جنابت سے طہارت حاصل کرنے کے لیے سمن...

Egypt's Dar Al-Ifta

جنابت سے طہارت حاصل کرنے کے لیے سمندر یا سوئمنگ پول میں غوطہ لگانے کا حکم

Question

ایک سائل پوچھ رہا ہے کہ کیا سمندر یا سوئمنگ پول میں اتر کر پورے جسم کو پانی میں غوطہ دینے سے شرعی غسلِ جنابت ادا ہوجاتا ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ جو شخص سمندر یا سوئمنگ پول میں اس طرح اترے کہ پورے جسم اور بالوں پر پانی بہہ جائے اور وہ جنابت کو دور کرنے کی نیت بھی کرے تو اس کا یہ غسل شرعاً کافی ہے۔ البتہ مستحب ہے کہ دَلک بھی کرے (یعنی بدن کو مَل کر دھوئے) تاکہ ان فقہاء کے اختلاف سے بچ سکے جن کے نزدیک جسم کو مَلنا واجب ہے، کیونکہ اختلاف سے بچنا مستحب ہے۔

تفصیلات....

شرعی غسل کا مفہوم اور اس کی کیفیت کی وضاحت

لغوی اعتبار سے "غُسْل" ( غ کے ضمہ کے ساتھ) اغتسال سے اسم ہے، اور عربی زبان میں اس کے کئی معانی ہیں، مثلاً پورے جسم کو دھونا اور وہ پانی جس کے ذریعے پاکی حاصل کی جاتی ہے۔ (مراجعت: تهذيب اللغة ابو منصور الهروي 8/68، دار إحياء التراث العربي؛ لسان العرب ابن منظور 11/494، دار صادر)۔

شرعی غسل کی حقیقت کے بارے میں فقہاء کے تین اقوال ہیں: حنفیہ کے نزدیک اصطلاحی معنی لغوی معنی کے عین مطابق ہے۔ ان کے ہاں غسل کا رکن یہ ہے کہ پورے بدن پر پانی بہایا جائے اور جہاں تک آسانی سے پانی بہانا ممکن ہو وہاں تک ایک مرتبہ بہایا جائے۔ (مراجعت: بدائع الصنائع امام کاسانی 1/34، دار الكتب العلمية؛ رد المحتار امام ابن عابدين 1/151، دار الفكر

شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک شرعی غسل یہ ہے کہ نیت کے ساتھ پورے بدن پر پانی بہایا جائے۔ (مغنی المحتاج، خطیب شربینی 1/212؛ المغنی، ابن قدامہ 1/82)

مالکیہ کے نزدیک غسل یہ ہے کہ نیت کے ساتھ پورے ظاہر جسم پر پانی پہنچایا جائے اور ساتھ ہی دَلک (یعنی ہاتھ سے بدن کو ملنا) اور مُوالات (یعنی بغیر زیادہ وقفے کے غسل کو مکمل کرنا) بھی ضروری ہے۔ (شرح الخرشی علی مختصر خلیل 1/161)

غسل کی مشروعیت کی دلیل

غسل کی مشروعیت کتاب، سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ترجمہ: ''بیشک اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو بھی پسند کرتا ہے۔'' (البقرة: 222)، اور فرمایا: ﴿وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ﴾ ترجمہ: ''اور اللہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔''(التوبة: 108)۔

سنت سے دلیل یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے، لہٰذا بالوں کو دھوؤ اور جسم کو اچھی طرح صاف کرو۔‘‘ اسے امام ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ نے سنن میں روایت کیا ہے۔

جنابت سے غسل کرتے وقت نیت کی شرط
غسل کے واجب ہونے والے اسباب میں سے ایک سبب جنابت ہے، اور اس پر تمام علماء کا اجماع ہے۔ ملاحظہ ہو: الاختيار للإمام ابن مودود الموصلي (1/112، مطبعة الحلبي) منح الجليل للشيخ عليش (1/119، دار الفكر) روضة الطالبين للإمام النووي (1/81، المكتب الإسلامي) المغني للإمام ابن قدامة (1/146)

فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غسل میں پورے جسم پر پانی بہانا فرض ہے، اور یہ وہ حد ہے جس پر تمام فقہاء متفق ہیں۔ البتہ اس کے علاوہ امور میں اختلاف ہے، جیسے کہ غسلِ شرعی کے صحیح ہونے کے لیے نیت کی شرط۔ چنانچہ جمہور فقہاء یعنی مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک نیت شرط ہے اور وہ غسل کے فرائض میں سے ہے۔ ملاحظہ ہو: مختصر خليل (ص 23، دار الحديث) مغني المحتاج للإمام الخطيب الشربيني (1/217، دار الكتب العلمية) كشاف القناع للإمام البهوتي (1/154، دار الكتب العلمية)۔

جبکہ احناف کے نزدیک غسل میں نیت فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ ملاحظہ ہو: الدر المختار للإمام الحصكفي (1/156، دار الفكر) ومعه حاشية ابن عابدين۔ اور فتویٰ کے اعتبار سے راجح قول یہی ہے کہ نیت غسل کے فرائض میں سے ہے جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے کیونکہ غسلِ جنابت ایک عبادت ہے اور عبادت نیت کے بغیر شرعاً ادا نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «إنما الأعمال بالنيات» یعنی اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔

جنابت کے غسل میں اعضاء کو ملنے کی شرط

غسلِ جنابت میں (تدلیک) اعضاء کو مَلنے کے بارے میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جمہور فقہاء یعنی احناف، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک یہ غسل کی سنتوں میں سے ہے، کیونکہ ان کے نزدیک صرف پانی میں ڈوب جانا ہی غسلِ شرعی کے تحقق کے لیے کافی ہے۔ اس رائے کی تائید امام ابو الفرج المالکی نے بھی کی ہے۔

امام ابو بکر زبیدی حنفی نے "الجوهرة النیرة" (1/10، المطبعة الخیریة) میں فرمایا: اگر جنبی شخص سمندر، بڑے تالاب یا بہتے ہوئے پانی میں ایک ہی بار ڈوب جائے اور پانی اس کے پورے جسم تک پہنچ جائے اور ساتھ ہی کلی اور ناک میں پانی ڈال لے تو اس کا غسل ادا ہو جائے گا۔

امام ابن عبدالبر نے اپنی کتاب "الكافي" (1/175، مطبوعہ مکتبہ الرياض) میں فرمایا: ابو الفرج نے ذکر کیا ہے کہ امام مالک کے نزدیک یہ کافی ہے کہ آدمی پانی میں ڈوب جائے، بشرطیکہ وہ پانی میں اتنا رکے کہ اس کا بدن پوری طرح بھیگ جائے، یا وہ اپنے اوپر مسلسل پانی بہائے یہاں تک کہ پورا جسم تر ہو جائے۔ ابو الفرج نے کہا کہ یہ کیفیت اس کے لیے بدن پر ہاتھ پھیرنے کے قائم مقام ہے۔ اسی معنی کی طرف امام مالک گئے ہیں۔ لیکن امام مالک کے مذہب میں مشہور یہ ہے کہ محض پانی میں ڈوبنا کافی نہیں جب تک بدن کو مَل نہ لے، اور یہی صحیح ہے، ان شاء اللہ، کیونکہ یہ حکم چہرہ دھونے پر قیاس کیا گیا ہے۔

امام نووی شافعی نے "روضۃ الطالبین" (1/7) میں فرمایا: اگر جنبی شخص دو قلّے سے کم پانی میں ڈوب جائے یہاں تک کہ سارا بدن پانی سے تر ہوجائے، پھر نیت کرے تو بلا خلاف اس کی جنابت ختم ہوجائے گی۔

اور امام ابن قدامہ حنبلی نے "المغنی" (1/76) میں فرمایا: اگر جنبی شخص کثیر پانی میں غوطہ لگائے یا کثیر پانی میں وضو کرے، جس میں اپنے اعضاء کو ڈبوئے، تو اس کا غسل اور وضو صحیح ہوجائے گا۔

انہوں نے اس میں حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے استدلال کیا کہ، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ایک عورت ہوں جو اپنے سر کے بالوں کو سختی سے گوندھ کر باندھتی ہوں، کیا مجھے غسلِ جنابت کے لیے ان کو کھولنا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں، تمہارے لیے کافی ہے کہ اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈال لو، پھر اپنے پورے بدن پر پانی بہا لو تو تم پاک ہو جاؤ گی۔" اسے امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں روایت کیا ہے۔

وجہ استدلال یہ ہے کہ اس حدیث میں دَلْک (اعضاء کو ہاتھ سے ملنے) کا ذکر نہیں ہے، اور نہ ہی شریعت اور لغت میں غسل کا نام اس پر موقوف ہے۔ دیکھیں: "تحفة المحتاج" للامام ابن حجر الهيتمي (1/280، ط. الحلبي)۔

جبکہ مالکیہ نے اپنے مذہب میں دَلْک کو غسل کے فرائض میں شمار کیا ہے۔ علامہ الخرشی "شرح مختصر خلیل" (1/169، ط. دار الفكر) میں فرماتے ہیں: "جو شخص اسبابِ غسل میں سے کسی وجہ سے غسل کرنا چاہے، اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کو دَلْك کرے"۔ ان کے قول "مما مر" سے مراد وہ تمام اسباب ہیں جو غسل کو واجب کرتے ہیں۔

اسی طرح علامہ المواق المالکی "التاج والإكليل" (1/322، ط. دار الكتب العلمية) میں لکھتے ہیں: "ابن رشد نے کہا: اس پر اجماع ہے کہ اگر جنبی نہر میں اتر کر غسل کے لیے دَلْك کرے تو یہ اس کے لیے کافی ہے، خواہ اس نے اپنے ہاتھوں سے پانی کو بدن تک نہ پہنچایا ہو اور نہ ہی اپنے اوپر پانی ڈالا ہو۔"

وجوبِ دَلْك کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وہ غسل کے مفہوم میں داخل ہے، لہٰذا اس کے بغیر غسل حاصل نہیں ہوتا۔ (حاشیہ الدسوقي على الشرح الكبير، 1/90، ط. دار الفكر)

البتہ فتویٰ کے لیے راجح قول وہی ہے جو جمہور فقہاء کا ہے کہ دَلْك غسل کی سنتوں اور مستحبات میں سے ہے، فرائض اور ارکان میں سے نہیں، جیسا کہ اُمّ المؤمنین سیدہ اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے واضح ہوتا ہے۔

خلاصہ
اس بنا پر جو شخص سمندر یا سوئمنگ پول میں اس طرح اترے کہ پورے جسم اور بالوں پر پانی بہہ جائے اور وہ جنابت کو دور کرنے کی نیت بھی کرے تو اس کا یہ غسل شرعاً کافی ہے۔ البتہ مستحب ہے کہ دَلک بھی کرے (یعنی بدن کو مَل کر دھوئے) تاکہ ان فقہاء کے اختلاف سے بچ سکے جن کے نزدیک جسم کو مَلنا واجب ہے، کیونکہ اختلاف سے بچنا مستحب ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas