میک اپ کرنے والی عورت کے تیمم کا حک...

Egypt's Dar Al-Ifta

میک اپ کرنے والی عورت کے تیمم کا حکم

Question

ایک عورت جو پانچ سال سے شادی شدہ ہے، اپنے شوہر کے سامنے اچھا نظر آنے کے لیے میک اپ کا استعمال کرتی ہے۔ اگر وہ نماز پڑھنا چاہے، تو کیا وہ وضو کے بجائے تیمم کر سکتی ہے؟ کیونکہ وضو کرنے کی صورت میں اُسے سارا میک اپ صاف کرنا پڑتا ہے، جس پر اس نے کافی پیسہ خرچ کیا ہوتا ہے اور اسے لگانے میں کافی وقت بھی صرف ہوتا ہے۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

Answer

: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ شرعاً کسی مکلف شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ وضو یا غسل جیسے فرض کو چھوڑ کر تیمم کی رخصت اختیار کرے، جب تک کہ پانی حقیقتاً موجود نہ ہو، یا موجود نہ ہو یعنی حکماًپانی تو موجود ہو مگر اس کا استعمال ممکن نہ ہو۔ عورت کے لیے بھی صرف اس وجہ سے تیمم کرنا جائز نہیں کہ اس نے کوئی میک اپ لگا رکھا ہے، الّا یہ کہ پانی کے استعمال سے اُسے سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، جیسے بیماری کی حالت میں شفا میں تاخیر ہونا یا بیماری میں اضافہ ہونا، یا واقعی پانی کا نہ ہونا—تو ایسی صورت میں تیمم کی اجازت ہے۔لیکن اگر عورت کسی ایسے عذر کے بغیر تیمم کرے جس سے شرعاً تیمم جائز ہوتا ہو، تو ایسی حالت میں اس کا تیمم باطل اور اس کی نماز غیر درست ہوگی، اور اُسے وہ نماز دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔

تفصیلات

شریعتِ مطہرہ کا بیوی کو شوہر کے لیے زینت و زیبائش کا حکم

جو شخص اسلامی شریعتِ مطہرہ میں غور و فکر کرے، وہ پائے گا کہ اس نے اپنے احکام میں انسانی فطری میلان اور جائز خواہشات کا لحاظ رکھا ہے، خاص طور پر ان امور میں جن پر انسانی طبیعت قدرتی طور پر مائل ہوتی ہے۔ چنانچہ شریعت نے بغیر افراط اور تفریط کے ان خواہشات کے پورا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ انہی فطری خواہشات میں سے ایک خواہش میاں بیوی کے درمیان جمالیاتی حسن کا تبادلہ ہے۔ شریعتِ مطہرہ نے بیان کیا کہ دنیاوی خوشی اور قلبی سکون کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کو نیک صالح بیوی ملے، جسے دیکھ کر اس کا دل خوش ہو۔ اسی لیے شریعت نے بیوی کو حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کے لیے زینت اختیار کرے اور اس کے نگاہ میں خود کو حسین و جمیل بنائے، تاکہ شوہر کی نگاہ پاکیزہ رہے اور وہ شیطان کے ان راستوں میں نہ پڑے جن سے اسے گناہ کی طرف رغبت ہو سکتی ہے جب حلال طریقے سے اس کی فطری خواہش پوری نہ ہو رہی ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: ’’سب سے اچھی عورت کون سی ہے؟‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: «الَّتي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ» ’’وہ جو شوہر کو دیکھنے پر اسے خوش کر دے۔‘‘ (امام نسائی نے روایت کیا ہے)

علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے "مرقاة المفاتيح" (5/2132) میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا: "[فرمایا: وہ عورت جسے دیکھ کر شوہر خوش ہو]، یعنی: اپنے شوہر کو خوش کردے، اور مطلب یہ ہے کہ جب شوہر اسے دیکھے تو وہ مسکراہٹ، خوش اخلاقی اور حسنِ معاشرت کے ذریعے اسے خوش کرے۔ اور اگر صورت (ظاہری حسن) اور سیرت (اخلاق) دونوں جمع ہو جائیں تو یہ شوہر کے لیے مزید خوشی، اور فرحت کا باعث بنتا ہے۔

اسی طرح امام مناوی رحمہ اللہ نے "التيسير بشرح الجامع الصغير" (1/528) میں فرمایا: "[جب شوہر اسے دیکھے]، کیونکہ خوبصورت عورت اپنے شوہر کے لیے پاکدامنی اور دین پر قائم رہنے میں معاون ہوتی ہے۔"

شریعت نے عورت کو—بالخصوص بیوی کو—زینت کے معاملے میں لاپروائی اور بے اعتنائی سے سختی سے روکا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ عورت کی آنکھوں  نہ میں سرمہ ہو، نہ  خضاب لگایا ہو، اور نہ ہی زیور پہنے ہوئے ہو۔ ۔ علامہ عبد الملک بن حبیب البیری قرطبی نے "أدب النساء" (ص: 207-208) میں یہ روایت نقل ۔

 

میک اپ کی مصنوعات کے طہارت پر اثرات

میک اپ کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء (جیسے فاؤنڈیشن، کریم، پاؤڈر وغیرہ) پانی کے جلد تک پہنچنے کے اعتبار سے دو طرح کی ہو سکتی ہیں: ایک وہ جن کا مادہ بہت ہلکا ہوتا ہے، اور وہ صرف رنگ دینے کے کام آتی ہیں، چاہے وہ قدرتی ہوں یا مصنوعی، جیسے مہندی یا عام رنگین کریمیں، تو ایسی اشیاء جلد کو رنگ تو دیتی ہیں مگر وہ پانی کے جلد میں سرایت کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتیں، بلکہ جلد انہیں جذب کر لیتی ہے جیسے نرم کریمیں وغیرہ۔

دوسری قسم وہ ہے جن کا مادہ گاڑھا اور موٹا ہوتا ہے، اور وہ جلد پر ایک موٹی تہہ بنا دیتی ہیں جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے روک دیتی ہے، جیسے مومی مادے یا ان جیسے دیگر اجزاء، جنہیں جلد کسی صورت جذب نہیں کرتی۔

پہلی قسم (یعنی ہلکی اور رنگ دار اشیاء) کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جب تک وہ پانی اور جلد کے درمیان رکاوٹ نہ بنیں، ان کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ اصل رکاوٹ وہ موٹا اور سخت مادہ ہوتا ہے جو جلد پر ایک تہہ کی صورت میں جم کر اسے اردگرد سے جدا کر دیتا ہے۔ جہاں تک ان رنگوں اور مہندی وغیرہ کا تعلق ہے جو جلد کے مسام بند نہیں کرتیں اور محض ایک باریک سی تہہ چھوڑتی ہیں جو گویا جلد ہی کا حصہ بن جاتی ہے، جیسے مہندی یا ہلکی کریمیں وغیرہ، تو یہ پانی کے جلد تک پہنچنے میں مانع نہیں بنتیں، لہٰذا ان کے ہوتے ہوئے کیا گیا وضو اور غسل درست ہوتا ہے۔

رہی دوسری قسم (یعنی وہ میک اپ یا کریم وغیرہ جو موٹی تہہ کی صورت میں جلد پر جم جاتے ہیں اور پانی کو اندر نہیں جانے دیتے)، تو اس کے ساتھ وضو یا غسل سے پاکی حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ یہ جلد پر ایک موٹی تہہ بناتے ہیں جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے روک دیتی ہے۔ لہٰذا جس شخص کو وضو یا غسل کرنا ہو، اس کے لیے شرعاً ضروری ہے کہ وہ پہلے اس رکاوٹ کو دور کرے تاکہ پانی براہِ راست جلد تک پہنچ سکے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وضو یا غسل کے درست ہونے کی بنیادی شرط یہی ہے کہ کوئی ایسا رکاوٹ یا چیز نہ ہو جو پانی کو جلد تک پہنچنے سے روکے، چاہے وہ عضو دھونے کا ہو یا مسح کرنے کا۔ تمام فقہی مذاہب نے اس اصول کو صراحت سے بیان کیا ہے، اس سلسلے میں دیکھیے: علامہ شرنبلالی حنفی کی کتاب مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (صفحہ 30، مطبوعہ: المکتبۃ العصریۃ)، علامہ دردیر مالکی کی الشرح الصغير (جلد 1، صفحہ 132، مطبوعہ: دار المعارف)، علامہ بجيرمی شافعی کی حاشية البجيرمي على الإقناع (جلد 1، صفحہ 128، مطبوعہ: دار الفكر)، اور علامہ بہوتی حنبلی کی كشاف القناع عن متن الإقناع (جلد 1، صفحہ 85، مطبوعہ: دار الكتب العلمية)۔

حدثِ اصغر و اکبر سے پاک ہونا نماز کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ہے

نماز کی صحت کے شرائط میں سے ایک شرط حدثِ اصغر و اکبر دونوں سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ فقہاء کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ نماز کے درست ہونے کے لیے طہارت لازم ہے، اور جس شخص نے نماز پڑھنی ہو اس پر واجب ہے کہ وہ وضو یا غسل کے ذریعے طہارت حاصل کرے، اور اگر وہ پانی نہ پائے یا پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے تیمم کی اجازت ہے، اور اگر کوئی شخص بغیر مکمل وضو کیے یا (اگر تیمم کی حالت میں ہو تو) بغیر مکمل تیمم کیے نماز پڑھے، تو اس کی نماز باطل ہے، چاہے وہ بھول کر ایسا کرے یا جان بوجھ کر۔ اس مسئلے کو امام ابن المنذر نے اپنی کتاب "الإجماع" (ص: 36)، امام ابن حزم ظاہری نے "مراتب الإجماع" (ص: 18، 20، 32)، اور امام ابن قطان فاسی نے "الإقناع في مسائل الإجماع" (1/70) میں واضح طور پر ذکر کیا ہے۔

میک اپ کرنے والی عورت کے تیمم اور اس تیمم سے ادا کی گئی نماز کا شرعی حکم

جہاں تک میک اپ (یعنی آرائشی مصنوعات) استعمال کرنے والی عورت کے تیمم کے حکم کا تعلق ہے، جو کہ سوال کا اصل موضوع ہے، تو جمہور علمائے کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کے لیے تیمم کرنا صرف اس صورت میں شرعاً جائز ہے جب پانی حقیقتاً موجود نہ ہو، یا حکماً غیر موجود ہو، یعنی ایسی حالت میں کہ وہ پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو۔ خاص طور پر جب پانی کے استعمال سے شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، جس سے بچاؤ کسی حال میں ممکن نہ ہو، یا ایسی سخت مشقت ہو جس کا برداشت کرنا ممکن نہ ہو، جیسے شفا میں تاخیر ہو، بیماری بڑھ جائے، یا ایسے پیچیدہ اثرات ظاہر ہوں جو ہلاکت تک پہنچا دیں، یعنی عورت کو جان جانے یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خوف ہو اگر وہ پانی استعمال کرے۔ تو ایسے حالات میں پانی کے بجائے تیمم کرنا جائز ہے۔

امام ابن حزمؒ نے مراتب الإجماع (ص: 18) میں فرمایا ہے: علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسا مریض جو پانی سے تکلیف محسوس کرتا ہو اور ساتھ ہی پانی موجود بھی نہ ہو، تو اس کے لیے تیمم وضو اور غسل کا قائم مقام ہے۔"

امام ابن عبد البرؒ نے الاستذکار (1/303) میں لکھا ہے: میرے علم کے مطابق مشرق و مغرب کے تمام شہروں کے علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانی کے نہ ہونے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کرنا ہر مسلمان مسافر و مریض کے لیے پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، چاہے وہ جنابت کی حالت میں ہو یا صرف بے وضو۔"

علامہ بدر الدین عینیؒ نے البناية شرح الهداية (1/516-517) میں فرمایا ہے: علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو جان جانے یا عضو یا اس کے فائدے کے زائل ہونے کا خوف ہو تو اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے۔"

تیمم کی اجازت صرف اسی وقت ہوتی ہے جب پانی حقیقت میں موجود نہ ہو یا حکمًا موجود نہ ہو یعنی پانی موجود تو ہو مگر کسی وجہ سے اس کا استعمال ممکن نہ ہو، محض چہرے پر میک اپ یا بیوٹی کریموں کے موجود ہونا تیمم کے اسباب میں شامل نہیں ہے، کیونکہ پانی کا حقیقی فُقدان یہاں نہیں پایا جا رہا، اور جہاں تک پانی کے استعمال پر عدم قدرت کا تعلق ہے، تو یہ بھی یہاں لاگو نہیں ہوتا، کیونکہ عورت ان کریموں کو بغیر کسی شدید نقصان، شفا میں تاخیر، یا مرض کے بڑھنے کے خوف کے، با آسانی دھو کر طہارت حاصل کر سکتی ہے۔ یہ حکم میک اپ کریموں کے متعلق ہے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ پانی کے استعمال سے واقعی نقصان کا خطرہ ہو، جیسے بیماری کی حالت میں شفا کا مؤخر ہونا، یا بیماری کا بڑھ جانا، یا پانی کا واقعی نایاب ہونا، تو ایسی صورت میں تیمم جائز ہو گا، لیکن یہ اجازت میک اپ کریموں کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کریموں کے علادہ کسی عذر کی بنیاد پر ہو گی۔

اگر عورت نے بغیر کسی شرعی عذر کے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی، تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی، کیونکہ اس کی نماز سے صحتِ نماز کی ایک شرط فوت ہو گئی ہے۔ لہٰذا اس پر لازم ہے کہ وہ ان تمام نمازوں کی قضا کرے جو اس نے اس تیمم کے ساتھ ادا کی تھیں۔

خلاصہ

پیش کردہ تفصیل کی روشنی میں شرعی حکم یہ ہے کہ کسی مکلف شخص کے لیے وضو یا غسل جیسے فرض سے تیمم کی رخصت کی طرف منتقل ہونا صرف اس وقت جائز ہے جب پانی حقیقتاً موجود نہ ہو یا حکماً پانی غیر موجود ہو یعنی پانی موجود ہوتے ہوئے بھی کسی شرعی عذر کی بنا پر اس کا استعمال ممکن نہ ہو۔ لہٰذا کسی عورت کے لیے صرف چہرے پر میک اپ یا بیوٹی کریم لگانے کی بنیاد پر تیمم کرنا جائز نہیں، الا یہ کہ پانی کے استعمال سے مرض بڑھنے، شفا میں تاخیر یا نقصان کا اندیشہ ہو، یا پانی موجود ہی نہ ہو، تو ایسی صورت میں تیمم کی اجازت ہوگی۔ لیکن اگر اس نے بغیر کسی شرعی عذر کے تیمم کیا تو اس کی نماز درست نہ ہوگی اور اس پر ان نمازوں کا دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas