خرید وفروخت کے وقت نبی اکرم ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم
Question
خرید و فروخت کے وقت نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا یہ عمل بدعت شمار ہوتا ہے؟
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ خرید و فروخت کے وقت نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا ایک مشروع عمل ہے، جس کے کرنے والے کو اجر و ثواب ملتا ہے، بشرطیکہ اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا، نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے کے ثواب کا حصول، اور رزق میں اضافہ اور حصولِ برکت ہو۔
اسے بدعت کہنا یہ خود دین میں ایک نئی بدعت ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی دی ہوئی وسعت کو تنگ کرنے کے مترادف ہے۔
البتہ اگر بیچنے والا درود پڑھنے کا مقصد محض کھیل تماشہ بنانا، یا اپنے سامان کی تشہیر کرنا، لوگوں کی توجہ حاصل کرنا، یا ناقص چیزیں فروخت کرنا ہو، تو یہ عمل کراہتِ تحریمی کے درجے میں آتا ہے؛ کیونکہ یہ طرز عمل نبی کریم ﷺ کے بلند و مقدس مقام کے ادب و احترام کے منافی ہے۔
تفصیلات:
حضورِ اکرم ﷺ پر درود و سلام پھیجنے کی فضیلت
نبیِ مختار، سیدُ الانام، ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا افضل ترین اعمال میں سے ہے اور اللہ کے قرب کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ترجمہ: '' بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود اور خوب سلام بھیجتے رہا کرو'' [الأحزاب: 56] اور رسولِ کریم ﷺ نے بھی اس پر ترغیب دلائی، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت نازل فرماتا ہے''۔ یہ حدیث سننِ اربعہ کے مصنفین نے روایت کی ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ''بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے''۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی ''سنن'' میں روایت کیا ہے۔
حضرت طفیل بن اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رات کا دو تہائی حصہ گزر جاتا تو اٹھ کر فرماتے: ''اے لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، وہ زلزلہ آنے والا ہے جس کے پیچھے دوسرا زلزلہ آئے گا، موت اپنی حقیقت کے ساتھ آ چکی ہے، موت اپنی حقیقت کے ساتھ آ چکی ہے''۔حضرت اُبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا، یا رسولَ اللہ! میں آپ پر درود بہت زیادہ بھیجتا ہوں، تو اپنے وظیفے کا کتنا حصہ آپ پر درود کے لیے مقرر کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو۔ میں نے عرض کیا: ایک چوتھائی؟ فرمایا: جتنا چاہو، اور اگر اس سے زیادہ کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: آدھا؟ فرمایا: جتنا چاہو، اگر بڑھاؤ تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: دو تہائی؟ فرمایا: جتنا چاہو، اگر زیادہ کرو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا: میں اپنا تمام وظیفہ آپ پر درود کے لیے مخصوص کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے''۔ اسے امام ترمذی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔
اور ان کے علاوہ بھی بے شمار احادیث وارد ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، جن کا ذکر تفصیل سے کرنا طویل ہوگا۔ یہ سب اس لیے ہے کہ درود شریف عبادات میں سب سے عظیم اور بلند درجہ رکھنے والی عبادت ہے، جو گناہوں کی بخشش، دعاؤں کی قبولیت اور حاجات کی برآوری کا مؤثر وسیلہ ہے۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی اوپر نہیں جاتا جب تک کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجو۔ اسے امام ترمذی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔
حضرت سہل بن عبداللہ رحمہ اللہ نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا تمام عبادتوں سے افضل ہے، کیونکہ اس عمل کو خود اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں نے انجام دیا، پھر مومنوں کو اس کا حکم دیا، جبکہ دوسری عبادات میں ایسا نہیں ہے۔
اور حضرت ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت طلب کرنا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجے، پھر اپنی حاجت پیش کرے، اور آخر میں دوبارہ درود بھیجے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں درودوں کو قبول فرماتا ہے، اور وہ بہت کریم ہے ان کے درمیان والی دعا کو بھی ردّ نہیں کرے گا۔ ان دونوں اقوال کو امام قرطبی نے اپنی تفسیر (جلد 14، صفحہ 235، طبع دارالکتب المصریہ) میں ذکر کیا ہے۔
خرید وفروخت کے وقت نبی اکرم ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے بارے میں اہلِ علم کے درمیان اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ زندگی میں ایک مرتبہ درود بھیجنا فرض ہے، اور ہر وقت درود پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، جس کا ترک کرنا مسلمان کے لیے مناسب نہیں، اور اس سے غفلت صرف وہی شخص برتتا ہے جس میں خیر نہیں۔ (تفسیر قرطبی، جلد 14، صفحات 232-233)
جہاں تک خرید وفروخت کے وقت درود پڑھنے کا تعلق ہے، تو یہ عمل مشروع اور پسندیدہ ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کے مطلق حکم میں شامل ہے، اور اصول یہ ہے کہ مطلق حکم تمام جگہوں، زمانوں، اشخاص اور حالتوں پر عام ہوتا ہے، اس لیے اس عمومی حکم کو بغیر کسی شرعی دلیل کے مخصوص یا محدود کرنا جائز نہیں، ورنہ یہ دین میں ایسی بدعت شمار ہوگی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی دی ہوئی وسعت کو تنگ کرنے والی ہے۔
اس کے علاوہ فقہاء نے بھی بعض خاص مواقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے جواز و استحباب کا ذکر کیا ہے، جن میں خرید و فروخت بھی شامل ہے۔ علامہ مغربی (متوفی 1119ھ) نے اپنی کتاب البدر التمام شرح بلوغ المرام (جلد 10، صفحات 394–403، طبع ہجر) میں لکھا ہے: بعض مخصوص أمور میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا مشروع (جائز اور پسندیدہ) ہے، اور وہ چھیالیس (46) مواقع ہیں… ان میں پندرہواں موقع: بیع (خرید و فروخت) کے وقت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: »كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالٍ لَا يُبْدَأُ فِيهِ بِحَمْدِ اللهِ وَالصَّلَاةِ عَلَيَّ فَهُوَ أَقْطَعُ مَمْحُوقٌ مِنْ كُلِّ بَرَكَةٍ« ترجمہ: ہر اہم کام جو اللہ کی حمد اور مجھ پر درود سے شروع نہ کیا جائے، وہ برکت سے محروم اور بے ثمر ہوتا ہے۔
حافظ سخاوی نے اپنی کتاب القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع (صفحہ 215، طبع دار الریان للتراث) میں فرمایا: (بیع کے عقد کے وقت درود بھیجنے کے بارے میں) امام اردبیلی نے الأنوار میں کہا ہے کہ اگر خریدار یہ کہے: (بسم الله والحمد لله والصلاة على رسول الله، یعنی "میں نے اللہ کے نام سے، اللہ کی حمد کے ساتھ اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیج کر یہ خرید قبول کی"، تو بیع (سودا) درست ہے ، کیونکہ ممانعت صرف اس چیز سے ہوتی ہے جو عقد کے مقاصد یا اس کے مستحبات میں سے نہ ہو۔ میں (سخاوی) کہتا ہوں: یہ بات اچھی ہے، اگرچہ بیع کے وقت درود کے استحباب پر کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خرید و فروخت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ایک جائز اور اچھا عمل ہے، بدعت نہیں، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔
یہ مشروعیت (یعنی بیع و شراء کے وقت درود بھیجنے کا جواز) اس شرط کے ساتھ ہے کہ ایسا صرف عبادت اور ثواب کے حصول کی نیت سے کیا جائے۔
لیکن اگر کوئی شخص یہ کام محض کھیل تماشے کے طور پر کرے، یا اس کا مقصد مال کی تشہیر، لوگوں کی توجہ حاصل کرنا، یا ناقص اور گھٹیا چیزوں کی فروخت ہو، تو یہ مکروہ تحریمی ہے، کیونکہ یہ طرز عمل نبی کریم ﷺ کے بلند و مقدس مقام کے ادب و احترام کے منافی ہے۔
علامہ ابن مازہ حنفی نے المحيط البرهاني في الفقه النعماني (ج 5، ص 310، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس کپڑا خریدنے آئے، اور جب تاجر کپڑا کھولے تو 'سبحان الله' کہے یا نبی علیہ السلام پر درود بھیجے، اور اس کا مقصد خریدار کو کپڑے کی عمدگی جتانا ہو، تو یہ مکروہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پہرے دار 'لا إله إلا الله' کہے، یا فقاع (یعنی مشروب) کھولنے والا شخص 'لا إله إلا الله' یا 'صلى الله على محمد' کہے تاکہ اس سے نفع حاصل کرے، تو وہ گناہگار ہوگا، کیونکہ وہ اس ذکر کے بدلے قیمت لے رہاہے۔ برخلاف اس کے کہ جب کوئی عالم مجلسِ علم میں کہے: 'نبی پر درود بھیجو'، یا مجاہد کہے: 'اللہ اکبر کہو'، تو وہ ثواب پاتا ہے۔
علامہ موصلی حنفی نے الاختيار لتعليل المختار (ج 4، ص 179، مطبعہ الحلبی) میں فرمایا: تاجر کے لیے یہ عمل مکروہ ہے کہ جب وہ اپنا سامان کھولے تو (دکانداری کے موقع پر) ذکر کرے، اسی طرح اگر فقاعی (مشروب فروش) بوتل کھولتے وقت کہے: ‘لا إله إلا الله’ یا ‘صلى الله على محمد’، تو وہ گناہگار ہوگا، کیونکہ وہ اس ذکر کے ذریعے نفع حاصل کرتا ہے۔ البتہ مجاہد اگر مقابلے کے وقت ‘اللہ اکبر’ کہے، یا عالم مجلسِ علم میں کہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس کا مقصد دین کی تعظیم اور شعائرِ اسلام کا اظہار ہوتا ہے۔
علامہ حصکفی نے الدر المختار (ج 1، ص 518، ط. دار الفكر) میں فرمایا: تاجر کے لیے یہ حرام (یعنی مکروہِ تحریمی) ہے کہ وہ اپنا سامان کھولتے وقت ذکر کرے یا درود پڑھے۔
علامہ ابنِ عابدین نے اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے وضاحت کی: ان کے قول وحرامًا سے مراد کراہتِ تحریمی ہے، جیسا کہ الفتاویٰ الہندیہ میں آیا ہے کہ اگر تاجر کپڑا کھولتے وقت سبحان اللہ یا درود شریف پڑھے اس نیت سے کہ خریدار کو کپڑے کی عمدگی ظاہر کرے، تو یہ مکروہ ہے۔ اسی طرح اگر چوکیدار اجرت کے لیے ذکر کرے یا مشروب فروش مشروب کھولتے وقت اس کے ترویج و تعریف کی نیت سے ‘لا إله إلا الله’ یا ‘صلى الله على محمد’ کہے، تو وہ گناہگار ہوگا۔
علامہ ابن الحاج المالکی نے المدخل (ج 4، ص 100، ط. دار التراث) میں فرمایا: بعض لوگ ایسی چیز فروخت کرتے ہیں جو ناقص اور کم درجے کی ہوتی ہے، مگر وہ اس کی تعریف وتوصیف میں مبالغہ کرتے ہیں… اور بعض اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی چیز کی پکار اور خرید وفروخت کے وقت درودِ شریف پڑھتے ہیں۔
علامہ حطاب مالکی مواهب الجليل (ج 1، ص 18–19، ط. دار الفكر) میں فرماتے ہیں: ابن ناجی نے المدونة کی شرح میں (کتاب الذبائح میں) ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنا ذبح کے وقت، چھینک کے وقت، جماع، ٹھوکر لگنے، تعجب کے اظہار، مال کی تشہیر، اور کسی ذاتی حاجت کے وقت مکروہ ہے۔ شیخ یوسف بن عمر نے ان میں سے تشہیرِ مال کے بجائے کھانے کے وقت کا ذکر کیا ہے۔
شیخ ابو عبد اللہ محمد الرصاع نے کہا: جب تشہیرِ بیع کا ذکر کیا گیا، تو میرے نزدیک اس میں عوام کے وہ کام بھی شامل ہیں جو وہ شادیوں وغیرہ میں کرتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے افعال کو لوگوں کے دیکھنے کے لیے درود شریف کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں، حالانکہ اس کے ساتھ وقار واحترام کی کمی، بلکہ ہنسی مذاق اور کھیل تماشا بھی شامل ہوتا ہے۔
اور ان نصوص سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقہاء نے بیع وشراء کے وقت نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کی جو ممانعت ذکر کی ہے، وہ نیت وارادے کے ساتھ مشروط ہے؛ یعنی اگر اس کے ساتھ کوئی ایسا پہلو پایا جائے جو بارگاہِ نبوی ﷺ کی بے ادبی یا مقامِ اقدس کی تنقیص کا باعث ہو — جیسے درود کو سامان کی تشہیر یا معیار کے اظہار کا ذریعہ بنانا — تو یہ ممنوع ہے۔ لیکن اگر بیع یا خرید کے وقت زبان سے درود شریف محض ذکر، برکت، نیک شگون یا ثواب کی نیت سے جاری ہو جائے، تو اس میں کراہت کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ استحباب کا قول راجح ہوگا، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔
امام سحنون مالکی نے العتبیة میں اُن مواقع کا ذکر کرتے ہوئے جن میں نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا مشروع ہے، فرمایا: درود صرف اسی موقع پر پڑھا جائے جب نیت ثواب حاصل کرنے یا اجر کی امید رکھنے کی ہو۔ (مواهب الجليل از علامہ خطّاب، 1/19)۔
یہی بات علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ نے "الأشباه والنظائر" (ص 23، ط. دار الكتب العلمية) میں اس اصولِ مقاصد کے ضمن میں مثال اور تطبیق کے طور پر ذکر فرمائی ہے۔
اگر اس کے ساتھ یہ نیت بھی شامل ہو کہ خریدار یا فروخت کرنے والا لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہے کہ وہ بھی نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے میں شریک ہوں، تو یہ نیت باعثِ اجر ہوگی، کیونکہ بازار اور ہجوم کی ایسی جگہوں پر ذکر کرنا — جہاں لوگ عام طور پر غفلت میں ہوتے ہیں — باعثِ فضیلت ہے۔ اس طرح وہ شخص اجر و ثواب حاصل کرے گا، خواہ خرید و فروخت واقع نہ بھی ہو۔
مصری عوام کا قدیم زمانے سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ خرید و فروخت کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، ان کا مقصد اس سے اللہ کی رضا اور درود شریف کی فضیلت حاصل کرنا ہوتا ہے، خواہ خرید و فروخت مکمل نہ بھی ہو۔ چنانچہ امام الواعظین شیخ محمد متولی الشعراوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الخواطر (جلد 17، صفحہ 10281، مطابع أخبار اليوم) میں سورۂ نور کی آیتِ کریمہ ﴿رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ...﴾ کی تفسیر میں فرمایا: جب ہم چھوٹے تھے تو بازاروں میں خریدار اور فروخت کرنے والے کے درمیان یہ جملے اکثر سنے جاتے تھے: ‘وَحِّدِ اللّٰه’، ‘صلِّ على النبي’، ‘مدّح النبي’، ‘بالصلاة على النبي’۔ لیکن اب یہ عبارات بازاروں اور تجارتی معاملات سے مٹ چکی ہیں، اور ان کی جگہ ایسی اقدار اور جملوں نے لے لی ہے جو صرف تشہیر، اعلان، بلکہ دھوکے اور فریب پر مبنی ہیں۔ اب ہم ان برکت والی باتوں کو نہیں سنتے۔ حتیٰ کہ اگر خرید و فروخت مکمل نہ بھی ہوتی، تو دکاندار یہ کہتا تھا: ‘ہم نے نبی ﷺ پر درود بھیج کر کما لیا’۔ یعنی خود درود پڑھنا ہی ایک نفع اور کامیابی ہے، چاہے خرید وفروخت نہ بھی ہوئی ہو۔
خلاصہ:
اس بنا پر اور مذکورہ سوال کے تناظر میں ہم کہیں گے کہ نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنا مشروع (جائز اور مستحب) عمل ہے، اور اس پر اجر و ثواب ملتا ہے، بشرطیکہ نیت اللہ تعالیٰ کی رضا، درود شریف کے فضائل کے حصول، اور رزق میں اضافے اور برکت کی ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
