نمازَ کسوف وخسوف کا حکم اور ادا کرنے کا طریقہ
Question
سائل نے دریافت کرنا چاہتا ہے کہ سورج گرہن کی نماز اور چاند گرہن کی نماز کا کیا حکم ہے؟ اور انہیں کس طرح ادا کیا جاتا ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
صلاۃُ الکسوف اور صلاۃُ الخسوف کا حکم
لغوی اعتبار سے کسوف کے بارے میں – جیسا کہ المجموع شرح المهذب (ج 5، ص 37، مطبعہ منیریہ) میں آیا ہے – کہا جاتا ہے: كَسَفَت الشمس (کاف وسین کے فتحہ کے ساتھ) یعنی سورج گرہن لگ گیا، اور كَسَف القمر یعنی چاند گرہن لگ گیا، اور' كُسِفا' بھی کہا جاتا ہے (کاف کے فتحہ اور سین کے کسرہ کے ساتھ)، اور یہ بھی کہا جاتا ہے: انكسفا، خَسَفا، خُسِفا اور انخسفا۔ پس سورج اور چاند کے بارے میں چھ لغات ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے: كَسَفَت الشمس (سورج گرہن) اور خَسَف القمر (چاند گرہن)۔ اور بعض نے کہا: دونوں کے کسوف ابتداءِ گرہن کو کہتے ہیں اور خسوف انتہا کو، اور اس طرح آٹھ لغات ہوگئیں۔ یہ چھ لغات صحیحین میں آئی ہیں۔ اور لغت کی کتابوں میں صحیح اور مشہور یہ ہے کہ دونوں لفظ سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں کیلئے مستعمل ہیں، مگر فقہاء کی زبان میں زیادہ مشہور یہ ہے کہ کسوف سورج کے لیے اور خسوف چاند کے لیے مخصوص ہے۔ اور جوہری نے الصحاح میں دعویٰ کیا ہے کہ یہی زیادہ فصیح ہے۔
نمازِ کسوف اور خسوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اور ان کو جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔ اس کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی متفق علیہ حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، انہیں نہ کسی کے مرنے سے گرہن لگتا ہے اور نہ کسی کی زندگی سے، پس جب تم ان کو گرہن لگا ہوا دیکھو تو نماز پڑھو۔"
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں خسوفِ قمر کے موقع پر لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی اور فرمایا: "میں نے یہ نماز صرف اس لیے پڑھی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔"
اور چونکہ چاند گرہن دونوں میں سے ایک گرہن ہے، لہذا یہ سورج گرہن کی مانند ہے۔ اس لیے اس نماز کو جماعت کے ساتھ اور انفرادی طور پر دونوں طرح پڑھنا سنت ہے۔ (المغنی لابن قدامہ، 2/142، دار إحياء التراث العربي)
کسوف و خسوف کی نماز ادا کرنے کا طریقہ
کسوف یا خسوف کی نماز دو رکعت ہے، ہر رکعت میں دو قیام ہوتے ہیں، دونوں قیاموں میں سورۂ فاتحہ اور بقدرِ آسانی قرآنِ مجید کی قراءت کی جاتی ہے، دو رکوع اور دو سجدے کیے جاتے ہیں۔اس کی کامل ترین صورت یہ ہے کہ نمازی سب سے پہلے تکبیرِ تحریمہ کہے، پھر دعائے استفتاح (یعنی ثناء) پڑھے، اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے، سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ یا اس کے برابر کوئی طویل قراءت کرے، پھر لمبا رکوع کرے اور اس میں تقریباً سو آیات کے برابر تسبیح پڑھے، پھر رکوع سے اٹھے اور اعتدال میں یعنی کھڑے ہو کر تسبیح و تحمید کہے، پھر دوبارہ سورۂ فاتحہ اور پہلی قراءت سے کچھ کم طویل سورت مثلاً سورۂ آلِ عمران یا اس کے برابر قراءت کرے، پھر دوسرا رکوع کرے جو پہلے رکوع سے کچھ کم طویل ہو، پھر رکوع سے اٹھے اور تسبیح و تحمید کہے لیکن اعتدال یعنی کھڑے ہونے کو زیادہ طول نہ دے، پھر دو سجدے کرے اور انہیں طویل کرے لیکن سجدوں کے درمیان بیٹھنے کو زیادہ لمبا نہ کرے۔ اس کے بعد دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو اور اسی طرح دو قیام اور دو رکوع کے ساتھ نماز پڑھے لیکن پہلی رکعت سے ہر قراءت اور رکوع کچھ کم طویل ہوں۔ پھر آخر میں تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے۔
قراءت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ خسوفِ قمر (چاند گرہن) کی نماز میں قراءت جہری ہوگی کیونکہ یہ رات کی نماز ہے، اور کسوفِ شمس (سورج گرہن) کی نماز میں قراءت سری ہوگی کیونکہ یہ دن کی نماز ہے۔
اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس سے سوال کا جواب بھی واضح ہوگیا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.