جمعہ کے وقت آن لائن خرید و فروخت کا حکم
Question
جمعہ کی نماز کے اذان کے بعد اور مسجد پہنچنے سے پہلے آن لائن خرید وفروخت کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ جس شخص پر جمعہ کی نماز میں حاضر ہونا واجب ہو، اس کے لیے دوسری اذان (یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر چڑھنے کے بعد دی جاتی ہے) کے بعد آن لائن خرید وفروخت میں مشغول ہونا جائز نہیں۔ بلکہ اسے چاہیے کہ اس وقت کو ذکر ودعا میں لگائے اور پھر خطبہ جمعہ کو غور سے سنے، تاکہ وہ جمعہ کے مکمل اجر وثواب کا مستحق بنے۔ البتہ اگر کوئی ناگزیر ضرورت یا ایسی حاجت پیش آ جائے جو ضرورت کے درجے میں ہو، تو ایسی صورت میں گنجائش ہے، اور ضرورت کے مطابق ہی اجازت ہوگی۔ اس لیے ایسی حالت میں خرید وفروخت کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
آن لائن خرید وفروخت سے مراد
آن لائن خرید وفروخت سے مراد یہ ہے کہ کسی معلوم مال کے بدلے میں معلوم اور شرعاً جائز چیز یا نفع کا تبادلہ جدید برقی ذرائع کے ذریعے کیا جائے۔ یہ خرید وفروخت کا ایک نیا طریقہ ہے جو لوگوں کے لین دین کو آسان بناتا ہے اور ان کا وقت اور محنت دونوں بچاتا ہے۔
جمعہ کے وقت خرید وفروخت کا حکم
شریعتِ مطہرہ نے عام اوقات میں خرید و فروخت کی اجازت دی ہے، سوائے اس وقت کے جب مسلمان نمازِ جمعہ کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ استثناء جمعہ کی عظمت کے اظہار اور اس کی طرف جلدی اور کوشش کرنے کی ترغیب کے لیے ہے، کیونکہ جمعہ ایسی نماز ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے اپنے وقت پر حاصل نہ کر سکے تو وہ بڑے اجر سے محروم رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ ترجمہ:''اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جان لو۔''(سورۃ الجمعۃ: 9)
اسی وجہ سے شریعت نے ہر اس کام کو حرام قرار دیا ہے جو انسان کو نمازِ جمعہ کے لیے جانے اور اسے ادا کرنے سے غافل کر دے، اور خرید وفروخت کا خاص ذکر اس لیے کیا گیا کہ انسان عام طور پر اسی میں سب سے زیادہ مشغول ہوتا ہے، کیونکہ اسی کے ذریعے اس کی زندگی اور معاش قائم رہتی ہے۔
علامہ سمعانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب قواطع الأدلة (جلد 2، صفحہ 129، دار الکتب العلمیة) میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کے جانب سے بیع (خرید و فروخت) سے ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کو جمعہ سے مشغول کر دیتی ہے۔ پس نکاح کے عقود، کرایہ داری کے معاملات، دیگر تجارتی معاملات اور دستکاریاں بھی بیع پر قیاس کرتے ہوئے ممنوع قرار پائیں، کیونکہ یہ سب چیزیں بھی انسان کو جمعہ میں حاضری سے مشغول کرتی ہیں۔
فقہاء کے نصوص اس بات پر متفق ہیں کہ بیع (خرید و فروخت) سے ممانعت بذاتِ خود بیع کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایک خارجی سبب کی بنا پر ہے، اور وہ یہ ہے کہ بیع میں مشغول ہونے کی وجہ سے نمازِ جمعہ سے غافل ہو جانے کا غالب امکان ہوتا ہے، یا یہ کہ وہ خرید و فروخت جمعہ کے لیے جانے میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے۔ کیونکہ جمعہ کی نماز کے لیے سعی کرنا اسی طرح مطلوب ہے جیسے خود نمازِ جمعہ مطلوب ہے، اس لیے کہ نمازِ جمعہ تک پہنچنا اسی سعی کے ذریعے ممکن ہے، اور جس چیز کے بغیر واجب مکمل نہ ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے
جمعہ کی نماز کے لیے جاتے ہوئے آن لائن خرید وفروخت کا حکم
فقہاء کے مابین اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص نمازِ جمعہ کے لیے جا رہا ہو اور راستے میں خرید وفروخت کا معاملہ کرے، تو اس کا حکم کیا ہے؟ یعنی اگر وہ جمعہ کے لیے جانے میں مشغول بھی ہے اور ساتھ ہی خرید وفروخت بھی کر رہا ہے، جس سے سعیِ جمعہ کے مقصد میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ یہی صورت ہمارے دور کے آن لائن تجارت (البيع الإلكتروني) پر منطبق ہوتی ہے، کیونکہ یہ عموماً برقی آلات کے ذریعے انجام پاتی ہے، جن کے ذریعے انسان نمازِ جمعہ کی طرف جاتے ہوئے بھی خرید وفروخت کا عمل مکمل کر سکتا ہے۔
جمہور فقہاء یعنی احناف، شوافع اور حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ جمعہ کے وقت بیع سے ممانعت کا مقصود وہ خرید وفروخت ہے جو نمازِ جمعہ کے لیے جانے میں رکاوٹ بنے یا اس کے فوت ہونے کا سبب بنے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص راستے میں جمعہ کے لیے جاتے ہوئے خرید و فروخت کرے، اور اس کا یہ عمل جمعہ کے وقت پر پہنچنے یا اس کے پانے میں رکاوٹ نہ بنے، تو اس کے لیے ایسا کرنا حرام نہیں ہے۔
علامہ بابرتی نے العناية شرح الهدایة (جلد 6، صفحہ 478، دار الفکر) میں فرمایا: خرید و فروخت کبھی سعیِ جمعہ کے واجب میں خلل ڈالتی ہے، مثلاً جب دونوں بیٹھ جائیں یا کھڑے ہو کر خرید و فروخت میں مشغول ہوں۔ لیکن اگر وہ چلتے ہوئے خرید و فروخت کریں تو اس میں کوئی خلل نہیں، اس لیے ایسا معاملہ بلاکراہت درست ہے۔
اور علامہ ابن عابدین حنفی نے رد المحتار (جلد 2، صفحہ 161، مطبوعہ الحلبي) میں فرمایا: سعیِ جمعہ بذاتِ خود فرض ہے... (اور ‘بیع چھوڑ دینے’ کے قول سے) مراد ہر وہ عمل ہے جو سعی کے منافی ہو، البتہ قرآن کی آیت کی پیروی میں بیع کا خاص ذکر کیا گیا ہے۔۔۔انہوں نے مزید فرمایا: (ولو مع السعی)’ یعنی اگر سعی کے ساتھ بیع کرے، تو ‘السراج’ میں تصریح ہے کہ اگر وہ اس (بیع) میں مشغول ہو کر نمازِ جمعہ سے غافل نہ ہو تو کوئی کراہت نہیں۔”
شیخ زکریا الانصاری الشافعی نے فتح الوهاب (جلد 1، صفحہ 92، دار الفكر) میں فرمایا: جس شخص پر جمعہ فرض ہے، اس پر اذانِ خطبہ شروع ہونے کے بعد ایسی چیزوں میں مشغول ہونا حرام ہے جو اسے جمعہ کی طرف جانے سے مشغول کر دیں، جیسے خرید و فروخت کے معاملات، صنعت و حرفت وغیرہ۔ اور یہ حرمت اُس شخص کے بارے میں ہے جو مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ بیٹھا ہو۔ البتہ اگر اس نے اذان سنی، پھر جمعہ کے ارادے سے اٹھا اور راستے میں بیع (خرید و فروخت) کی، یا جامع مسجد میں بیٹھ کر بیع کی، تو یہ حرام نہیں۔
علامہ ابن قدامة حنبلی نے روضة الناظر (جلد 2، صفحہ 202، مطبوعہ مؤسسة الريان) میں فرمایا: اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیع سے ممانعت کی دلیل یہ ہے کہ یہ سعیِ جمعہ میں رکاوٹ بنتی ہو۔
اور مالکیہ فقہاء کا موقف یہ ہے کہ جمعہ کے وقت بیع ہر صورت میں حرام ہے، چاہے جمعہ اس پر واجب ہو یا نہ ہو، تاکہ یہ کسی ایسے شخص کے لیے عذر نہ بنے جس پر جمعہ واجب ہے کہ وہ اس میں مشغول ہو جائے۔
علامہ الدسوقی مالکی رحمہ اللہ نے الشرح الکبیر (جلد 1، صفحہ 386، دار الفکر) میں فرمایا: اس قول کا مطلب ہے کہ جس پر جمعہ واجب ہے، اس کے لیے اس وقت خرید و فروخت ہر جگہ حرام ہے، چاہے یہ بازار میں ہو یا کسی اور جگہ، اور چاہے بیع اس کے ساتھ ہو جس پر جمعہ واجب ہے یا اس کے ساتھ جس پر واجب نہیں۔
شیخ علیش المالکی نے منح الجليل (جلد 1، صفحہ 437، دار الفكر) میں فرمایا: بیع و شراء کو مطلق طور پر ترک کرنا واجب ہے، نہ کہ صرف اُن لوگوں کے لیے جن پر جمعہ فرض ہے۔ اور اس میں اُس شخص کو بھی روک دیا جائے گا جس پر جمعہ فرض نہیں، تاکہ وہ ان لوگوں کو مشغول نہ کرے جن پر جمعہ فرض ہے، کیونکہ منافع کی وجہ سے یہ ان کے لیے نقصان دہ ہوگا، نیز اس لیے کہ یہ اُس کے لیے ذریعہ نہ بن جائے جس پر جمعہ فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت میں مشغول ہو جائے جن پر جمعہ فرض نہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے مطابق جمعہ کے وقت اس صورت میں بیع جائز ہے کہ یہ نمازِ جمعہ کے لیے سعی میں رکاوٹ نہ بنے، جیسے کوئی شخص راستے میں نماز کی طرف جاتے ہوئے خرید و فروخت کرے۔ تاہم، شرعی نصوص اور آثار میں ایسے دلائل بھی موجود ہیں جو مالکیہ کے موقف کو تقویت دیتے ہیں کہ بیع سے اجتناب کرنا بہتر ہے، چاہے شخص نماز کی طرف جا رہا ہو، تاکہ اذانِ جمعہ کے ادب، اس کے وقت کی تقدیس ، اور نمازِ جمعہ کی طرف جلدی کرنے کے اہتمام کو ملحوظ رکھا جا سکے۔ لہٰذا بہتر اور مناسب یہ ہے کہ جو شخص اپنے گھر سے جمعہ کی نماز کے لیے نکلتا ہے، وہ اذان کے بعد اس وقت کو ذکر، استغفار اور دعا میں مشغول کرے تاکہ اس قلیل اور مختصر وقت کے زیادہ سے زیادہ ثواب و فضائل حاصل ہوں، نہ کہ اس وقت میں وہ خرید و فروخت میں مشغول ہو جو عام اوقات اور دنوں میں اس کے لیے جائز ہے۔ یہ بات ثابت ہے کہ وہ وقت (اذانِ جمعہ کے بعد کا) ان لوگوں کے حق میں جو جمعہ کے مخاطب ہیں، شعائر جمعہ سے خاص ہے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ وہ وقت صرف جمعہ اور اس کے احکام ہی کے لیے مخصوص رہے، اور یہی مفہوم ان تمام نصوص سے ظاہر ہوتا ہے جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں۔
ابو ثمامة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نماز کا ارادہ رکھتے ہوئے گھر سے نکلا اور اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال رہا تھا، تو کعب بن عجرة رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں نہ ڈالیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ میں نے کہا: میں تو نماز میں نہیں ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا: کیا تم وضو کر کے نماز کے لیےنہیں نکلے ہو؟ پس تم نماز میں ہی ہو۔ یہ حدیث البيہقي کی السنن الکبری اور السنن والآثار میں مذکور ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے سابقہ سند میں فرمایا: میں پسند کرتا ہوں کہ نمازِ جمعہ کے لیے جا تے واقت اسی طرح وقار و سنجیدگی اختیار کی جاۓ جیسے میں نماز کے دوران اختیار کرنا چاہتا ہوں۔ امام بیہقی نے اسے السنن والآثار میں ذکر کیا ہے۔
امام ماوردی رحمہ اللہ نے الحاوي الكبير (جلد 2، صفحہ 453، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: جو شخص نمازِ جمعہ کے لیے جا رہا ہو، اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد (یعنی جمعہ) کے علاوہ کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہو، نہ ہاتھوں سے کھیل کرے، اور نہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی نماز کا انتظار کر رہا ہو تو اپنی انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالے، کیونکہ جب تم میں سے کوئی نماز کا رخ کرتا ہے تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ ''
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے إكمال المعلم بفوائد مسلم (جلد 2، صفحہ 553، مطبوعہ الوفاء) میں فرمایا: یہ حدیث اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ نماز کی طرف جاتے وقت وقار اور سکون اختیار کیا جائے، کیونکہ جو شخص اس کی طرف چل رہا ہے وہ دراصل اس کے حصول کے لیے کچھ عمل کر رہا ہے، اور اس وقت وہ نماز میں ہی شمار ہوتا ہے اور اس کے انجام اور انتظار میں شامل ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا: ' کیونکہ جب تم میں سے کوئی نماز کا رخ کرتا ہے تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ ' پس ایسے وقت میں اسے وہی آداب و احکام اختیار کرنے چاہییں جو نماز پڑھنے والا اختیار کرتا ہے، اور یہی امام مالک کا مذہب اور ان کا اختیار کردہ قول ہے۔
امام النووی رحمہ اللہ نے المجموع شرح المهذب (جلد 4، صفحہ 544، مطبوعہ المنیریة) میں فرمایا: جب تک کوئی شخص نماز کی طرف جا رہا ہو، اسے نماز کی وجہ سے اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے، لہٰذا اس پر لازم ہے کہ وہ نماز کے مقررہ آداب اختیار کرے، یعنی راستے میں کھیل کود، فحش باتیں، مذموم نظریں اور وہ سب کچھ ترک کرے جو نماز میں ترک کیا جاتا ہے۔"
یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ جدید برقی ذرائع کے ذریعے خرید و فروخت میں حد سے زیادہ مشغول رہنا — جب کہ اس کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو — باوجود اس کے کہ ان میں اشیاء کی نمائش، رابطے کی سہولت، اور مصنوعات کی کثرت کے اعتبار سے آسانی پائی جاتی ہے، انسان کے وقت کو ضائع کرتا ہے اور اسے عبادت کے وقت دنیاوی امور میں مشغول کر دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نمازِ جمعہ کے اجتماع کے دوران وہ خشوع، سکون اور توجہ جو مطلوب ہے، متاثر ہوتے ہیں۔
اور اس وقت کے بارے میں جس میں بیع و خرید سے اجتناب کرنا مطلوب ہے، مختار قول وہی ہے جو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے، یعنی دوسری اذانِ جمعہ کے وقت سے۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الاختیار للعلامہ الموصلی الحنفی (جلد 1، صفحہ 85، مطبوعہ الحلبي)، المدخل لابن الحاج المالکی (جلد 2، صفحہ 237، دار التراث)، حاشیہ البجيرمي على شرح المنهج للعلامہ البجيرمي الشافعی (جلد 1، صفحہ 373، مطبوعہ الحلبي)، اور کشاف القناع للعلامہ البہوتي (جلد 3، صفحہ 181، مكتبة النصر)۔
خلاصہ
اس بنیاد پر، اور مذکورہ سوال کے تناظر میں:جس شخص پر جمعہ کی نماز میں حاضر ہونا واجب ہو، اس کے لیے دوسری اذان (یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر چڑھنے کے بعد دی جاتی ہے) کے بعد آن لائن خرید وفروخت میں مشغول ہونا جائز نہیں۔ بلکہ اسے چاہیے کہ اس وقت کو ذکر ودعا میں لگائے اور پھر خطبہ جمعہ کو غور سے سنے، تاکہ وہ جمعہ کے مکمل اجر وثواب کا مستحق بنے۔ البتہ اگر کوئی ناگزیر ضرورت یا ایسی حاجت پیش آ جائے جو ضرورت کے درجے میں ہو، تو ایسی صورت میں گنجائش ہے، اور ضرورت کے مطابق ہی اجازت ہوگی۔ اس لیے ایسی حالت میں خرید وفروخت کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.