عورت کا نقاب پہن کر نماز پڑھنے کا حکم
Question
نقاب پہن کر عورت کے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ ایک طالبہ جو یونیورسٹی کی سطح پر زیرِ تعلیم ہے، وہ اپنی چند نقاب پوش ساتھی طالبات کو دیکھتی ہے کہ وہ یونیورسٹی کی خواتین کی نمازگاہ میں نقاب چہرے پر ڈالے ہوئے نماز پڑھتی ہیں۔ شریعت کی رو سے اس عمل کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ نماز کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ عورت اپنے تمام بدن کو ڈھانپے، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے — اور بعض فقہاء کے نزدیک پیروں کے بھی — لہٰذا ان طالبات کے لیے بغیر کسی شرعی ضرورت کے چہرہ چھپا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس حال میں نماز نہ پڑھے کہ اس کا کپڑا اس کی ناک پر ہو، کیونکہ یہ شیطان کی لگام ہے۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ؤ
تفصیلات...
یہ بیان کہ سترِ عورت(شرمگاہ کو چھپانا) نماز کی صحت کے لیے شرط ہے
یہ بات شرعاً مسلم ہے کہ سترِ عورت یعنی شرمگاہ کو چھپانا نماز کی صحت کے لیے شرط ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے واضح ہے: ﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ ترجمہ: اے اوﻻد آدم! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔ یہاں زینت سے مراد سترِ عورت ہے۔ [الاعراف: 31]، اس سے یہ لازم آتا ہے کہ نماز کے وقت بدن کو ڈھانپنے والے کپڑے پہننا واجب ہے۔ جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے مفاتیح الغیب (ج 14، ص 229، دار احیاء التراث العربی) میں بیان کیا۔
اسی طرح حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:( لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ ) ترجمہ: بالغ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے قبول نہیں ہوتی۔ اسے امام ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
اور حائض سے مراد یہاں وہ عورت ہے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہو، جیسا کہ امام سراج الدین ابن الملقن نے التوضیح (ج 4، ص 17، دار النوادر) میں بیان کیا۔
نماز میں عورت کے لئے جسم کے شرعی پردے کی حد
نماز میں عورت کی شرمگاہ (یعنی وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے) پورا جسم ہے، سوائے چہرے اور دونوں ہاتھوں کے، جیسا کہ جمہور فقہاء (مالکیہ، شافعیہ، اور حنابلہ) کا موقف ہے۔ البتہ احناف نے اس میں پاؤں کو بھی شامل کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک پاؤں کو بھی چھپانا واجب نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: البحر الرائق (ج 1، ص 284، دار الکتاب الإسلامی) از امام زین الدین بن نجیم الحنفی، الشرح الكبير (ج 1، ص 214، دار الفكر مع حاشیة الدسوقي) از امام ابوالبرکات الدردیر المالکی، أسنى المطالب (ج 1، ص 176، دار الکتاب الإسلامی) از شیخ الاسلام زکریا الأنصاری الشافعی، اور مطالب أولي النهى (ج 1، ص 329-330، المكتب الإسلامی) از امام الرحیبانی الحنبلی۔
عورت کا نقاب پہن کر نماز پڑھنے کا حکم
جب عورت نقاب لٹکائے ہوئے چہرہ ڈھانپ کر نماز پڑھتی ہے تو یہ سجدے کی اس مکمل اور درست ہیئت سے انحراف ہے، جس کی خبر خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب عورت ایسا کسی عذر جیسے بیماری یا سفر وغیرہ کے بغیر کرے۔ اور سجدہ سات اعضاء پر کیا جاتا ہے، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعین فرمایا اور انہیں گن کر بیان کیا: سجدہ کرنے والے کے سر کی پیشانی اور اس کی ناک (اور دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عضو شمار فرمایا)، دونوں ہاتھ (جن کے اندرونی حصے یعنی ہتھیلیاں)، دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کے سرے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں: پیشانی پر (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ فرمایا)، دونوں ہاتھوں پر، دونوں گھٹنوں پر، اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کے سروں پر، اور ہم کپڑوں اور بالوں کو نہ لپیٹیں۔ (اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے روایت کیا ہے۔)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نماز نہ پڑھے کہ اس کا کپڑا اس کی ناک پر ہو، کیونکہ یہ شیطان کی لگام ہے'' اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح امتِ مسلمہ کے علمائے کرام کا بھی اس بات پر اجماع منقول ہے—جو مذکورہ حدیث میں بیان کردہ ممانعت کی تائید کرتا ہے—کہ عورت کا بغیر کسی شرعی عذر کے نقاب پہن کر نماز پڑھنا مکروہ اور ناجائز ہے، کیونکہ اس سے پیشانی اور ناک کا زمین سے براہِ راست لگنا ممکن نہیں رہتا، حالانکہ سجدہ اسی پر ہوتا ہے، نیز نقاب منہ کو بھی ڈھانپ دیتا ہے۔
امام ابن عبدالبرؒ نے اپنی کتاب التمهيد (ج 6، ص 364-365، طبع: أوقاف المغرب) میں فرمایا: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھولے گی… کیونکہ تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت فرض نماز اس حال میں پڑھ سکتی ہے کہ اس کے ہاتھ اور چہرہ کھلے ہوں، تاکہ یہ دونوں حصے زمین سے لگ سکیں، اور اس پر بھی اجماع ہے کہ عورت نقاب پہن کر نماز نہیں پڑھے گی۔
امام ابن القطانؒ نے الإقناع (ج 1، ص 121، طبع: الفاروق الحدیثة) میں فرمایا: تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عورت نقاب پہن کر نماز نہ پڑھے ۔
البتہ یہ ممانعت حرمت پر محمول نہیں بلکہ کراہت پر مبنی ہے، جیسا کہ فقہاء کی نصوص سے واضح ہوتا ہے، حتیٰ کہ بعض فقہاء نے بلا ضرورت اس عمل کو غلو اور افراط میں شمار کیا ہے۔
امام ابو البرکات الدردیرؒ نے الشرح الکبیر مع حاشیة الدسوقی (ج 1، ص 218) میں فرمایا: (اور) عورت کا نقاب پہننا مکروہ ہے، یعنی نماز میں چہرے کو نقاب سے ڈھانپنا، جو آنکھوں تک پہنچتا ہے، کیونکہ یہ غلو میں سے ہے۔
اور امام نوویؒ نے روضۃ الطالبین (ج 1، ص 289، ط. المكتب الإسلامي) میں فرمایا: مرد کے لیے منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، اور عورت کے لیے نقاب پہن کر نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے۔
امام بہوتیؒ نے شرح منتهى الإرادات (ج 1، ص 151، ط. عالم الکتب) میں عورت کے نقاب پہن کر نماز پڑھنے کے حکم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: (اور مکروہ ہے) عورت کا نقاب یا برقع پہن کر نماز پڑھنا، کیونکہ یہ پیشانی اور ناک کے زمین سے لگنے میں رکاوٹ بنتا ہے اور منہ کو ڈھانپ دیتا ہے۔
البتہ یہ کراہت اُس وقت ختم ہوجاتی ہے جب کوئی ضرورت اس کے نقاب پہننے کا تقاضا کرے، مثلاً جب عورت کو نقاب پہننے کی عادت ہو۔ فقہاء نے اس کی مثال اس حالت سے دی ہے کہ اگر نماز کے دوران کچھ غیر مرد موجود ہوں جو عورت کو دیکھنے سے احتراز نہ کریں، یا فتنہ کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں نقاب پہننے میں کوئی کراہت باقی نہیں رہتی۔
امام ابو عبداللہ المواقؒ نے التاج والإکلیل (ج 2، ص 185، ط. دار الکتب العلمیة) میں نماز کے دوران عورت کے نقاب پہننے اور مرد کے منہ ڈھانپنے (تَلَثُّم) کے حکم کو امام لَخمیؒ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: یہ دونوں عمل مکروہ ہیں، البتہ اگر عورت کو کسی مرد کے دیکھنے کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے چہرے پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں کراہت زائل ہو جاتی ہے۔
اور امام تقی الدین حصنیؒ نے کفایة الأخیار (ص 93، ط. دار الخیر) میں عورت کے نقاب پہن کر نماز پڑھنے کی کراہت سے استثناء بیان کرتے ہوئے فرمایا: الا یہ کہ وہ مسجد میں ہو اور وہاں اجنبی مرد موجود ہوں جو نظریں نیچی نہ کرتے ہوں۔
امام بہوتیؒ نے کشاف القناع (ج 1، ص 268، ط. عالم الکتب) میں فرمایا: عورت کے لیے بغیر ضرورت نقاب پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، لیکن اگر ضرورت ہو جیسے کہ اجنبی مردوں کی موجودگی میں، تو کراہت نہیں۔
لہٰذا ہر وہ چیز جس سے نقاب کے ساتھ نماز پڑھنے والی عورت تنگی یا حرج محسوس کرے اسے شرعی طور پر ایسی ضرورت نہیں کہا جا سکتا جس سے نقاب پہننے کی کراہت کو ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے جب تک کوئی حقیقی حاجت پیدا نہ ہو جو عورت کے لیے دقت یا مشقت کا سبب بنے، اس وقت تک اصل حکم یعنی کراہت ہی برقرار رہے گی۔
خلاصہ
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں، سوال میں بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق عورت کے لیے نماز میں اپنے پورے جسم کو ڈھانپنا — سوائے چہرے اور ہاتھوں کے (اور بعض فقہاء کے نزدیک پیروں کے بھی) — صحتِ نماز کی شرائط میں سے ہے۔ البتہ مذکورہ طالبات کے لیے بغیر کسی شرعی ضرورت کے چہرہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
