میلادِ النبی شریف منانے کا حکم اور ...

Egypt's Dar Al-Ifta

میلادِ النبی شریف منانے کا حکم اور اس کا طریقہ

Question

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی یاد میں جشن منانے کا طریقہ کیا ہے؟ ہم رسالت مآب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی یاد میں قرآنِ کریم کی کچھ تلاوت کرتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا درس دیتے ہیں، اس کے بعد سید الخلق صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح، نعت اور مناجات پڑھی جاتی ہیں۔ پھر کچھ وقت کے لیے کھڑے ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور خوشبو دار اگربتیاں جلاتے ہیں، پھر دعا اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس کے بعد تمام حاضرین کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تو شریعت کی رُو سے اس طرح کا جشنِ میلاد منانے کا کیا حکم ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن آپ لوگ جو مختلف عبادات اور نیک اعمال کے ذریعے میلاد النبی شریف کا اہتمام کرتے ہیں، یہ شرعاً مستحب عمل ہے، اور اس پر اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے۔

تفصیلات۔۔۔

میلادِ نبوی شریف کے جشن کی شرعی اساس

مسلمانوں کی یہ عادت ہے کہ ہر سال ماہِ ربیع الاول میں میلادِ نبوی شریف کی یاد میں محفلیں منعقد کرتے ہیں، جس میں لوگ ذکر و اذکار، نعت و مدائح، کھانے پینے اور قیام وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی کا اظہار، آپ کی تعظیم، آپ کی آمد کے دن پر مسرت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ جشن فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنی رحمتِ مہدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نوازا، اور یہ تمام امور شرعاً ثابت اور مستحب ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اپنے میلادِ شریف پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی اصل سنت عطا فرمائی ہے۔صحیح روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی‘‘ (اسے امام مسلم نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے)۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر تھا جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت پر فرمایا۔ لہٰذا اس کی نعمت اور فضل پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا خواہ وہ کھانا کھلانے کی صورت میں ہو، نعت خوانی اور ذکر کی مجلس کی صورت میں، یا صیام وقیام کی صورت میں، یا کسی اور شکل میں، ان میں سے کوئی صورت اس سنت کی اصل سے خارج نہیں۔

یہ جشن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے منایا گیا اور پھر امت کی طرف سے منایا جا رہا ہے، دراصل قرآنِ کریم کی اس ہدایت کا عملی نمونہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ [ابراہیم: 5] ’’انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ‘‘۔ اور اللہ کے دنوں میں سے انبیاء اور اولیاء کی مدد کے دن بھی ہیں، اور ان کی ولادت کے دن بھی۔ ان تمام دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا دن سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام علیہم الصلاة والسلام کی ولادت کے دنوں کو شرف بخشا اور انہیں خیر و سلامتی والے دن قرار دیا ہے۔ چنانچہ سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ﴾ [مریم: 15] ’’ان پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوئے‘‘۔ اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا﴾ [مریم: 33] ’’اور مجھ پر سلام ہے جس دن میں پیدا ہوا، اور جس دن میں وفات پاؤں گا، اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا‘‘۔ اسی طرح "صحیح مسلم" میں یومِ جمعہ کی فضیلت اور خصوصیات ذکر کی گئی ہیں کہ یہ وہ دن ہے جس میں سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، لہٰذا یہ دن مبارک ہوا۔ اس بنیاد پر کسی نبی کی ولادت کے دن کو خاص کرنا دراصل اس زمان اور وقت کو شرف بخشنے کے قبیل سے ہے۔ کیونکہ ولادت کا دن دراصل وجود میں آنے کی نعمت کا دن ہوتا ہے، اور وجود ہی وہ بنیاد ہوتی ہے جس کے بعد آنے والی ہر نعمت میسر آتی ہے۔ پھر بھلا وہ دن کس قدر بابرکت ہوگا جس دن خیر الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی! بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ میلاد دنیا و آخرت کی ہر نعمت کا سبب ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل ہیں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور آپ کی ولادت پر خوشی منانا دراصل اللہ کے فضل پر خوشی منانا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ﴾ [یونس: 58] ’’ آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔ وه اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وه جمع کر رہے ہیں۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات کے لیے سب سے بڑی رحمت ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’اللہ کی رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ [الأنبياء: 107] ’’اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘ (اسے سعید بن منصور نے اپنی ’’سنن‘‘ میں اور ابو الشیخ نے اپنی ’’تفسیر‘‘ میں روایت کیا ہے)۔

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت پر خوشی منانے کا فائدہ غیر مسلم تک کو پہنچا ہے، تو مسلمانوں کے حق میں اس خوشی کا فائدہ پہنچنا بدرجہ اولیٰ اور زیادہ مؤکد ہے۔ چنانچہ "صحیح بخاری" میں عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کے طریق سے قطعیت کے ساتھ روایت ہے کہ عروہ نے کہا: "ثُوَیبہ ابو لہب کی باندی تھی، اس سے نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعات کی خبر سن کرابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تھا، اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا۔ پھر جب ابو لہب مر گیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے خواب میں نہایت برے حال میں دیکھا اور پوچھا: تمہیں کیا پیش آیا؟ ابو لہب نے کہا: تمہارے بعد مجھے کوئی خیر نہیں ملی، سوائے اس کے کہ میں ثُوَیبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے (ہر پیر کے دن) اس انگلی کے درمیان سے سیراب کیا جاتا ہوں۔" اسے عبدالرزاق نے بھی اپنی کتاب "مصنف" میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

امام سہیلی نے اپنی کتاب الروض الأنف (ج 5، ص 191-192، طبع دار إحياء التراث العربي) میں ذکر کیا ہے کہ ابو لہب کے گھر والوں میں سے کسی نے اسے خواب میں نہایت برے حال میں دیکھا۔ اس نے کہا: ’’تمہارے بعد مجھے کوئی راحت نصیب نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ ہر پیر کے دن میرا عذاب ہلکا کر دیا جاتا ہے۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے دن پیدا ہوئے تھے اور ثُوَیبہ نے ابو لہب کو آپ ﷺ کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔ اس نے کہا: ’’کیا تمہیں خبر ہے کہ آمنہ نے تمہارے بھائی عبداللہ کے ہاں بیٹے کو جنم دیا ہے؟‘‘ تو ابو لہب نے جواب دیا: ’’جاو، تم آزاد ہو۔‘‘ چنانچہ اس عمل کا فائدہ اسے ہوا، حالانکہ وہ آگ میں ہے۔ (مختصراً)

امام صالحی نے اپنی کتاب سبل الهدى والرشاد (ج 1، ص 367، طبع دار الكتب العلمية) میں شیخ القراء حافظ ابوالخیر ابن جزری کا یہ قول نقل کیا ہے: جب ابو لہب کافر- جس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، صرف اس خوشی پر کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی رات اسے بشارت ملی- آگ میں بھی کچھ تخفیف کا مستحق ہوا، تو پھر سيدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا حال ہو گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی مناتا ہے اور اپنی قدرت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں خرچ کرتا ہے؟ قسم ہے میری جان کی! اللہ کریم کا انعام یہی ہوگا کہ وہ اپنے فضل سے اسے جنت النعیم میں داخل فرمائے۔"

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے جو عاشوراء کے دن روزہ رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ روزہ کس چیز کا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا، اور فرعون اس دن غرق ہو گیا تھا، اور اسی دن سیدنا نوح علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تھی، تو سیدنا نوح اور سیدنا موسیٰ علیہما السلام نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور اس دن کے روزے کا بھی زیادہ حق دار ہوں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (اسے امام احمد نے اپنی ’’مسند‘‘ میں، ابو الشيخ اور ابن مردویہ نے روایت کیا ہے)۔

جب سیدنا نوح علیہ السلام کی نجات کے دن اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی نصرت کے دن کو منانا مشروع ہے تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن کا جشن منانا بدرجہ اولیٰ مشروع ہے۔

 

مختلف عبادات کے ذریعے میلاد النبی شریف منانے کا حکم

علماء نے ذکر کیا ہے کہ صدیوں سے عام مسلمانوں کے ہاں یہ بات ثابت ہے کہ میلاد النبی  شریف کا انعقاد سوال میں مذکور مختلف عبادات اور اس کے علاوہ دوسری نیک اعمال کے ساتھ جائز ہے۔

حافظ سخاوی نے اپنی کتاب الأجوبة المرضية (ج 1، ص 1116، طبع دار الراية) میں فرمایا: اہلِ اسلام ہمیشہ سے مختلف خطوں اور بڑے بڑےشہروں میں ماہِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جشن مناتے آئے ہیں، اور بہترین ضیافتیں کرتے ہیں جو خوشی و مسرت کے اعلیٰ مظاہر پر مشتمل ہوتی ہیں، ان مبارک راتوں میں مختلف طرح کے صدقات دیتے ہیں، خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور نیک کاموں میں اضافہ کرتے ہیں۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ پاک کے واقعات پڑھنے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، اور اس کی برکتوں سے ان پر ہر طرح کا عظیم فضل ظاہر ہوتا ہے، یہاں تک کہ یہ امر بار بار آزمودہ پایا گیا ہے۔

اسی طرح کے کلمات دیگر علماء نے بھی فرمائے ہیں، جن میں حافظ قسطلانی نے اپنی کتاب المواهب اللدنية (ج 1، ص 89، طبع التوفیقية)، اور علامہ دیار بکری نے تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس صلى الله عليه وسلم (ج 1، ص 223، طبع دار صادر) میں ذکر کیا ہے، نیز دیگر اہلِ علم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔

اور اس جشنِ میلاد کو مختلف عبادات کے ساتھ خاص کرنا، جیسے قرآنِ کریم کی تلاوت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا کچھ حصہ سننا، مدح و نعت، نعتیہ اشعار اور مناجات پڑھنا—یہ سب شرعاً مستحب امور ہیں جن پر شرعی نصوص کے عمومات دلالت کرتے ہیں۔

 

ان نصوص میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۝ وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا﴾ [الأحزاب: 41-42] ’’اے ایمان والو! اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو۔‘‘

اور امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [الأحزاب: 56] ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود وسلام بھیجا کرو۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، اور میری قبر کو عید کی جگہ نہ بنا لینا، اور مجھ پر درود بھیجا کرو، کیونکہ تم جہاں کہیں بھی ہوں تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔‘‘ (اسے امام ابو داود نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے)۔

پس یہ تمام دلائل اپنے عموم کے اعتبار سے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور ہمارے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا مستحب ہے۔ اور جو حکم عموم پر وارد ہو اور اس کے لیے کوئی خاص تخصیص نہ آئی ہو، اسے خاص کرنا جائز نہیں۔

خلاصہ
اس بنا پر اور سوال میں مذکور صورت کے مطابق: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن آپ لوگ جو مختلف عبادات اور نیک اعمال کے ساتھ میلاد النبی شریف کا اہتمام کرتے ہیں، یہ شرعاً مستحب عمل ہے اور اس پر اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas