آیتِ میراث کی قطعیّت کا بیان
Question
آپ لوگ اس پر کیوں اصرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ [النساء: 11] قطعی دلائل میں سے ہے جس کی مخالفت جائز نہیں، حالانکہ مجتہدین نے بہت سی میراث کی نصوص میں بلکہ اسی آیتِ کریمہ کی بقیہ حصوں میں بھی اختلاف کیا ہے؟ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ آیتِ میراث ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ ترجمہ: (اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت (تاکیدی حکم )دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے) [النساء: 11]یہ ایک ایسی قرآنی نص ہے جو قطعی الدلالہ ہے اور اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ اس پر فقہاء کا اجماع قائم ہے اور اس کی دلالت بالکل واضح ہے جو کسی بھی تاویل کا احتمال نہیں رکھتی۔
تفصیلات....
کتاب اللہ اور سنتِ نبویہ مطہرہ کی نصوص اپنی دلالت کے اعتبار سے- جن سے حکم مستنبط کیا جاتا ہے- دوقسم کی ہیں: قطعی الدلالہ؛ یعنی وہ جن میں نص صرف ایک ہی متعین معنی پر دلالت کرتی ہے اور اس کے علاوہ کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں رہتا۔ اور ظنی الدلالہ؛ یعنی وہ نصوص جن کی دلالت اپنے معنی پر دو یا زیادہ احتمالات رکھتی ہو۔ ملاحظہ ہو: "التعريفات" للشريف الجرجاني (ص: 144، 259، ط. دار الكتب العلمية)، "الإحكام" للإمام الآمدي (4/241، ط. المكتب الإسلامي)، اور "أصول الفقه" للعلامة عبد الوهاب خلاف (ص: 35، ط. دار القلم) ۔
اصولیین اور فقہاء نے قطعی اور ظنی کو اس معیار کے طور پر مقرر کیا ہے جس کے ذریعے یہ فرق کیا جا سکے کہ کون سی دلیل اختلاف کو قبول کرتی ہے اور کون سی اختلاف کو قبول نہیں کرتی۔ پس جن امور پر اجماع قائم ہو گیا اور وہ دین میں بدیہی طور پر معلوم ہو گئے، انہیں ایسا قرار دیا گیا جن کی مخالفت کسی صورت جائز نہیں، کیونکہ یہ اسلام کی شناخت کو تشکیل دیتے ہیں اور اس پر تنقید کرنا مستحکم دینی اصولوں پر تنقید کے مترادف ہے۔ جبکہ وہ مسائل جن میں اہلِ علم میں سے مجتہدین کرام نے حکم کے اعتبار سے اختلاف کیا ہو اور جن پر اجماع منعقد نہ ہوا ہو، ان میں وسعت ہوتی ہے، ان میں اختلاف رحمت ہے اور ان میں سے کسی بھی قول پر عمل کرنا بلا حرج جائز ہے۔
اور زیرِ بحث آیت — جو کہ آیاتِ میراث کا آغاز ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ [النساء: 11] — یہ قطعی الدلالہ (یقینی دلالت والی) آیات میں سے ہے، جس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں، اس پر عمل کرنا واجب ہے، اور اسے کسی بھی حال میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، چاہے زمانہ کتنا ہی بدل جائے یا وقت کتنا ہی گزر جائے۔
قاضی ابن العربی مالکی رحمہ اللہ نے "أحكام القرآن" (1/435، دار الکتب العلمیة) میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ [النساء: 11] کا مطلب یہ ہے کہ جب میراث میں بیٹا اور بیٹی جمع ہوں تو بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دو حصے ملیں گے، اور بیٹی کو بیٹے کے حصے کا نصف ملے گا۔ یہ اس پر صریح نص نہیں کہ اکیلے وارث ہونے کی حالت میں وہ سارا مال لے لیں گے، لیکن یہ اس پر ایک مضبوط اشارہ ہے؛ کیونکہ اگر وہ اکیلے ہوتے ہوئے پورے مال کے وارث نہ بنتے ہوتے تو پھر ان میں سے کسی ایک کا حصہ بیان کرنا بے فائدہ ہوتا۔ لہٰذا ان کے حصوں کو بیان کرنے سے یہ بات لازمی طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اکیلے ہوں تو پورا ترکہ انہی میں تقسیم ہوگا۔۔۔۔، اور اس کے بعد عموم اور بیان اپنی اصل پر برقرار رہیں گے۔
امام قرافی المالکی نے "نفائس الأصول" (5/2080، ط. مكتبة نزار مصطفى الباز) میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ [النساء: 11]: یہ آیتِ کریمہ افراد کے اعتبار سے عام ہے اور احوال کے اعتبار سے مطلق ہے، پس ہر بچہ اس عموم میں داخل ہے اور مطلق طور پر اس کا وارث ہونا ثابت ہے۔ یہ حکم اپنے عموم پر باقی ہے، کیونکہ ہر بچہ وارث بنتا ہے جب تک کہ وہ قاتل، غلام یا کافر نہ ہو، اور یہ مخصوص حالتیں ہیں۔ لہٰذا ہمارا عمل اس عموم کے مقتضیٰ کے مطابق درست ہے، اور حدیث اس مطلق حالت کو مقید کرتی ہے، نہ کہ عموم کو خاص کرتی ہے۔
بہت سے فقہاء نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ بیٹی کو میراث میں بیٹے کے نصف کے برابر حصہ ملتا ہے۔ امام ابن حزم نے الإحكام في أصول الأحكام (جلد 3، ص 152، دار الآفاق) میں کہا ہے: ان آیات میں سے جنہیں بالاجماع خاص کیا گیا ہے، ان میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ (اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے)۔
اور "المحلى بالآثار" (8/286، ط. دار الفكر) میں فرمایا: مسئلہ: جس نے بیٹا اور بیٹی چھوڑے ہوں، یا بیٹا اور دو یا دو سے زائد بیٹیاں، یا بیٹی اور ایک یا زیادہ بیٹے، یا دو بیٹے اور دو یا زیادہ بیٹیاں چھوڑیں تو بیٹے کے لیے دو حصے ہیں اور بیٹی کے لیے ایک حصہ۔ یہ نصِ قرآن ہے اور اس پر یقینی اجماع ہے۔
امام ابن بطال نے "شرح صحیح البخاری" (8/359، ط. مكتبة ابن رشد) میں فرمایا: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ مرد کے لیے دو حصے اور عورت کے لیے ایک حصہ ہے۔
اور امام قرطبی نے "الجامع لأحكام القرآن" (5/60، ط. دار الكتب) میں فرمایا: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر اولاد کے ساتھ کوئی ایسا وارث موجود ہو جس کا مقررہ حصہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے تو اسے اس کا حصہ دے دیا جائے گا، اور باقی مال میں بیٹے کے لیے دو حصے اور بیٹی کے لیے ایک حصہ ہوگا۔
اور شریعت کی حکمت دونوں صنفوں کے درمیان اس فرق میں ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حصہ دیا، کیونکہ مرد پر نان و نفقہ، خرچ، تجارت اور کسبِ معاش کی مشقتیں عورت کے مقابلے میں زیادہ ہیں، اس لیے مناسب ہوا کہ متعدد صورتوں میں اسے اس کے حق سے دوگنا دیا جائے۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے "التفسیر" (2/225، ط. دار طيبة) میں ذکر فرمایا ہے۔
شیخ الاسلام زکریا الانصاری نے "أسنى المطالب" (3/8، ط. دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا:(پس اگر وہ جمع ہوں) یعنی بیٹے اور بیٹیاں (تو مرد کے لیے عورت کے مقابلے میں دو حصے ہیں)کیونکہ اس پر اجماع ہے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ [النساء: 11]، اور ﴿وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً﴾ [النساء: 176]۔ اور مرد کو عورت پر فضیلت اس لیے دی گئی کہ وہ عورتوں پر نان و نفقہ اور دیگر ذمہ داریوں کا قوام ہے۔"
یہ کہنا غلط ہے کہ آیت اجتہاد اور تاویل کا احتمال رکھتی ہے۔ اس سیاق میں اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے خود میراث کے حصے متعین فرمائے ہیں اور اپنی رحمت، عدل اور حکمت کے تحت حصوں کو مقرر کیا ہے، اور اس معاملے کو کسی انسان کے سپرد نہیں کیا۔ پس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی ضمانت کے دائرے میں داخل ہے، اور وہی اپنے بندوں کے لیے بہتر جاننے والا ہے اور جانتا ہے کہ ان کی مصلحت کس میں ہے۔
امام سہیلی نے "الفرائض وشرح آيات الوصية" (ص: 27، ط. المكتبة الفيصلية) میں فرمایا: پھر میں نے غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو حلال و حرام، حدود و احکام بیان فرمائے ہیں، ان میں سے کسی چیز کی ابتدا اس انداز سے نہیں کی، جیسا کہ اس آیتِ میراث کی ابتدا فرمائی، اور نہ کسی چیز کا اختتام ویسے کیا جیسا اس آیت کا کیا۔ کیونکہ اس نے آغاز میں فرمایا: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾، تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف وصیت کی نسبت فرمائی، تاکہ اس بات پر تنبیہ ہو کہ جو وصیت اس نے فرمائی ہے وہ اس کی حکمت، عدل اور رحمت پر مبنی ہے۔ حکمت اس لئے کہ تو اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ اس کے حکم میں بندوں کے لیے کتنی مصلحت ہے، اور اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے ان کے عمل میں کتنا فساد پایا جاتا تھا؛ کیونکہ وہ بڑے بچوں کو وارث بناتے اور چھوٹوں کو محروم رکھتے، اور مردوں کو وارث بناتے مگر عورتوں کو نہیں، اور کہا کرتے تھےکہ کیا ہم اپنے مال کے ان لوگوں کو وارث بنائیں جو نہ گھوڑے پر سوار ہو سکتے ہیں، نہ تلوار چلا سکتے ہیں اور نہ ہی بکریاں ہانکتے ہیں؟! پس اگر اللہ تعالیٰ انہیں ان کی آراء کے سپرد کر دیتا اور انہیں ان کی خواہشات کے ساتھ چھوڑ دیتا تو موت کے وقت ان کی خواہشات بعض بیٹوں کی طرف مائل ہوتیں اور بعض کو چھوڑ دیا جاتا، جس کا نتیجہ جھگڑے، دشمنی، ظلم اور ناانصافی کی صورت میں نکلتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے وصیت کا حق چھین لیا اور اسے اپنی ذات کی طرف لوٹا دیا تاکہ وہ اپنے علم اور اپنی حکمت کے مطابق تقسیم کرے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت کے اختتام پر فرمایا: ﴿وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ﴾یعنی: یہ اللہ کی طرف سے وصیت (تاکیدی حکم) ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، نہایت بردبار ہےَ [النساء: 12]، اور اس سے پہلے فرمایا: ﴿فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا﴾ ترجمہ: یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرده ہیں بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے [النساء: 11]۔ رہی اس کی عدل کی حکمت: تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کو آپس میں برابر قرار دیا، کیونکہ وہ دیت، اور عقل (یعنی خون بہا اور عاقلہ کی ذمہ داریوں) کے احکام میں برابر ہیں اور نفع کی اُمید میں بھی یکساں ہیں۔ اور یہ کہ کم سنی، ولادت کے حق اور نسب کے معنی کو باطل نہیں کرتی۔ اور یہ کہ ہر ایک (اولاد) جگر کا ٹکڑا اور حاسدوں کے لیے باعثِ رنج ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ اور یہ نہیں فرمایا: ﴿بِأَوْلَادِكُمْ﴾، کیونکہ اس کا مقصد ان کے درمیان عدل کرنا اور ان پر ظلم سے خبردار کرنا ہے۔
اسی بناء پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ قطعی الدلالہ ہے، جو اختلاف کو قبول نہیں کرتا، اور اس کا حکم نماز، زکوٰۃ اور معاملات کے احکام کی طرح ہے۔ اس پر عمل کرنا واجب ہے اور اسے بدلنا کسی حال میں جائز نہیں، چاہے زمانہ کتنا ہی بدل جائے یا وقت کتنا ہی گزر جائے، اور اس پر اجماع بھی قائم ہے، جو اس کی قطعی الدلالہ ہونے کی دلیل اور بلا شبہ اس کی مزید تاکید ہے ۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.