مضارب کا مالِ مضاربت کے ساتھ سفر کر...

Egypt's Dar Al-Ifta

مضارب کا مالِ مضاربت کے ساتھ سفر کرنے کا شرعی حکم

Question


مضاربت کے مال کے ساتھ مضارب کے سفر کا کیا حکم ہے؟ ایک شخص نے اپنے چچا زاد بھائی کو الیکٹرانک طریقے سےکچھ رقم بھیجی تاکہ وہ اس سے کاروبار کرے، اور دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نفع ان کے درمیان برابر تقسیم ہوگا، نیز اسے کاروبار میں تصرف کی آزادی بھی دے دی۔ اب چچا زاد بھائی گرمیوں کے موسم میں ایک ساحلی شہر جانا چاہتا ہے تاکہ وہاں فاسٹ فوڈ کے کاروبار میں سرمایہ لگائے، جس سے مزید نفع حاصل ہو سکے۔ تو کیا شرعاً اس مال کے ساتھ اس کا سفر کرنا جائز ہے؟

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ مذکورہ شخص (مضارب)کے لیے تجارت کیلئے گرمیوں میں اس مال کے ساتھ ساحلی شہر کا سفر کرنا شرعاً جائز ہے، خواہ وہ حصولِ نفع کیلئے یہ پیسے فاسٹ فوڈ کے کاروبار میں لگاۓ یا کسی دوسرے جائز اور حلال شعبے میں سرمایہ کاری کرے۔ جب تک مضاربت کے سرمایہ کار (مالکِ مال) نے اسے تجارت میں تصرف کی مکمل آزادی دی ہو اور کسی خاص جگہ تک محدود نہ کیا ہو، اس کا یہ سفر درست ہے۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان معاملات سے متعلقہ قوانین اور ضوابط کی مکمل پاسداری کرے ۔

تفصیلات:

مضاربت کا مفہوم اور اس کی شرعی حیثیت

شرعاً یہ بات مسلم ہے کہ مال کی حفاظت شریعتِ مطہرہ کے عظیم مقاصد میں سے ایک ہے، اور مال کے حصول، اس کی حفاظت، دیکھ بھال اور بڑھوتری کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک "تجارت" ہے۔ جس کی شریعتِ اسلامیہ نے بنیادی طور پر ترغیب دی ہے اور اسے حلال و پاکیزہ کمائی کے بہترین ذرائع میں شمار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾ ترجمہ: ''اے ایمان والو! اپنے مال آپس میں باطل طریقوں سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمہارا آپس میں باہمی رضامندی سے تجارتی لین دین ہو'' (النساء: 29)۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ﴾ ترجمہ: '' وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم کیا تو اس کی راہوں میں چلو پھرو اور خدا کا (دیا ہو) رزق کھاؤ اور تم کو اسی کے پاس (قبروں سے) نکل کر جانا ہے'' (الملک: 15)۔

چونکہ لوگ مال کے تصرف، خرید و فروخت اور تجارت کے ذریعے نفع حاصل کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے مختلف طبقات میں تقسیم ہیں، اور اسی طرح مال کی ملکیت کے اعتبار سے بھی ان میں تفاوت پایا جاتا ہے — ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو تجارت کے امور میں ماہر ہیں مگر ان کے پاس سرمایہ نہیں، جبکہ کچھ کے پاس مال تو ہے لیکن وہ تجارت کا تجربہ نہیں رکھتے — اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے معاملات کو مشروع فرمایا جو دونوں فریقوں کے لیے نفع کا باعث ہوں اور ان کی ضرورت پوری کریں۔ جیسا کہ امام شیخی زادہ نے مجمع الأنهر (جلد 2، صفحہ 321، دار إحیاء التراث العربي) میں اور امام رحیبانی نے مطالب أولي النهى (جلد 3، صفحہ 513، المكتب الإسلامي) میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔

ان ہی عقود میں سے ایک وہ معاملہ ہے جو سوال میں مذکور ہے۔ اگرچہ فقہاء کا اس کے نام میں اختلاف ہے — بعض نے اسے “مضارَبہ”، بعض نے “قِراض”، اور بعض نے “معاملہ” کہا ہے — جیسا کہ امام رحیبانی حنبلی نے مطالب أولي النهى (جلد 3، صفحہ 513) میں ذکر کیا ہے، مگر اس کا مفہوم اور متفقہ تعریف یہ ہے کہ یہ دو فریقوں کے درمیان ایک عقد (معاہدہ) ہوتا ہے، جس میں ایک فریق (مالکِ مال) دوسرے فریق (مضارب) کو ایک مخصوص رقم دیتا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے تجارت کرے اور اسے بڑھائے۔ اس شرط کے ساتھ کہ اس مال سے حاصل ہونے والے نفع میں مضارب کا ایک متعین حصہ ہوگا — جیسے نصف، تہائی یا اس جیسا کوئی اور حصہ — جیسا کہ امام ابو الولید بن رشد نے بداية المجتهد (جلد 4، صفحہ 21، دار الحديث) میں نقل کیا ہے۔

امتِ مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ مضاربہ کا عقد شرعاً جائز ہے، کیونکہ مسلمان اس معاملے پر عہدِ نبوی ﷺ سے لے کر آج تک بغیر کسی اختلاف کے عمل کرتے آ رہے ہیں۔ اس کی مشروعیت پر اجماع کو متعدد آئمہ کرام نے نقل کیا ہے، جن میں امام ابن منذر نے الإقناع (جلد 1، صفحہ 270، مکتبة الرشد) میں اور امام ابن حزم نے مراتب الإجماع (صفحہ 91، دار الکتب العلمیة) میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔

مضاربت کے مال کے ساتھ مضارب کے سفر کے بارے میں فقہاء کے اقوال

جہاں تک اس مضاربت کا تعلق ہے جو مطلق ہو، یعنی جس میں (مالکِ مال) نے (مضارب) کو کسی خاص شرط کے ساتھ مقید نہ کیا ہو — نہ کسی کام کے کرنے کا حکم دیا ہو اور نہ کسی کام سے روکا ہو — تو ایسی حالت میں مضارب کے لیے مضاربت کے مال کے ساتھ سفر کرنے کا حکم فقہاء کے درمیان اختلافی مسئلہ ہے، اور اس بارے میں ان کے تین اقوال منقول ہیں:

پہلا قول:

احناف (اپنے ظاہرِ مذہب کے مطابق) اور مالکیہ کے نزدیک مضارب کے لیے مضاربت کے مال کے ساتھ بلا قید و شرط سفر کرنا جائز ہے، جب تک کہ مالکِ مال اسے اس سے منع نہ کرے، تاکہ وہ کسی بھی محفوظ جگہ پر اس مال کے ذریعے تجارت اور سرمایہ کاری کر سکے۔ کیونکہ جب (مالکِ مال) نے اسے مال میں تصرف کی اجازت مطلق طور پر دے دی، تو یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس نے مال کی ترقی، سرمایہ کاری اور نفع کے حصول میں عرف (عام طریقہ) کو بنیاد بنایا ہے، اور عرف کا تقاضا یہ ہے کہ تجارت اور سرمایہ کاری کبھی سفر میں اور کبھی حضر میں کی جاتی ہے۔

امام شیخی زادہ حنفی نے مجمع الأنهر (جلد 2، صفحہ 324) میں فرمایا: (اور مضارب کو مطلق مضاربت میں یہ حق حاصل ہے) یعنی اس مضاربت میں جو کسی جگہ، وقت یا تجارت کی کسی مخصوص قسم کے ساتھ مقید نہ ہو — جیسے کہ مالک کہے: ‘میں نے یہ مال تمہیں مضاربت کے طور پر دیا’ اور اس سے زیادہ کوئی بات نہ کرے — تو (ایسی صورت میں مضارب کو اختیار ہے کہ) وہ اس مال کے ساتھ خشکی یا سمندر کے راستے سفر کرے، اگرچہ اسے یہ مال اس کے وطن میں ہی دیا گیا ہو۔ یہی ظاہرِ مذہب ہے۔

قاضی عبد الوہاب المالکی نے الإشراف (جلد 2، صفحہ 644، دار ابن حزم) میں فرمایا: مطلق قِراض (مضاربت) میں مضارب کے لیے سفر کرنا جائز ہے، جب تک کہ اسے اس سے منع نہ کیا گیا ہو۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ قِراض اپنے مفہوم کے لحاظ سے مال میں تصرف کا تقاضا کرتا ہے تاکہ اسے بڑھایا جا سکے، اور عرف کا معمول یہ ہے کہ تجارت سفر میں بھی کی جاتی ہے اور حضر میں بھی۔ لہٰذا جب مالک نے مطلق اجازت دی، تو اس سے مراد وہ تمام تصرفات شامل ہیں جو عام طور پر تجارت میں رائج ہوتے ہیں۔

دوسرا قول:
حنابلہ کے ایک قول اور شوافع کے ایک قول کے مطابق — جسے امام بویطی نے نقل کیا ہے — مطلق مضاربت کی صورت میں مضارب کے لیے مضاربت کے مال کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے، بشرطیکہ راستہ محفوظ ہو اور ایسے خطرات موجود نہ ہوں جنہیں شریعت میں معتبر خوف شمار کیا جاتا ہے، جیسے ڈاکوؤں یا دیگر خطرات کا اندیشہ۔

امام نووی شافعی نے روضۃ الطالبین (جلد 5، صفحہ 134، المکتب الإسلامي) میں مضارب (عامل) کے مالِ مضاربت کے ساتھ سفر کرنے کے حکم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ایک قول یہ ہے کہ اگر راستہ محفوظ ہو تو اسے (مضارب کو) سفر کرنے کی اجازت ہے، اور یہ قول امام بویطی نے نقل کیا ہے۔

امام شمس الدین ابن قدامہ حنبلی نے الشرح الكبير (جلد 5، صفحہ 146، دار الکتاب العربي) میں مضارب کا اپنے شریک کے مال کے ساتھ سفر کرنے کے حکم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: کیا مضارب کو مال کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت ہے؟ اس بارے میں دوآراء ہیں… (دوسری رائے یہ ہے کہ) اگر سفر میں کوئی خطرہ نہ ہو تو اسے سفر کی اجازت ہے۔ قاضی (ابویعلی) نے کہا: مذہب کے قیاس کے مطابق اس کی اجازت ہے، جیسا کہ امانت (ودیعت) کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے، کیونکہ مطلق اجازت کا مطلب وہی ہوتا ہے جو عرف میں رائج ہو، اور عرف کا معمول ہے کہ تجارت سفر میں بھی ہوتی ہے اور حضر میں بھی۔ نیز ‘مضاربت’ کا لفظ خود ‘ضرب فی الأرض’ (زمین میں سفر کرنے) سے ماخوذ ہے، لہٰذا مطلق مضاربت میں سفر شامل ہے۔

تیسرا قول:
شافعیہ کے مذہب اور حنابلہ کے ایک قول کے مطابق مضارب کے لیے مضاربتِ مطلقہ کے مال کے ساتھ سفر کرنا اور اسے کسی دوسرے شہر میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، جب تک کہ (مالکِ مال) کی طرف سے اس کے لیے صریح اجازت نہ ہو۔ انہوں نے اس کی علت یہ بیان کی کہ ماضی میں جب سفر کے دوران مال کو حقیقت میں اپنے ساتھ اٹھا کرلے جایا جاتا تھا، تو اس میں مختلف خطرات اور مشقتیں لاحق ہوتی تھیں، کیونکہ اُس وقت حفاظت کے ذرائع محدود تھے، ڈاکوؤں کی کثرت تھی، اور محفوظ راستے کم تھے۔ ایسے حالات میں مال کے ساتھ سفر کرنا گویا مال کو ہلاکت کے خطرے میں ڈالنا تھا، خواہ خطرے کا گمان ہی کیوں نہ ہوتا، کیونکہ اگرچہ بظاہر سفر محفوظ دکھائی دے، جیسے فاصلہ کم ہو اور راستہ پُرامن ہو، پھر بھی وہ خطرے سے خالی نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ حقیقت میں اس میں کسی نہ کسی درجے کا اندیشہ یا غیر یقینی پہلو لازمی طور پر موجود ہوتا ہے۔

امام ابو البقاء دميري شافعی نے النجم الوهاج (جلد 5، صفحہ 277، دار المنهاج) میں مضارب (عامل) کے مالِ مضاربت کے ساتھ سفر کرنے کے حکم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: (اور مضارب کو بغیر اجازت کے مال کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت نہیں) اگرچہ سفر قریب کا ہو، راستہ محفوظ ہو اور کوئی خاص خرچ بھی نہ ہو، کیونکہ اس میں غرر (غیریقینی خطرہ) اور ہلاکت کا اندیشہ پایا جاتا ہے۔ یہ حکم اس وقت ہے جب مالک نے نہ اسے سفر سے روکا ہو اور نہ ہی اجازت دی ہو۔

امام خطیب شِربینی شافعی نے مغني المحتاج (جلد 3، صفحہ 411، دار الکتب العلمیة) میں فرمایا: (مضارب کو مال کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت نہیں) اگرچہ سفر قریب کا ہو، راستہ محفوظ ہو اور اس میں کوئی خاص خرچ نہ ہو، (جب تک کہ مالک کی طرف سے اجازت نہ ہو)، کیونکہ سفر فی نفسہٖ خطرے کا امکان رکھتا ہے۔

امام موفّق الدین ابن قدامہ حنبلی نے المغني (جلد 5، صفحہ 30، مکتبة القاہرہ) میں اپنے شریک (مالکِ مال) کے سرماۓ کے ساتھ مضارب کے سفر کرنے کے حکم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: دو میں سے ایک قول کے مطابق مضارب کو مال کے ساتھ سفر کرنے کا حق نہیں، کیونکہ سفر میں مال کے ضائع ہونے کا خطرہ اور اس میں نقصان کا اندیشہ پایا جاتا ہے۔ البتہ اگر مالک نے سفر کی اجازت دے دی ہو، تو پھر سفرمتعین ہو جاتا ہے۔

مضاربت کے مال کے ساتھ سفر کے جواز پر جدید ٹیکنالوجی اور محفوظ الیکٹرانک بینکنگ کے اثرات

جو حضرات دوسرے اور تیسرے قول کے قائل ہیں — یعنی جنہوں نے مضاربت کے مال کے ساتھ سفر کے جواز کو راستے کے محفوظ ہونے پر موقوف کیا، یا اسے مطلق طور پر منع کیا — ان کا یہ موقف اس زمانے کی حالت پر مبنی تھا جب سفر کے دوران مال کو حقیقتاً اپنے ساتھ اٹھاکر لے جانا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے چوری، حملہ یا دیگر خطرات سے مال کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا تھا۔

لیکن موجودہ دور میں مالی معاملات کے طریقے بالکل بدل چکے ہیں؛ اب روایتی پرانے ذرائع کی جگہ الیکٹرانک والٹس، ڈیجیٹل ایپلیکیشنز اور محفوظ بینکاری پلیٹ فارمز نے لے لی ہے۔ اس طرح مال کا لین دین آسانی اور سہولت کے ساتھ انجام پاتا ہے، بغیر اس خوف یا مشقت کے جو پہلے زمانے میں نقد رقم اٹھا کر سفر کرنے سے پیش آتی تھی۔ اب سرمایہ ان جدید ذرائع کے ذریعے منتقل ہوتا ہے، جو تکنیکی اصولوں اور قانونی ضمانتوں کے تحت کام کرتے ہیں، اور سرماۓ اورحقوق کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بناتے ہیں۔ لہٰذا، جواسباب اور علتیں مضارب کے سفر کو مقید یا ممنوع قرار دینے کیونکہ فقہی قاعدے کے مطابق حکم اپنے وجود اور عدم میں اپنی علت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، جب علت ختم ہو جائے تو حکم بھی ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ امام بدر الدین زرکشی نے تشنيف المسامع (ج 3، ص 54، مکتبہ قرطبہ للبحث العلمي وإحياء التراث) میں بیان کیا ہے۔

خلاصہ
اس بنا پر اور سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق، مذکورہ شخص (مضارب)کے لیے تجارت کیلئے گرمیوں میں اس مال کے ساتھ ساحلی شہر کا سفر کرنا شرعاً جائز ہے، خواہ وہ حصولِ نفع کیلئے یہ پیسے فاسٹ فوڈ کے کاروبار میں لگاۓ یا کسی دوسرے جائز اور حلال شعبے میں سرمایہ کاری کرے۔ جب تک مضاربت کے سرمایہ کار (مالکِ مال) نے اسے تجارت میں تصرف کی مکمل آزادی دی ہو اور کسی خاص جگہ تک محدود نہ کیا ہو، اس کا یہ سفر درست ہے۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان معاملات سے متعلقہ قوانین اور ضوابط کی مکمل پاسداری کرے ۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas