کسی فلاحی ادارے کو اس کی مختلف سرگر...

Egypt's Dar Al-Ifta

کسی فلاحی ادارے کو اس کی مختلف سرگرمیوں پر خرچ کرنے کے لیے زکوٰة دینے کا حکم

Question

ایک مصری غیر سرکاری فلاحی تنظیم جو مرکزی ادارہ برائے تنظیمات وسماجی بہبود کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈ ہے، اور فلاحی کام کے قانون نمبر (149) سنہ 2019ء اور اس کے ضابطۂ عمل کے تحت کام کرتی ہے۔

اور چونکہ یہ تنظیم متعدد سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہے، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

اوّل: یتیم خانوں کا انتظام، جہاں تنظیم تندرست اور معذور یتیم بچوں کی کفالت کرتی ہے، اور ان کی دیکھ بھال متبادل مائیں اور نگرانوں کا مکمل عملہ انجام دیتا ہے۔

دوم: کینسر کے مریضوں کے لیے مہمان خانہ، جہاں یہ تنظیم پورے ملک سے علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو خدمات فراہم کرتی ہے، اور یہ مہمان خانہ مریض اور اس کے ہمراہ آنے والے شخص دونوں کی میزبانی کرتا ہے۔

سوم: انسانی ہمدردی پر مبنی امدادات، جن میں شامل ہیں: یتیم لڑکیوں کی شادی کے لیے سامان یا نقد امداد دینا، ان لوگوں کو ماہانہ نقد امداد دینا جو کام کرنے سے قاصر ہوں یا معذور ہوں اور جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو، غریبوں کو گھریلو سامان بطور عطیہ دینا، یتیموں کی اسکول کی فیس ادا کرنا، اور مصری جامعات میں بصارت سے محروم طلبہ کو لیپ ٹاپ تقسیم کرنا۔

چہارم: صحت سے متعلق سرگرمیاں، جن میں شامل ہیں: نادار مریضوں کے لیے اوپن ہارٹ سرجری اور علاجیاتی کیتھیٹر (therapeutic catheterization)، مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے مریضوں کے لیے بڑے تخصصی ہسپتالوں میں آنکھوں کے آپریشن، مصنوعی اعضا، آلہ جاتِ اعاضہ اور وہیل چیئر فراہم کرنا، نادار مریضوں کے لیے سماعتی آلات مہیا کرنا، اور نادار مریضوں کو باقاعدگی سے ماہانہ بنیاد پر ضروری ادویات فراہم کرنا۔

پانچواں: ترقیاتی منصوبے، جو ’’ایک غریب گاؤں کو کفالت کریں‘‘ کے نعرے کے تحت چلائے جاتے ہیں، جن میں شامل ہیں: مختلف دیہات کی ضرورت مند بیوہ خواتین اور انتہائی مستحق خاندانوں کو مویشی فراہم کرنا، جس میں ڈیڑھ سال تک چارہ اور بیمہ بھی شامل ہوتا ہے، بیوہ خواتین، معذور افراد اور انتہائی مستحق خاندانوں کو چھوٹے کھوکھے (جن میں فریج اور سامان بھی شامل ہوتا ہے) فراہم کرنا، انتہائی پسماندہ دیہات میں گھروں کی مرمت اور بہتری کے منصوبے جیسے غسل خانے بنوانا، گھروں کی چھتیں ڈھانپنا، چھتوں پر موصل مواد لگانا، دروازے اور کھڑکیاں نصب کرنا، اندرونی پلستر کرنا، فرش پر سیرامک ٹائلیں لگانا، اور ان گھروں کو لکڑی کے فرنیچر، برقی آلات اور بستر سے آراستہ کرنا، ان دیہات میں جہاں صاف پینے کے پانی کا کوئی ذریعہ نہیں، وہاں دیہاتیوں کے لیے مفت پانی فلٹریشن پلانٹس قائم کرنا، صحرائی علاقوں میں کنویں کھودنا تاکہ مقامی لوگوں کو پانی میسر آئے، ان گھروں تک بجلی پہنچانا جن میں بجلی موجود نہیں، مساجد کی تعمیر اور تکمیل میں تعاون کرنا، مختلف ضلعوں میں دینی مدارس (معاہدِ ازہریہ) قائم کرنا، اور حفاظِ قرآن اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا۔

چھٹا: موسمی سرگرمیاں، جن میں شامل ہیں: رمضان کے مہینے میں ہر سال انتہائی مستحق خاندانوں کو راشن کارٹن تقسیم کرنا، عیدالاضحی پر قربانی کرنا اور اس کا گوشت انتہائی مستحق خاندانوں میں تقسیم کرنا، سردیوں کے موسم میں انتہائی مستحق خاندانوں کو کمبل دینا، اور چھوٹی فلاحی تنظیموں کے لیے ہفتہ وار قافلے بھیجنا جن میں جامعات اور اسکولوں میں مفت کپڑوں کی نمائشیں لگانا اور راشن کی اشیاء تقسیم کرنا۔

ساتواں: کینسر کے علاج کے لیے ایک اسپتال، جس کی یہ تنظیم مفت فنڈنگ کی نگرانی کرتی ہے، اور اس اسپتال کا مقصد دنیا کے جدید ترین طبی معیارات اور منظوریوں کے مطابق معیاری طبی خدمات فراہم کرنا ہے، تاکہ یہ اسپتال ہمارے بالخصوص صعیدِ مصر کے کینسر کے مریضوں کے لیے ایک تحفہ ثابت ہو۔

تو کیا یہ مذکورہ تمام سرگرمیاں زکوٰۃ کے مصارف میں شمار کی جائیں گی؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ زکوٰۃ کے اموال اُن تمام سرگرمیوں پر خرچ کرنا جائز ہے جو فقراء ومساکین جیسے یتیموں، معذوروں، مریضوں اور دیگر ضرورت مندوں پر خرچ سے متعلق ہوں، اور جن کا مقصد اُن کو ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا اور اُن کا گزر بسر قائم رکھنا ہو، بشرطیکہ یہ خرچ اُنہیں ملکیت کے طور پر دیا جائے۔

جہاں تک مذکورہ اسپتال کی اُن مدات میں مالی معاونت کا تعلق ہے جو نادار مریضوں کے علاج، اُن کی طبی دیکھ بھال اور دوائیں فراہم کرنے وغیرہ پر خرچ ہونے کے علاوہ ہوں، جیسے اسپتال کی مرمت، سازوسامان کی فراہمی وغیرہ، اسی طرح عام استعمال کے لیے پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگانا، کنویں کھودنا، دینی مدارس (معاہد ازہریہ) اور مساجد تعمیر کرنا، اور حفاظِ قرآن کریم کو اعزاز دینا — تو یہ سب اخراجات زکوٰۃ سے نہیں بلکہ عمومی اورصدقات جاریہ  کیے جائیں گے، اور اس تمام کام میں متعلقہ قوانین اور ضوابط کی پابندی بھی ضروری ہے۔

تفصیلات:
زکوٰۃ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور شریعتِ مطہرہ نے اس کی ادائیگی کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اس کے مصارف کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں متعین فرما دیا ہے: ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾ ترجمہ: صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے۔(التوبہ: 60)

اور جمہور فقہاء نے زکوٰۃ کے بارے میں یہ شرط عائد کی ہے کہ اس میں تملیک (ملکیت منتقل کرنا) لازم ہے، اس لیے انہوں نے لازم قرار دیا کہ زکوٰۃ فقیر یا مسکین کی ملکیت میں دی جائے تاکہ وہ اس میں اپنے اختیار سے تصرف کر سکے اور اپنی ضرورت پر خرچ کرے، کیونکہ اپنی حاجت کو وہ دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے، جیسا کہ امام شمس الائمہ سرخسی حنفی کی کتاب "المبسوط" (2/202، دار المعرفة)، امام شمس الدین الخطیب الشربینی شافعی کی "مغني المحتاج" (4/173، دار الكتب العلمية)، اور امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی کی "المغني" (2/500، مكتبة القاهرة) میں ہے۔

چنانچہ زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ فقراء و مساکین کی ضروریات پوری کی جائیں، انہیں محتاجی سے نکال کر خوشحال بنایا جائے اور ان کی زندگی اور گزر بسر کا انتظام کیا جائے؛ گویا زکوٰۃ عمارتوں تعمیر سے پہلے انسان کی تعمیر کے لیے ہے۔ اس لیے فقراء ومحتاجوں کی لباس، خوراک، رہائش، روزمرہ ضروریات، تعلیم، علاج اور زندگی کے دیگر امور میں کفایت واعانت کو سب سے پہلی ترجیح دینی چاہیے، تاکہ زکوٰۃ کے بنیادی مقصد کو پورا کیا جا سکے، جسے علما نے "سَدِّ خَلَّةِ المُسلِمِينَ(مسلمانوں کی حاجت روائی)" کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے، جیسا کہ امام ابو جعفر طبری کی کتاب "جامع البيان" (14/316، مؤسّسة الرسالة) میں ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ان ہی (فقراء) کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوۓ فرمایا: ’’انہیں (یمن کے لوگوں کو) بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان ہی کے فقراء کو دی جائے گی‘‘۔ (متفق علیہ)۔

اور اس میں درج ذیل امور شامل ہیں:

غیر قادر یتیم بچوں (صحت مند اور معذور دونوں) کی کفالت و پرورش۔

دوم: نادار اور مستحق مریضوں کا علاج۔

 سوم: نادار یتیم بچیوں کی شادی اور انہیں امداد فراہم کرنا، خواہ وہ امداد سامان کی شکل میں ہو یا نقدی کی صورت میں، اسی طرح اُن لوگوں کو جو کام کرنے کے قابل نہیں، اور اُن معذور افراد کو جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں، ماہانہ نقدی امداد دینا، اور فقراء کو گھریلو فرنیچر بطور عطیہ دینا، مستحق یتیم بچوں کی اسکول فیس ادا کرنا، اور جامعاتِ مصر میں بصری معذوری کے شکار نادار طلبہ کو لیپ ٹاپ فراہم کرنا۔

چہارم: نادار مریضوں کے لیے اوپن ہارٹ سرجری، علاجی کیتھیٹر(therapeutic catheterization)، مختلف ضلعوں کے مستحق مریضوں کے لیے آنکھوں کے آپریشن، اور اُن کے لیے مصنوعی اعضا، معذوری کی تلافی کرنے والے آلات، وہیل چیئرز، طبی سماعتی آلات، اور مستقل بنیادوں پر ماہانہ دواؤں کی فراہمی۔

پنجم: بیوہ عورتوں، معذور افراد اور نہایت محتاج اور نادار لوگوں کو مویشی اور دکانیں (کھوکھے) دینا، بشرطیکہ وہ ان کی ملکیت میں دے دی جائیں اور ان کے بدلے کوئی معاوضہ نہ لیا جائے۔

ششم: نادار افراد کے گھروں کی تعمیر و مرمت اور ان کی حالت بہتر بنانا، ان میں غسل خانے (بیت الخلاء) کی تعمیر و مرمت کرنا، چھتوں کو ڈھانپنا، دروازے اور کھڑکیاں لگانا، اندرونی پلستر کروانا، فرش پر سیرامک لگانا، بجلی کی فراہمی کرنا، اور ان گھروں کو لکڑی کے فرنیچر، برقی آلات اور دیگر ضروری سامانِ فرش سے آراستہ کرنا۔

ہفتم: نادار افراد اور انتہائی ضرورت مند خاندانوں کو ہر سال گوشت، راشن، رمضان پیکج اور سردیوں کے کمبل فراہم کرنا اور تقسیم کرنا، نیز جامعات اور اسکولوں میں مفت کپڑوں کی نمائشوں کا انعقاد کرنا، بشرطیکہ یہ اشیاء واقعی مستحق فقراء تک پہنچیں اور وہی سامان دیا جائے جس کی انہیں حقیقی ضرورت ہو، نہ کہ ایسا سامان جو ان پر زبردستی تھوپا جائے یا جو ان کی بنیادی ضرورت ہی نہ ہو۔

آٹھواں: کینسر اسپتال میں آنے والے نادار مریضوں کا علاج، ان کے لیے ادویات مہیا کرنا، اور ان کے لیے تمام ضروری طبی خدمات اور آپریشن فراہم کرنا۔

اور جب اوپر ذکر کی گئی تمام چیزوں پر زکوٰۃ کے مال سے خرچ کرنا جائز ہے تو عطیات اور صدقات کے مال سے خرچ کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔
جہاں تک مذکورہ اسپتال کی مالی معاونت کا تعلق ہے، اگر یہ معاونت نادار مریضوں کے علاج، ان کے لیے ضروری آپریشن کروانے، ادویات اور طبی نگہداشت مہیا کرنے کے علاوہ دیگر امور جیسے اسپتال کی مرمت، دیکھ بھال، ساز و سامان کی فراہمی وغیرہ کے لیے ہو، یا اسی طرح عام عوام کے لیے پانی صاف کرنے کے پلانٹس قائم کرنے، کنویں کھودنے، دینی مدارس (معاہدِ ازہر) اور مساجد کی تعمیر، اور حفاظِ قرآن و نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہو، تو ان پر زکوٰۃ کے مال سے نہیں بلکہ عام صدقات و عطیات اور صدقات جاریہ سے خرچ کیا جاۓ گا؛ کیونکہ صدقہ کا دائرہ زکوٰۃ سے زیادہ وسیع ہے، صدقہ فقیر اور غیر فقیر دونوں کو دیا جا سکتا ہے اور اس میں ملکیت دینا (یعنی وصول کرنے والے کو مالک بنانا) شرط نہیں، اور یہ کام اوقاف کی آمدنی سے بھی کیے جا سکتے ہیں اگر واقف نے اس کی شرط رکھی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: صدقۂ جاریہ، ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے‘‘ (اسے امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)۔
اور صدقۂ جاریہ ہر وہ صدقہ ہے جس کا نفع اور اجر مسلسل جاری رہے اور باقی رہے، جیسا کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے مشارق الأنوار (1/145، ط. دار التراث) میں اس کی تعریف کی ہے، اور متعدد علماء نے صدقۂ جاریہ کو وقف پر محمول کیا ہے کیونکہ وقف ہی اس کی سب سے واضح مثال ہے جس میں اس کا مفہوم مکمل طور پر پایا جاتا ہے۔

اور اس بنا پر، اور سوال میں بیان کردہ صورت میں: زکوٰۃ کے مال سے اُن تمام سرگرمیوں پر خرچ کرنا جائز ہے جو فقراء و مساکین، یتیموں، معذوروں، مریضوں اور دیگر ضرورت مندوں پر خرچ کرنے، انہیں ضروریات زندگی فراہم کرنے اور ان کا گزر بسرکے لیے ہوں، بشرطے کہ یہ مال ان کی ملکیت میں دیا جائے۔

جہاں تک مذکورہ اسپتال کی ایسی مالی معاونت کا تعلق ہے جو غریب مریضوں کے علاج، ان کی طبی دیکھ بھال، دواؤں کی فراہمی اور اس جیسی ضروریات پر خرچ نہ ہو، جیسے اسپتال کی مرمت، سازوسامان کی تیاری وغیرہ، اسی طرح عام پانی صاف کرنے کے اسٹیشن قائم کرنا، کنویں کھودنا، دینی مدارس اور مساجد تعمیر کرنا، اور حفاظِ قرآن کریم کی حوصلہ افزائی اور اعزاز وتکریم کرنا — تو یہ سب اخراجات زکوٰۃ کے مال سے نہیں بلکہ عام صدقات اور صدقاتِ جاریہ سے کیے جائیں گے، اور اس تمام معاملے میں متعلقہ قوانین و ضوابط کی پابندی بھی ضروری ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas