہے کہ راستے مختلف ہوں لیکن مقصود ایک ہی ہو، جبکہ خلاف یہ ہے کہ راستہ اور مقصود دونوں مختلف ہوں۔ اختلاف وہ ہوتا ہے جو دلیل پر مبنی ہو، اور خلاف وہ ہوتا ہے جس کی کوئی دلیل نہ ہو۔ چنانچہ اختلاف رحمت کے اثرات میں سے ہے، اور خلاف بدعت کے اثرات میں سے؛ جیسا کہ امام ابو البقاء کَفَويؒ نے اپنی کتاب الکلیات (ص: 61، طبع: مؤسسۃ الرسالۃ) میں فرمایا ہے۔

آئمہ کا اختلاف امت کے لیے باعثِ رحمت ہے
اسلامی شریعت نے واضح کیا ہے کہ اجتہادی اختلاف سے پیدا ہونے والا تنوع دراصل اُلفت اور باہمی تعاون کا ذریعہ ہے، نہ کہ جھگڑے اور دشمنی کا سبب۔ شریعت نے مجتہد کے اجتہاد کو اجر کا سبب قرار دیا ہے، خواہ وہ درست ہو یا درست نہ ہو۔ چنانچہ صحابیِ رسول ﷺ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی حاکم (قاضی) فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد کرے، پھر درست نتیجے تک پہنچے، تو اسے دو اجر ملتے ہیں، اور اگر اجتہاد کرے اور خطا کر جائے تو بھی اسے ایک اجر ملتا ہے" (بخاری و مسلم)۔ اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں (اور صحابہ کو مغرب کا وقت داخل ہونے کا اندیشہ ہوا، تو اس حدیث کے فہم میں ان کے درمیان اختلاف ہوا۔ کچھ صحابہ نے نص کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے بنی قریظہ ہی میں عصر پڑھی، چاہے وہاں مغرب کے بعد ہی پہنچے، جبکہ کچھ صحابہ نے اس حدیث کا مقصد جلدی پہنچنے کا حکم سمجھا اور راستے میں ہی عصر ادا کر لی، تاکہ نماز قضا نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ان میں سے کسی پر بھی نکیر نہیں فرمائی بلکہ دونوں فریقوں کی توثیق فرما دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجتہادی اختلاف میں وسعت ہے اور وہ امت کے لیے رحمت ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ہمیں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام کا باہمی اختلاف امت کے لیے رحمت ہے، اور یہ کہ ان میں سے کسی ایک کی بات پر عمل کرنا ہدایت کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے، ہدایت پا جاؤ گے" (اسے امام آجُري نے اپنی کتاب الشریعۃ میں اور ابن بطة نے الإبانۃ الكبرى میں روایت کیا ہے)۔ ایک روایت میں ہے: ''تمہیں جو کچھ اللہ کی کتاب سے دیا گیا ہے، اس پر عمل کرنا لازم ہے، کسی کے لیے اس کو چھوڑنے کا کوئی عذر نہیں۔ اگر اللہ کی کتاب میں نہ ملے، تو میری سنت ہے جو جاری ہے، اور اگر میری سنت بھی نہ ہو، تو میرے صحابہ کا قول ہے۔ میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے، ہدایت پا جاؤ گے۔ اور میرے صحابہ کا اختلاف تمہارے لیے رحمت ہے" (اسے امام بیہقی نے المدخل إلى السنن الكبرى میں روایت کیا ہے)۔ اس حدیث کا اصل مفہوم صحیح مسلم میں بھی موجود ہے کہ حضرت ابوبُردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ستارے آسمان کے لیے امان ہیں، جب ستارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان پر وہ وعدہ پورا ہوگا جو اسے سنایا گیا ہے۔ اور میں اپنے صحابہ کے لیے امان ہوں، جب میں رخصت ہو جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ وعدہ آئے گا جو ان سے کیا گیا ہے۔ اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں، جب میرے صحابہ دنیا سے چلے جائیں گے، تو میری امت پر وہ وعدہ پورا ہوگا جو اس سے کیا گیا ہے"۔

امام جلال الدین سیوطیؒ نے جزيل المواهب (ص: 21، طبع: دار الاعتصام) میں فرمایا: اس حدیث میں کئی فائدے ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے بعد فروعی مسائل میں مذاہب کے اختلاف کی خبر دی، اور یہ آپ کی معجزات میں سے ہے کیونکہ یہ غیب کی خبر ہے۔ آپ ﷺ نے اس اختلاف کو پسند فرمایا، اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا، بلکہ اس کی تعریف فرمائی؛ کیونکہ آپ نے اسے رحمت قرار دیا، اور مکلف کو اختیار دیا کہ وہ ان میں سے جس قول کو چاہے لے سکتا ہے، بغیر اس کے کہ کسی ایک قول کو لازم ٹھہرایا ہو۔"

اور اس حدیث سے یہ بھی مستنبط (اخذ) کیا گیا کہ تمام مجتہدین ہدایت پر ہیں، اور سب حق پر ہیں، لہٰذا ان میں سے کسی پر ملامت نہیں کی جا سکتی، اور نہ ہی کسی کو غلط کہا جاۓ گا؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "تم ان میں سے جس کی پیروی کرو گے، ہدایت پا جاؤ گے"، اور اگر حق صرف ایک ہی ہوتا اور باقی سب غلط ہوتے، تو خطا پر عمل کرنے سے ہدایت حاصل نہ ہوتی۔"

پس ان آئمہ کرام کا اختلاف درحقیقت اس امت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے مکلف بندوں پر اس کی عظیم نعمتوں میں سے ہے، اور ان سے سختی و تنگی کو دور کرنے کا ذریعہ ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ ترجمہ ''اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لیے سختی نہیں چاہتا"۔ سورۃ البقرۃ: 185، اور فرمایا: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ ترجمہ:"اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی"(سورۃ الحج: 78)۔

فقہی مذاہب کی بنیاد: وسعت اور تکامل

اسلامی فقہی مذاہب کی اصل باہمی تکمیل اور وسعت ہے، اور ان سب کا نسبتاً تعلق شریعت سے برابر ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا راستہ ہے جو مکلف کی مراد کو پورا کر سکتا ہے۔ ان کے مابین پایا جانے والا اختلاف ایک قابلِ قبول اور مشروع اختلاف ہے، جسے رد کرنے یا مسترد کرنے کے بجائے سمجھنا اور اس کی حکمت کو جاننا مسلمان کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ سب شریعت کے فہم کے راستے ہیں اور عبادات میں تزکیہ و تقرب الٰہی کے ذرائع ہیں۔

امام عبد الوہاب شعرانیؒ نے الميزان (1/59، ط: عالم الکتب) میں فرمایا: ''شریعت ایک عظیم اور پھیلی ہوئی درخت کی مانند ہے، اور اس کے علما کے اقوال اس کی شاخوں اور ٹہنیوں کی مانند ہیں۔" ـ

امام عبدالوهاب شعرانیؒ نے الميزان (1/74) میں فرمایا: شریعتِ مطہرہ ایک آسان، کشادہ اور جامع شریعت ہے، جو اس امت محمدیہ کے آئمۂ ہدایت کے تمام اقوال کو اپنے دائرے میں سمو لینے والی ہے۔ ان میں سے ہر ایک امام اپنی رائے میں بصیرت پر قائم ہے اور صراطِ مستقیم پر گامزن ہے۔ ان کا اختلاف درحقیقت امت کے لیے اللہ کی طرف سے رحمت ہے، جو علیم و حکیم رب کی حکمت کے تحت پیدا ہوا۔" ـ

اور مشہور فقیہ علامہ مصطفی الزرقاؒ نے اپنی کتاب المدخل الفقهي العام (1/259، ط: دار القلم) میں فرمایا: یہ تمام فقہی مذاہب شریعتِ اسلامیہ کی طرف نسبت میں برابر ہیں؛ چنانچہ صحابہ کرام کے فقہی آراء اور ان کے بعد آنے والے تابعین اور تبع تابعین، جیسے ابن ابی لیلی، ابن شبرمہ، مکحول، اوزاعی، حسن بصری، سعید بن جبیر اور دیگر بہت سے آئمہ، ان کے اقوال کو بھی وہی درجہ اور اہمیت حاصل ہے جو امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے اقوال کو حاصل ہے۔ یہ کوئی ضروری امر نہیں کہ ہر علاقہ یا ملک کسی ایک مجتہد کا پورا مذہب ہی اختیار کرے؛ بلکہ ممکن ہے کہ وہ ہر ایک مذہب کے قواعد اور احکام میں سے وہ باتیں اختیار کرے جو اس کے موجودہ حالات اور مصالحِ زمانی کے زیادہ مناسب ہوں۔"

اختلافی مسائل میں انکار نہیں ہوتا

شریعتِ مطہرہ نے اجتہادی اور اختلافی مسائل میں مکلفین کی طبیعتوں، ان کے حالات، زمان و مکان، ماحول اور عرف و عادات کا لحاظ رکھا ہے؛ اسی لیے فقہی اور اصولی قواعد میں علما نے تصریح کی ہے کہ اختلافی مسائل میں اصل یہی ہے کہ ان میں انکار نہیں کیا جاتا (یعنی جو قول کسی کو مناسب لگے اس پر عمل کر سکتا ہے کسی دوسرے کو اس پر انکار کا حق حاصل نہیں)، بلکہ انکار صرف ان باتوں پر ہوتا ہے جو سب کے درمیان متفق علیہ ہوں۔ اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جو شخص کسی اختلافی مسئلے میں عمل کرنا پڑ جائے، تو وہ ایسے مجتہد کی تقلید کر سکتا ہے جس نے اس کو جائز قرار دیا ہو، اور یہ کہ اختلاف سے بچنے کے لیے احتیاطاً ایسے قول کو اختیار کرنا جو سب کے نزدیک راجح ہو، یہ مستحب ہے۔

دعوتِ اتحاد اور تفرقے سے اجتناب کے منصوبے کے بارے میں شرعی رائے

فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مکلف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس مجتہد عالم کے مذہب کی چاہے تقلید کر سکتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾ ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت کرو، اور تم میں سے جو صاحبانِ امر ہیں (ان کی بھی اطاعت کرو''۔ سورۃ النساء: 59۔ اور "أُولُو الْأَمْر" سے مراد اہلِ علم یعنی علماءِ کرام ہیں۔

امام قرافی مالکیؒ نے اپنی کتاب شرح تنقيح الفصول (1/432، ط: الطباعة الفنية المتحدة) میں فرمایا: اس پر اجماع قائم ہو چکا ہے کہ جو شخص اسلام لائے، اسے اختیار ہے کہ جس عالم کی چاہے تقلید کرے، اس پر کوئی پابندی نہیں۔ اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی اس پر اجماع تھا کہ جو شخص حضرت ابوبکر یا حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے فتویٰ لے یا ان کی تقلید کرے، تو اس کے لیے حضرت ابوہریرہ، حضرت معاذ بن جبل اور دیگر صحابہ سے بھی فتویٰ لینا اور ان کے قول پر عمل کرنا جائز ہے، اور اس پر کسی نے نکیر نہیں کی۔ پس جو شخص ان دونوں اجماعات (یعنی صحابہ اور فقہاء کے اجماع) کی نفی کا دعویٰ کرے، تو اس پر دلیل لازم ہے۔" ـ

جب علما کی اتباع اور ان کی طرف رجوع کرنا شرعاً واجب قرار دیا گیا ہے، تو جب وہ اجتہاد کریں، تو ان لوگوں پر جو اجتہاد کے اہل نہیں (یعنی عوام) ان کی تقلید اور پیروی واجب ہو جاتی ہے؛ کیونکہ یہ اصول طے شدہ ہے کہ: "عامی (یعنی غیر مجتہد) کا کوئی مستقل مذہب نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مذہب اس کے مفتی کا فتویٰ ہوتا ہے، اور اس کے دل میں کسی حکم کے درست یا غلط ہونے کا جو خیال پیدا ہو، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عوام کو اجتہاد اور استدلال کا مکلف بنا دیا جائے، تو طلبِ علم اس انداز سے فرضِ عین بن جائے گا کہ ہر شخص کو عالم و مجتہد بننا لازم ہوگا، اور اگر ایسا لازم کر دیا جائے، تو لوگوں کی معاشی زندگی تباہ ہو جائے گی، اور اس میں انہیں واضح نقصان پہنچے گا، اور ایسی مشقت لاحق ہوگی جس کا برداشت کرنا ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ سے اس قسم کی مشقت کو دور فرما دیا ہے، اور ان پر بوجھ نہیں ڈالا، بلکہ ان سے بوجھ کو ہٹا دیا، اور انہیں ایسی چیزوں کا مکلف نہیں بنایا جنہیں اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے لطف و احسان کا نتیجہ ہے، لہٰذا جب ان پر اجتہاد فرض نہیں، تو ان کے لیے واجب یہی ہے کہ اہلِ علم کے اقوال کو اختیار کریں اور ان کی تقلید کریں۔ اور یہ تقلید فروعی مسائل میں جائز ہے؛ جیسا کہ امام ابن السمعانیؒ نے قواطع الأدلة (2/340-341) میں فرمایا ہے۔

علامہ ابن نجیم حنفیؒ نے البحر الرائق (2/90) میں فرمایا: اور اگر وہ عامی ہو اور اس کا کوئی مخصوص مذہب نہ ہو، تو اس کا مذہب اس کے مفتی کا فتویٰ ہوتا ہے۔" ـ

امام قرافی مالکیؒ نے الذخيرة (1/140–141، ط: دار الغرب الإسلامي) میں فرمایا: تمام فقہی مذاہب جنت کے راستے اور سعادت کی طرف لے جانے والے طریقے ہیں، پس جو شخص ان میں سے کسی راہ پر چلے، وہ اسے منزل تک پہنچا دیتا ہے۔" ـ

امام زَرکشی شافعیؒ نے البحر المحيط (8/375، ط: دار الکتبی) میں فرمایا: رافعی نے امام ابو الفتح ہَروی، جو امام شافعی کے اصحاب میں سے ہیں، سے نقل کیا ہے کہ ہمارے اکثر اصحاب کا مذہب یہی ہے کہ عامی کا کوئی مستقل مذہب نہیں ہوتا'' ـ

امام آمدی شافعیؒ نے الإحکام في أصول الأحكام (4/228، ط: المكتب الإسلامي) میں فرمایا: عامی شخص، اور وہ بھی جو اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا — اگرچہ وہ بعض ان علوم میں مہارت رکھتا ہو جو اجتہاد کے لیے معتبر سمجھے جاتے ہیں — تو محققینِ اصول کے نزدیک اس پر مجتہدین کے اقوال کی اتباع اور ان کے فتوے کو اختیار کرنا لازم ہے۔" ـ

علامہ بُہوتی حنبلیؒ نے كشَّاف القناع (6/306، ط: عالم الكتب) میں فرمایا: اور (یہ بھی) جائز ہے کہ کسی کم درجے کے مجتہد کی تقلید کی جائے، حالانکہ اس وقت اس سے افضل مجتہد بھی موجود ہو؛ کیونکہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے جو کم درجے والے تھے وہ بھی افضل حضرات کی موجودگی میں فتویٰ دیتے تھے، اور یہ معاملہ بار بار پیش آتا رہا اور مشہور بھی ہوا، لیکن کسی نے اس پر انکار نہیں کیا، لہٰذا یہ اجماع بن گیا۔"

اوپر بیان کی گئی تمام تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فقہاء کے اجتہادات امت میں تفرقے کا سبب نہیں ہوتے، اور کسی بھی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی معاملے میں زبان کھولے، جب تک کہ وہ اس فن کا ماہر، پختہ علم رکھنے والا اور اپنے قول میں مضبوط نہ ہو؛ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان تفرقہ اور انتشار کا ذریعہ نہ بنے۔ شرعی طور پر اتحاد و اتفاق اور تفرقہ سے بچنا واجب ہے؛ چنانچہ قرآنِ مجید کی واضح آیات امت کے اجتماع اور وحدت کی ضرورت پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ ترجمہ: "اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو"۔ آلِ عمران: 103۔ اور قرآنِ کریم نے وحدتِ امت کے اصول اور بنیادوں کو مضبوط کیا ہے، اور اس کی تاکید اس قرآنی اصول میں کی گئی ہے کہ امت ایک ہے اور اس کا رب بھی ایک ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ﴾ ترجمہ: "یقیناً تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو"۔ الأنبیاء: 92۔

امام زمخشریؒ نے الکشاف (3/134، ط: دار الکتاب العربي) میں فرمایا: امت سے مراد ملت ہے، اور یہاں اشارہ ملتِ اسلام کی طرف ہے، یعنی ملتِ اسلام ہی تمہاری ملت ہے جس پر تمہیں قائم رہنا چاہیے اور جس سے تمہیں انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ اس ملت اسلام کی طرف ایک ایسی ملت کے طور پر اشارہ کیا گیا ہے جو کہ غیر مختلف ہے (یعنی جس میں اختلاف و تفرقہ نہیں)، اور (اللہ فرماتا ہے:) میں تمہارا معبود ایک ہی ہوں، پس میری ہی عبادت کرو۔

اسی طرح شریعت کے نصوص بکثرت اس بات پر وارد ہوئی ہیں جو تفرقہ سے بچنے اور اتحاد کو اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہیں، اور اختلاف سے سختی سے منع کرتی ہیں؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ ترجمہ: "اور تفرقہ مت ڈالو"، آل عمران: 103۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ ترجمہ: اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم کمزور ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" الأنفال: 46۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، اور نہ کسی کے حالات کا سراغ لگاؤ، اور نہ تجسس کرو، اور نہ بولی بڑھا کر مال خریدو، اور نہ حسد کرو، نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو" (متفق علیہ)۔

خلاصہ

لہٰذا، سوال اور اس میں بیان کردہ تفصیلات کی بنیاد پر: سائل محترم کی طرف سے پیش کردہ مواد، اس پر کی گئی گفتگو، اور اس کے ساتھ منسلک دعوتی منصوبے کے خاکے کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے نزدیک جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس منصوبے کا بنیادی تصور شریعتِ اسلامیہ کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے، اور اس موقف کے موافق ہے جسے علماء کرام نے صدیوں سے نسل در نسل اور قرن در قرن اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ کہ ائمہ مجتہدین کے درمیان پایا جانے والا اختلاف دراصل امتِ مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم رحمت ہے، اور اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے۔ نیز یہ کہ فقہائے کرام کے مختلف فقہی مذاہب حق تک پہنچنے کے جدا جدا راستے ہیں، اور ان میں سے جو شخص بھی کسی ایک راہ پر چل پڑے، وہ اُسے حق تک پہنچا دیتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas