وفات کے وقت تدفین کے اخراجات کو پور...

Egypt's Dar Al-Ifta

وفات کے وقت تدفین کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بیمہ نظام میں شرکت کا حکم

Question

وفات کے وقت تدفین کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کسی بیمہ نظام میں شامل ہونے کا کیا حکم ہے؟ بعض غیر مسلم ممالک میں میت کے تدفین کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، اور کبھی کبھار میت کے اہلِ خانہ یہ اخراجات برداشت نہیں کر پاتے۔ اس مسئلے کے حل کے طور پر ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ تدفین کے انتظامات کے لیے مخصوص بیمہ میں شرکت کی جائے۔ یہ بیمہ اس طرح ہوتا ہے کہ ہر مہینے ایک مقررہ رقم تدفین کے ادارے کو ادا کی جاتی ہے، اور اگر بیمہ کنندہ کے کسی گھر والے کا انتقال ہو جائے تو اس کی تدفین فوراً کر دی جاتی ہے اور تدفین کے اخراجات الگ سے نہیں لیے جاتے۔ شرعاً اس قسم کے بیمہ میں شرکت کا کیا حکم ہے؟ براہِ کرم وضاحت فرمائیں، جزاکم اللہ خیراً۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ عام مسلمانوں کی تدفین کے انتظامات کے لیے مخصوص بیمہ رقم کی ادائیگی میں شرکت شرعاً جائز ہے، بلکہ یہ عمل مستحب ہے، کیونکہ اس میں باہمی تعاون اور معاشرتی تکافل پایا جاتا ہے جو شریعت میں مطلوب ہے۔ البتہ یہ کام باقاعدہ سرکاری نظم و ضوابط اور قانونی طریقۂ کار کے تحت انجام دیا جانا چاہیے، تاکہ لوگوں کے اموال ضائع ہونے سے محفوظ رہیں اور مصلحت عامہ حاصل ہو۔


تفصیلات....

میت کی تیاری اور تدفین کا حکم

شرعاً یہ بات مسلم ہے کہ میت کے جسم کو دفن کرنا اور اسے مٹی میں چھپانا ہر مسلمان کا حق ہے، تاکہ اس کی انسانیت کا احترام، اس کی حرمت کا لحاظ، اور اس کے جسم کی امانت کی حفاظت کی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى﴾ترجمہ: "ہم نے تمہیں اسی (زمین) سے پیدا کیا، اور اسی میں تمہیں واپس لوٹائیں گے، اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے" (سورۃ طٰہٰ: 55)۔ اور ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی نے بطورِ احسان فرمایا: ﴿أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا ۝ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا﴾ترجمہ: "کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی (جگہ) نہیں بنایا؟ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی" (المرسلات: 25-26)۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بطورِ احسان ذکر فرمایا ہے، اس سے اس عمل کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ نیز فرمایا:﴿فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ﴾ ترجمہ: "پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے" (المائدہ: 31)۔
امام فخرالدین رازی نے مفاتیح الغیب (ج 22، ص 62، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آیتِ کریمہ سے مراد مردوں کو قبروں میں واپس لوٹانا ہے، تاکہ زمین ہر مرنے والے کے لیے جائے قرار اور ظرف بن جائے، سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ اور جنہیں اٹھایا گیا ہے، ان کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ بعد میں انہیں زمین میں واپس لوٹا دیا جائے۔۔

فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کی تیاری اور تدفین فرضِ کفایہ ہے؛ اگر کچھ لوگ یہ فریضہ ادا کر لیں تو باقیوں سے ذمہ ساقط ہو جاتا ہے، لیکن اگر جن لوگوں کو اس کا علم ہو، وہ سب اس میں کوتاہی کریں اور کوئی تدفین نہ کرے، تو سب گناہگار ہوں گے۔

شیخ الاسلام زکریا الانصاری نے أسنى المطالب في شرح روض الطالب (ج 1، ص 298، دار الکتاب الإسلامی) میں فرمایا: (میت کو غسل دینا، کفن پہنانا، اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا) اور اسے اٹھانا (اور دفن کرنا) ان میں سے ہر ایک (فرضِ کفایہ) ہے، جیسا کہ اس پر اجماع منقول ہے۔۔

کس پر میت کے تجہیز وتکفین کا خرچ لازم ہوتا ہے

بنیادی اصول یہ ہے کہ میت کے تجہیز وتکفین کے اخراجات اس کے ترکے سے پورے کیے جائیں، اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو۔ لیکن اگر میت نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو یہ اخراجات ان لوگوں پر واجب ہوں گے جن پر اس کی زندگی میں نفقہ (خرچ) واجب تھا۔ اور اگر ایسے کوئی افراد بھی موجود نہ ہوں تو پھر یہ اخراجات بیت المال (سرکاری خزانے) سے ادا کیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو: نور الإيضاح ونجاة الأرواح از علامہ شرنبلالی حنفی (ص 115، المکتبة العصریة)، شرح مختصر خلیل از امام خراشی (ج 8، ص 197، دار الفكر)، المجموع شرح المهذب از امام نووی (ج 5، ص 189، دار الفكر)، اور المغني از امام ابن قدامہ (ج 2، ص 388، مكتبة القاهرة) ۔

اور اگر اوپر بیان کیے گئے تمام ذرائع (ترکہ، اہلِ نفقہ، یا بیت المال) میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو، تو میت کے تجہیز وتکفین کا خرچ تمام اُن مسلمانوں پر واجب ہو جاتا ہے جو اس کے بارے میں جانتے ہوں اور اس فریضے کو انجام دینے کی قدرت رکھتے ہوں؛ یہ فرضِ کفایہ میں سے ہے۔

امام ابن نجیم نے النهر الفائق (ج 1، ص 385، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اور باقی تمام سامانِ تجہیز... اگر میت کا کوئی ولی یا  ذمہ دار نہ ہو تو اس کا خرچ بیت المال سے ادا کیا جائے گا، اور اگر بیت المال نے ظلمًا یا مجبوری کے باعث کچھ نہ دیا ہو تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کے لیے ایک کپڑا مانگ کر مہیا کریں۔

شیخ دُردیر نے الشرح الصغير (ج 1، ص 552، دار المعارف) میں فرمایا:
اگر میت کے پاس کوئی مال نہ ہو... اور نہ ہی کوئی ایسا ہو جو اس پر خرچ کرنے والا ہو، تو (اس کے تجہیز و تکفین کا خرچ) بیت المال سے دیا جائے گا۔ اور اگر بیت المال بھی موجود نہ ہو، تو (یہ خرچ) مسلمانوں پر فرضِ کفایہ کے طور پر لازم ہوگا۔۔

امام رافعی نے الشرح الكبير (ج 12، ص 284، دار الفكر) میں فرمایا: میت کی تیاری، یعنی کفن دینا، غسل دینا، قبر کھودنا، جنازہ اٹھانا اور دفن کرنا—یہ تمام اخراجات میت کے ترکے سے پورے کیے جائیں گے، اور اگر اس کا کوئی ترکہ موجود نہ ہو تو اس صورت میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ یہ کام انجام دیں۔

اور علامہ بہوتی نے الروض المربع (ص 181، دار المؤيد – مؤسسة الرسالة) میں فرمایا: اگر میت کا کوئی مال نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا شخص ہو جس پر اس کا خرچ لازم ہو، تو اگر میت مسلمان ہے تو اس کا خرچ بیت المال سے دیا جائے گا، اور اگر بیت المال موجود نہ ہو تو ان مسلمانوں پر لازم ہے جو اس کے حال سے واقف ہوں۔

میت کے تجہیز و تدفین میں شرکت کا حکم

ایسے میت کے تجہیز و تدفین میں حصہ لینا جس کے پاس مال نہ ہو، نیک اور باعثِ فضیلت عمل ہے، جو صدقاتِ جاریہ میں شمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس پر عظیم اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے خوشخبری دی ہے کہ جو شخص کسی میت کو کفن دے اور اسے دفن کرے، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ریشمی لباس اور گھر عطا فرمائے گا۔حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان کو غسل دیا اور اس کی پردہ پوشی کی ، اللہ تعالیٰ اسے چالیس مرتبہ بخش دیتا ہے، اور جس نے اس کے لیے قبر کھودی اور اسے دفن کیا، اس کے لیے قیامت کے دن تک اس گھر کے برابر اجر جاری رہتا ہے جس میں اس نے اسے رکھا، اور جو اسے کفن پہنائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن جنت کے سندس اور استبرق (ریشمی کپڑوں) میں لباس عطا فرمائے گا۔(روایت: بیہقی)

شریعت نے لوگوں کے درمیان باہمی تعلقات میں محبت، رحم دلی، درگزر، معافی، ہمدردی، تعاون، حسنِ سلوک، بڑوں کا چھوٹوں پر شفقت کرنا اور طاقتور کا کمزور پر ترس کھانا، ایک دوسرے کی مدد کرنا، اور ان تمام اعمال کی ترغیب دی ہے جو ایک معاشرے کے افراد کے درمیان تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ ترجمہ: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ میں نہ پڑو(آلِ عمران: 103)، اور ایک دوسری آیت میں فرمایا:﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ ترجمہ:  اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو(المائدہ: 2)۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مؤمنوں کی آپس کی محبت، رحمت اور ہمدردی کی مثال  ایک جسم کی مانند ہے؛ جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کے ساتھ اس کا اثر محسوس کرتا ہے۔ (روایت: بخاری و مسلم، اور الفاظ مسلم کے ہیں)۔

اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔ (متفق علیہ)

اور تعاون (باہمی مدد) کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے کام آسان ہو جاتا ہے، مفادات حاصل ہوتے ہیں، اتحاد اور باہمی نصرت ظاہر ہوتی ہے، یہاں تک کہ یہ امت کا ایک اخلاق بن جاتا ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام طاہر بن عاشور نے التحرير والتنوير (ج 6، ص 88، الدار التونسية) میں فرمایا۔

وفات کے وقت تدفین کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بیمہ نظام میں شرکت کا حکم

معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی تعاون کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت وہ ہے جسے آج کے دور میں "بیمہ" کہا جاتا ہے۔ بیمہ کی تعریف یہ ہے کہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت بیمہ کنندہ (کمپنی یا ادارہ) اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ بیمہ شدہ شخص یا اس کے مقرر کردہ مستفید کو، کسی حادثے کے پیش آنے یا کسی خطرے کے واقع ہونے کی صورت میں، ایک مخصوص رقم، یا مقررہ آمدنی، یا کوئی دوسرا مالی معاوضہ ادا کرے، جیسا کہ معاہدے میں بیان کیا گیا ہو۔ اور اس کے بدلے میں بیمہ شدہ شخص، بیمہ کنندہ کو ایک قسط یا کوئی دوسری مالی ادائیگی کرتا ہے۔ یہ تعریف مصری دیوانی قانون (نمبر 131، سن 1948ء) کی دفعہ (747) میں بیان کی گئی ہے۔

بیمہ کی کئی اقسام اور مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں، جن میں سے ایک صورت تعاون پر مبنی سماجی بیمہ (التأمين التعاوني الاجتماعي) ہے، اور یہاں اسی کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ قسم شریعتِ اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق ہے، کیونکہ یہ باہمی تعاون اور سماجی کفالت کی ایک صورت ہے۔ اس قسم کے بیمہ کا مقصد نفع حاصل کرنا نہیں ہوتا، اس لیے اس میں نہ تو جہالت (ابہام) اور نہ ہی غرر (غیر یقینی نقصان) پایا جاتا ہے، اور نہ ہی بیمہ کی رقم کا اقساط سے زیادہ ہونا سود شمار ہوتا ہے؛ اس قسم کے بیمے کا مقصد منافع حاصل کرنا نہیں ہوتا، نہ ہی اسے جہالت یا غرر (غیر یقینی صورتِ حال) فاسد کرتی ہے۔ اسی طرح بیمے کی رقم اگر ادا کی گئی قسطوں سے زیادہ بھی ہو، تو وہ سود نہیں کہلاتی،اس لئے کہ یہ قسطیں مدت کے عوض نہیں دی جاتیں بلکہ خطرے کی صورت میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے رضاکارانہ طور پر بطور تعاون ادا کی جاتی ہیں۔

شرعی دلائل بکثرت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس قسم کے تعاونی و سماجی بیمہ کے عقد کے ساتھ معاملہ کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾ اے ایمان والو! اپنے کیے ہوئے عقود  (اور معاہدوں) کو پورا کرو(المائدہ: 1)۔ یہاں لفظ "العقود" (معاہدات) عام ہے، جو ہر قسم کے عقد کو شامل ہے۔ فقہی طور پر یہ بات مسلم ہے کہ عقود و معاملات میں اصل حکم اباحت (جواز) کا ہے، جب تک کہ کوئی شرعی دلیل حرمت پر دلالت نہ کرے۔ جیسا کہ امام شمس الأئمہ السرخسی الحنفی نے المبسوط میں، امام الدسوقی المالکی نے حاشیة الشرح الکبیر میں، امام ابن الرفعة الشافعی نے کفایة النبیه میں، اور امام ابی السعادات البہوتی الحنبلی نے شرح منتهى الإرادات میں بیان فرمایا ہے۔

مذکورہ وضاحت کے مطابق بیمہ کی یہ صورت ابتدا سے انتہا تک تبرع (عطیہ) پر مبنی ہے۔ بیمہ کروانے والا شخص ابتدا میں جو قسطیں ادا کرتا ہے وہ بطورِ تبرع (عطیہ) ہوتی ہیں، اور بیمہ فراہم کرنے والا (کمپنی) آخر میں اس چیز کا عطیہ دیتا ہے جس پر معاہدے میں اتفاق اور رضامندی ہوئی ہو، خواہ وہ کسی زمین کا ٹکڑا ہو، تدفین کی جگہ ہو یا کوئی اور چیز۔ یوں دونوں فریق اپنے معاہدے کے مطابق ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔
جیسا کہ شریعت میں ثابت ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان اپنے شرطوں (معاہدوں) پر قائم رہتے ہیں۔
اس حدیث کو امام حاکم نے المستدرك میں، اور امام دارقطنی و امام بیہقی نے السنن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

جس طرح تدفین کے تمام مراحل کو مکمل کرنا مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے جب وہ اس کام کے لیے مقرر کردہ افراد موجود نہ ہوں، اسی طرح یہ بات بھی مخفی نہیں کہ اس کام کو انجام دینا ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے اور ان کی پریشانیاں دور کرنے کے باب سے ہے، جس سے باہمی تعاون اور سماجی یکجہتی کی وہ روح ظاہر ہوتی ہے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اشعری لوگ جب جہاد میں رسد کی کمی کا شکار ہو جائیں یا مدینہ میں ان کے اہل و عیال کا کھانا کم پڑ جائے تو ان کے پاس جو کچھ بچا ہو اسے ایک کپڑے میں اکٹھا کر لیتے ہیں، پھر ایک ہی برتن سے اس کو آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔“ (وہ میرے قریب ہیں اور میں ان سے قریب ہوں۔ (بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعریوں کی اس اعلیٰ اخلاقی خصلت اور اپنے بھائیوں کے ساتھ ہمدردی پر ان کی تعریف فرمائی اور دوسروں کو بھی ان کے عمل کی پیروی کرنے کی ترغیب دی۔ (فیض القدیر للمناوی 3/180، المکتبۃ التجاریۃ الکبری)

خلاصہ
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں، عام مسلمانوں کی تدفین کے انتظامات کے لیے مخصوص بیمہ رقم کی ادائیگی میں شرکت شرعاً جائز ہے، بلکہ یہ عمل مستحب ہے، کیونکہ اس میں باہمی تعاون اور معاشرتی تکافل پایا جاتا ہے جو شریعت میں مطلوب ہے۔ البتہ یہ کام باقاعدہ سرکاری نظم و ضوابط اور قانونی طریقۂ کار کے تحت انجام دیا جانا چاہیے، تاکہ لوگوں کے اموال ضائع ہونے سے محفوظ رہیں اور مصلحت عامہ حاصل ہو۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas