ڈوب جانے والے لاپتہ شخص کی نمازِ جن...

Egypt's Dar Al-Ifta

ڈوب جانے والے لاپتہ شخص کی نمازِ جنازہ کا حکم

Question

ڈوبنے والے لاپتہ شخص کی نمازِ جنازہ کا کیا حکم ہے؟ ایک شخص نے اپنے قریبی رشتہ دار کے بارے میں سوال کیا جو تیراکی کا شوقین تھا۔ ایک دن وہ تیرنے گیا تو لہروں نے اُسے بہا لیا اور وہ واپس نہ نکل سکا۔ متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی لیکن اب تک اُس کا سراغ نہیں ملا۔ اس واقعے کو پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ تو کیا اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے یا کیا کیا جائے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اگر ریسکیو ٹیم یا تلاش کرنے والے ادارے کو ڈوبے ہوئے قریبی عزیز کی لاش مل جائے تو اسے عام میت کی طرح غسل دیا جائے گا (اگر غسل دینا ممکن ہو)، کفن پہنایا جائے گا، اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور دفن کیا جائے گا۔ لیکن اگر لاش نہ ملے اور نہ ہی اس کی زندگی یا موت کے بارے میں کچھ معلوم ہو، تو اس وقت تک نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائے گی جب تک متعلقہ ادارے یا عدالت کی طرف سے اس کی وفات کا فیصلہ یا حکم نہ آجائے۔ اور جب ایسا فیصلہ یا حکم صادر ہو جائے تو اس وقت اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔

تفصیلات۔۔۔

مصیبت نازل ہونے اور ابتلاء کے وقت مسلمان پر کیا لازم ہے

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے اُنہیں اپنی رضا کے لیے آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اُن کے نیک اعمال میں اضافہ ہو، اُن کے درجات بلند ہوں اور اُن کے گناہ معاف ہوں۔ چنانچہ کبھی اُنہیں مال میں مصیبت پیش آتی ہے، کبھی جان میں، اور کبھی کسی عزیز کے فِقدان میں۔ امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں اُس کے لیے نیکی لکھ دیتا ہے یا اُس کے ذریعے اُس کا کوئی گناہ معاف فرما دیتا ہے۔" (صحیح مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ مصیبت کے نازل ہونے اور بلا کے آنے کے وقت صبر کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہتے ہوئے اُسی کی طرف دعا اور امید کے ساتھ رجوع کیا جائے، تاکہ اجرِ عظیم اور وافر ثواب حاصل ہو۔ امّ المؤمنین سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ، فَيَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللهُ: ﴿إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ﴾ [البقرة: 156]، اللهُمَّ أجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللهُ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا»"جو بھی مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو، اور وہ ویسا ہی کہے جیسا اللہ نے حکم دیا ہے: ﴿إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ﴾اللهُمَّ أجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا، ترجمہ: (ہم اللہ کے ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں)، اے اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور اس کے بدلے مجھے اس سے بہتر عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ لازمی طور پر اُسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔" (صحیح مسلم)

ڈوب کر فوت ہونے والے  کے شہید ہونے کا اعتبار

رسول اللہ ﷺ نے پانی میں ڈوب کر مرنے والے کو بھی شہداء میں شمار فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"شہداء پانچ ہیں: طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب جانے والا، کسی عمارت یا چیز کے گرنے سے دب کر مرنے والا، اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔"
یہ حدیث امام بخاری و امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ مسلم کی ایک روایت میں الفاظ ہیں: "ڈوبنے والا شہید ہے۔"

امام ابو الولید الباجی رحمہ اللہ "المنتقى" (2/27، مطبعہ السعادة) میں فرماتے ہیں: یہ وہ موتیں ہیں جن میں سختی اور شدّت ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے امتِ محمد ﷺ پر فضل فرمایا کہ انہیں ان کی خطاؤں کے کفارے اور اجر میں اضافے کا ذریعہ بنا دیا، یہاں تک کہ ان کو ان کے ذریعے شہداء کے درجوں تک پہنچا دیا۔"

علماء اور شارحینِ حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس حدیثِ مبارکہ اور اس جیسی دیگر روایات میں جو "شہادت" کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد "شہیدِ آخرت" ہے۔ یعنی جو شخص ان مذکورہ موتوں میں سے کسی موت سے وفات پاتا ہے، اسے آخرت میں شہید کے برابر اجر اور ثواب ملتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں حقیقی شہید کی طرح وافر اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے، لیکن دنیا کے احکامِ شہادت اس پر جاری نہیں ہوتے۔ اسی لیے اسے عام میتوں کی طرح غسل دیا جائے گا اور کفن پہنایا جائے گا۔

امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم (13/63، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: علماء نے کہا ہے کہ ان سب (یعنی طاعون، پیٹ کی بیماری، غرق، دبنے وغیرہ سے مرنے والوں) کے لیے شہادت سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں انہیں شہداء کا اجر و ثواب ملے گا، البتہ جہاں تک دنیا کے احکام ہیں تو انہیں غسل دیا جائے گا اور ان پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔"

غرق ہونے والے پر جنازہ کی نماز کا حکم
جو شخص پانی میں ڈوب جائے تو اس کے بارے میں جنازے کے احکام دو صورتوں میں ہیں:

پہلی صورت: اگر اس کی لاش مل جائے اور اس کی موت یقینی طور پر ثابت ہو جائے، تو اس حالت میں اس کے ساتھ دیگر اموات جیسا معاملہ کیا جائے گا: اسے غسل دیا جائے گا (اگر غسل ممکن ہو)، اور کفن پہنایا جائے گا اور اس پر نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔

علامہ اکمل الدین بابرتی حنفی نے العناية شرح الهداية (2/110، دار الفكر) میں فرمایا: اگر دوب کرفوت ہونے والے کو نکال لیا جائے تو اس کو غسل دینا واجب ہے۔"

امام ابن البراذعی المالکی نے التهذيب في اختصار المدونة (1/341، دار البحوث للدراسات الإسلامية وإحياء التراث) میں فرمایا: جو شخص غرق ہو کر یا ملبے تلے دب کر فوت ہو جائے، تو اسے غسل دیا جائے گا اور اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔"

اور شیخ الاسلام زکریا الانصاری شافعی نے أسنى المطالب (1/299، دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: (غریق کو غسل دیا جائے گا) اس کا ڈوبنا کافی نہیں؛ کیونکہ ہمیں میت کو غسل دینے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا یہ فریضہ ہم سے ہمارے فعل کے بغیر ساقط نہیں ہوگا۔"

امام ابن قدامہ حنبلی نے المغني (2/402، مکتبة القاهرة) میں فرمایا: ڈوب کر مرنے والا اگر اس کو غسل دینا ممکن ہو تو غسل دیا جائے گا، اور اگر غسل دینے سے اس کے جسم کے ٹکڑے ہونے کا اندیشہ ہو تو اس پر صرف پانی بہا دیا جائے گا اور ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ اگر پانی بہانے سے بھی اس کے جسم کے ٹکڑے ہونے کا خطرہ ہو تو پھر غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ تیمم کیا جائے گا، جیسے زندہ شخص کو پانی نقصان پہنچائے تو تیمم کرایا جاتا ہے۔ اور اگر میت کو پانی نہ ملنے کی وجہ سے غسل دینا ممکن نہ ہو تو تیمم کیا جائے گا۔ اور اگر میت کے کچھ حصے کو غسل دینا ممکن ہو اور کچھ کو نہیں، تو جس حصے کو غسل دینا ممکن ہو اسے غسل دیا جائے اور باقی حصے کو تیمم کرایا جائے، یہ معاملہ زندہ شخص کی طرح ہے۔"

اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی لاش نہ ملی ہو اور نہ ہی یہ معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے۔ اس صورت میں صرف غائب ہونے یا لاپتہ ہونے کی بنا پر اس شخص کو مردہ شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس بارے میں انہی متعلقہ سرکاری اداروں کی طرف رجوع کیا جائے گا جو تفتیش اور شواہد جمع کرنے کے ذمہ دار ہیں، تاکہ تمام ممکنہ طریقوں اور ذرائع سے موت کے غالب گمان تک پہنچا جا سکے۔ اور لاپتہ شخص کو کسی حال میں مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ متعلقہ ادارے کا باضابطہ فیصلہ یا عدالت کا حکم موت کے بارے میں جاری نہ ہو۔ یہ بات مصری قانون نمبر 25 سنہ 1929ء کی دفعات (21 اور 22) اور اس میں قانون نمبر 140 سنہ 2017ء کے تحت ہونے والی ترمیمات سے ثابت ہے۔ لہٰذا جب تک باضابطہ طور پر اس کے فوت ہونے کا فیصلہ نہ ہو جائے، نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی؛ کیونکہ شریعت میں یہ اصول مسلم ہے کہ نمازِ جنازہ صرف اسی وقت پڑھی جاتی ہے جب کسی شخص کی موت حقیقتاً یا قانوناً ثابت ہو جائے۔ اور اگر اس کی زندگی کا علم ہو یا اس میں بھی شک باقی رہے تو نماز جنازہ نہیں پڑھی جا سکتی۔

علامہ شهاب الدین الرملي نے "فتح الرحمن بشرح زبد ابن رسلان" (ص: 412، ط. دار المنهاج) میں نمازِ جنازہ کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا: اگر اس کے مرنے میں شک ہو جائے، جیسے یہ احتمال ہو کہ وہ محض بے ہوش ہوا ہے یا گھبراہٹ وغیرہ کی کچھ علامات ظاہر ہوئی ہوں، تو ایسی صورت میں موت کا یقین ہونے تک نمازِ جنازہ مؤخر کرنا واجب ہے۔"

اس بنا پر اگر متعلقہ ادارے کی طرف سے یہ فیصلہ صادر ہو جائے کہ مفقود شخص پانی میں ڈوب کر فوت ہو گیا ہے، تو اس وقت اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ جائز ہے۔ یہی مالکیہ کے ایک قول، شافعیہ اور حنابلہ کی دو میں سے راجح روایت اور ان کے معتمد مذہب کے مطابق ہے۔

امام اللخمی المالکی نے "التبصرة" (2/674، ط. أوقاف قطر) میں فرمایا: عبد العزيز بن ابو سلمہ نے کہا: غریق (ڈوب کر فوت ہونے والا)پر نماز پڑھی جائے گی... شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: غائب پر نمازِ جنازہ جائز ہونے کا قول بہتر ہے۔"

امام ابو العباس القرطبی المالکی نے المفهم (2/611، ط. دار ابن کثیر) میں فرمایا: غریق اور درندے کے پھاڑے ہوئے (آدمی) پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور یہ ہمارے اصحاب میں سے ابن حبیب کا قول ہے۔"

اور امام نووی شافعی نے روضۃ الطالبین (2/130، ط. المكتب الإسلامي) میں فرمایا:  غائب پر نیت کے ساتھ نمازِ جنازہ جائز ہے، چاہے وہ قبلہ کی سمت میں نہ ہو، لیکن نمازی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قبلہ رُخ ہو۔ اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ غائب اور نمازی کے درمیان مسافتِ قصر ہو یا نہ ہو، شرط یہ ہے کہ وہ (میّت) شہر سے باہر ہو۔"

اور امام شمس الدین ابن قدامہ حنبلی نے الشرح الكبير (6/185، طبع ہجر) میں فرمایا: غریق پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اگر وہ غسل سے پہلے ہی ڈوب کر فوت ہوا ہو، تو اس کا حکم دور موجود غائب کی طرح ہے، کیونکہ غسل ایک مانع کی وجہ سے ممکن نہ رہا۔‘‘

اور علامہ ابن مفلح حنبلی نے "المبدع في شرح المقنع" (ج 2، ص 260، طبع دار الکتب العلمیة) میں لکھا: غائب پر نیت کے ساتھ نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، جیسے قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم ہے، اور یہ صحیح ترین روایت ہے۔ اس کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں امام اور غیر امام کے درمیان کوئی فرق نہیں، نہ ہی قصر کی مسافت یا اس سے کم میں کوئی فرق ہے، خواہ قبلہ کی سمت ہو یا کسی اور سمت۔"

خلاصہ

اس بنا پر اور سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق: اگر ریسکیو ٹیم یا تلاش کرنے والے ادارے کو ڈوبے ہوئے قریبی عزیز کی لاش مل جائے تو اسے عام میت کی طرح غسل دیا جائے گا (اگر غسل دینا ممکن ہو)، کفن پہنایا جائے گا، اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور دفن کیا جائے گا۔ لیکن اگر لاش نہ ملے اور نہ ہی اس کی زندگی یا موت کے بارے میں کچھ معلوم ہو، تو اس وقت تک نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائے گی جب تک متعلقہ ادارے یا عدالت کی طرف سے اس کی وفات کا فیصلہ یا حکم نہ آجائے۔ اور جب ایسا فیصلہ یا حکم صادر ہو جائے تو اس وقت اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas