بے مال میت کے کفن و دفن میں شرکت کا شرعی حکم
Question
جس میت کا کوئی مال نہ ہو، اس کے کفن دفن اور تجہیز میں شریک ہونے کا کیا حکم ہے؟جس میت کا کوئی مال نہ ہو، اس کے کفن دفن اور تجہیز میں شریک ہونے کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛
جس میت کے پاس مال نہ ہو، اس کی تجہیز و تکفین میں حصہ لینا نیک اور فضیلت والا عمل ہے۔ یہ صدقۂ جاریہ کے اعمال میں شمار ہوتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو جنت میں ریشمی لباس اور گھر کی خوشخبری دی ہے جو کسی میت کو کفن پہنا کر دفن کرے۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان کو غسل دیا اور اس کے (عیوب کو) چھپایا، اللہ تعالیٰ اس کے چالیس مرتبہ گناہ معاف فرماتا ہے۔ اور جس نے اس کے لیے قبر کھودی اور اس میں دفن کیا، اس کے لیے ایسا اجر لکھا جاتا ہے جیسے اس نے اسے قیامت کے دن تک رہنے کے لیے ایک گھر دیا ہو۔ اور جس نے اسے کفن پہنایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت کے ریشمی کپڑوں (سُندس اور اِستبرق) کا لباس عطا فرمائے گا۔اسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔
شریعت نے لوگوں کے باہمی معاملات میں محبت، رحمت، درگزر، معافی، نرمی، باہمی تعاون، حسنِ سلوک، بڑوں کا چھوٹوں پر شفقت کرنے، طاقتور کا کمزور پر رحم کرنے، دوسروں کی مدد کرنے اور معاشرے کے افراد کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے والے تمام امور کی ترغیب دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ ترجمہ:''اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو” (آلِ عمران: 103)، اور فرمایا: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾ “اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو” (المائدہ: 2)۔ نیز حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “مؤمنوں کی مثال باہمی محبت، شفقت اور ہمدردی میں ایک جسم کی مانند ہے، کہ جب جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔” (بخاری و مسلم، روایت مسلم کی ہے)۔
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “مؤمن، مؤمن کے لیے ایک عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔” (بخاری و مسلم متفق علیہ)۔
اور تعاون کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے کام آسان ہو جاتا ہے، لوگوں کے مفادات پورے ہوتے ہیں، اور اتحاد و باہمی نصرت ظاہر ہوتی ہے، یہاں تک کہ یہ امت کا ایک پائیدار خلق بن جاتا ہے۔ جیسا کہ شیخ الاسلام طاہر بن عاشور نے التحرير والتنوير (جلد 6، صفحہ 88، دار التونسية) میں فرمایا۔ اور اسی سے سوال کا جواب بھی واضح ہو جاتا ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
