والدین، علما اور صالحین کے ہاتھ چوم...

Egypt's Dar Al-Ifta

والدین، علما اور صالحین کے ہاتھ چومنے کا حکم

Question

 علما، صالحین، والدین، بزرگوں، مشائخ اور دادا دادی یا نانا نانی کے ہاتھ چومنے کا کیا حکم ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ علما، صالحین، والدین، بزرگوں، مشائخ اور اجداد کے ہاتھ چومنا سنت ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری دلالت کرتی ہے اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور آپس میں کیا۔

تفصیلات:

علما، صالحین اور بزرگوں کے احترام کا حکم

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنِ اخلاق کی تکمیل اور اوصافِ حمیدہ کی جامعیت کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ»”مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے“۔ اسے امام احمد نے المسند میں، امام بخاری نے الأدب المفرد میں اور حاکم نے المستدرك میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

 

اور بزار نے المسند میں یہ روایت نقل کی ہے: «إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ» "مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اخلاقِ حسنہ کو مکمل کروں"۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے: "بیشک اللہ نے مجھے اخلاقِ حسنہ کی تکمیل اور اعمالِ حسنہ کے کمال کے ساتھ بھیجا ہے"۔ اسے طبرانی نے الأوسطاورمکارم الأخلاق میں، اور بیہقی نے شعب الإيمان میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مرفوعًا روایت کیا ہے۔

مکارمِ اخلاق میں سے ایک اہم خصلت یہ ہے کہ آدمی اپنے سے بڑے کو اس کی عمر، علم یا مقام کے اعتبار سے تعظیم و توقیر دے۔ جیسا کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص میری امت میں سے نہیں جو ہمارے بڑے کی عزت نہ کرے، ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کے حق کو نہ پہچانے۔“ اسے شاشی نے المسند میں اور طبرانی نے مکارم الأخلاق میں روایت کیا ہے۔ اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے کی تعظیم نہ کرے۔“ اسے ترمذی اور بخاری نے الأدب المفرد میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

علامہ زین الدین مناوی نے "فیض القدير" (ج 5، ص 388، المکتبۃ التجاریۃ الکبری) میں فرمایا: "یہاں واو کا معنی ’یا‘ ہے، یعنی ہر ایک (بزرگ کی توقیر یا چھوٹے پر شفقت) کے ترک پر تنبیہ ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہر ایک کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جائے جو اس کے شایانِ شان ہے؛ پس چھوٹے کو نرمی، رحمت اور شفقت دی جائے، اور بڑے کو عزت و احترام دیا جائے۔"

علما، صالحین اور بزرگوں کے احترام کے مظاہر

علماء، صالحین، والدین، بزرگوں، مشائخ اور اجداد وغیرہ جیسے دینی یا نسبی مرتبہ رکھنے والوں کے احترام کی نمایاں صورتوں میں سے ایک ان کے ہاتھ کو بوسہ دینا ہے۔ یہ ایک مستحب ادب ہے جس کی سنت ہونے پر احادیثِ نبویہ میں واضح دلائل موجود ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک اور قدم مبارک کو بوسہ دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو اس سے منع نہیں فرمایا۔ امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بیان فرماتی ہیں: "جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لاتے تو وہ آپ کے استقبال کے لیے کھڑی ہوتیں اور آپ کا کا دستِ اقدس چومتیں۔" اسے طبرانی نے "المعجم الأوسط" میں اور حاکم نے "المستدرک" میں روایت کیا ہے، اور حاکم نے فرمایا: "یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے، البتہ انہوں نے اسے روایت نہیں کیا۔"

حضرت زارع عبدی رضی اللہ عنہ جو وفدِ عبد القیس میں شامل تھے، بیان کرتے ہیں: "جب ہم مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے جلدی جلدی اترنے لگے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دینے لگے۔" اسے امام ابو داود اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

اور حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: "ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کو بوسہ دیا۔" اسے ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے اپنی "مصنف" میں روایت کیا ہے۔

یہ عمل صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپس میں بھی ایسا کرتے تھے؛ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کسی بافضیلت شخصیت کے ہاتھ کو بوسہ دینا ایک اچھا عمل (سنتِ حسنہ) ہے۔ چنانچہ تمیم بن سلمہ سے روایت ہے کہ "حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔" اسے امام بیہقی اور ابن ابی شیبہ نے اپنی "مصنف" میں روایت کیا ہے اور بیہقی نے مزید نقل کیا کہ تمیم کہا کرتے تھے: "ہاتھ کو بوسہ دینا سنت ہے۔"

علماء و صالحین کے ہاتھ چومنے کے استحباب کے بارے میں فقہاء کے اقوال
فقہاء کی متعدد نصوص اس کے جواز اور استحباب پر وارد ہوئی ہیں۔

علامہ ابن مودود موصلی حنفی نے الاختیار (ج 4، ص 157، مطبعہ الحلبی) میں فرمایا: (عالم اور عادل بادشاہ کے ہاتھ کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں)؛ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطراف کو بوسہ دیا کرتے تھے، اور امام سفیان بن عیینہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: عالم اور عادل بادشاہ کے ہاتھ کو بوسہ دینا سنت ہے۔ پھر حضرت عبد اللہ بن مبارک نے کھڑے ہو کر ان کا سر چوما۔"

امام ابو الحسن المالکی نے کفایة الطالب الربانی (حاشیہ العدوی، ج 2، ص 476، دار الفكر) میں ابن بطال کا قول نقل کیا ہے: ظالموں اور جابروں کے ہاتھ چومنا مکروہ ہے، البتہ باپ، نیک آدمی اور وہ شخص جس کی برکت کی امید ہو، اس کے ہاتھ چومنا جائز ہے۔"

علامہ عدوی نے اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرمایا: ان کے (قول ومن ترجى بركته )یعنی جس سے برکت کی امید ہو، یہ تفسیر کے طور پر ہے، اور ان کے قول( فجائز) سے مراد یہ ہے کہ اس کی اجازت ہے۔ اس اجازت کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے استحباب کی نفی ہو، بلکہ یہ بلاشبہ مستحب ہے، کیونکہ اس میں والد کے ساتھ مزید حسنِ سلوک کا حصول اور نیک شخص سے برکت کی امید ہے۔ اور سیدی زرّوق نے فرمایا: لوگوں کا عمل اس کے جواز پر ہے اس کے حق میں جس کے سامنے تواضع کرنا درست ہو اور جس کی خدمت و اکرام مطلوب ہو۔"

امام نووی نے المجموع (ج 4، ص 636، دار الفكر) میں فرمایا: نیک شخص، زاہد، عالم اور اسی طرح کے اہلِ آخرت کے ہاتھ چومنا مستحب ہے۔"

علامہ بہوتی حنبلی نے كشاف القناع (ج 2، ص 157، عالم الكتب) میں بعض احادیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا: دین داری، اکرام اور احترام کے طور پر ہاتھ اور سر چومنا مباح ہے۔"

بعض علما نے اس مسئلے پر مستقل تصنیف بھی کی ہے، چنانچہ علامہ عبد اللہ بن صدیق غماری نے ''إعلام النبيل بجواز التقبيل'' نامی کتاب لکھی، جس میں ہاتھ اور سر وغیرہ کے بوسے کے جواز پر دلائل جمع کیے ہیں۔

خلاصہ
علما، صالحین، والدین، بزرگوں، مشائخ اور اجداد کے ہاتھ چومنا سنت ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری دلالت کرتی ہے اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور آپس میں کیا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas