فتویٰ معلوم کرنے میں مصنوعی ذہانت (...

Egypt's Dar Al-Ifta

فتویٰ معلوم کرنے میں مصنوعی ذہانت (AI) کی ایپلی کیشنز کے استعمال کا شرعی حکم

Question

مصنوعی ذہانت (AI) کی ایپلی کیشنز کو فتویٰ معلوم کرنے کے لیے استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟ میں اکثر پیش آنے والے شرعی مسائل کے بارے میں ان ایپلی کیشنز سے سوال کرتا ہوں تاکہ ان کا شرعی حکم جان سکوں۔

Answer

الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ فتویٰ حاصل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) کی ایپلی کیشنز پر اعتماد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی ہو چکی ہے، لیکن اب تک کوئی ایسا نظام وجود میں نہیں آیا جو انسانی فہم و بصیرت اور اہلِ افتاء کی علمی و فقہی صلاحیتوں کی برابری کر سکے—وہ بصیرت جو علوم و معارفِ شرعیہ پر مہارت رکھتی ہے، اور جس کے ذریعے مفتی زمانے، مقام اور ہر فتویٰ سے متعلق حالات و اسباب کے اختلاف کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ بعض مصنوعی ذہانت کے نظام کچھ کاموں میں ماہر انسانوں کے درجے تک پہنچ گئے ہیں، لیکن یہ صلاحیتیں محدود دائرے میں ہیں اور فتوے جیسے دینی و اجتہادی امور سے بہت دور ہیں۔

مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کا حکم

مصنوعی ذہانت (AI) سے مراد ڈیجیٹل کمپیوٹر یا کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیے جانے والے روبوٹ کی وہ صلاحیت ہے جو عموماً ذی شعور مخلوقات سے وابستہ امور انجام دینے کی قدرت رکھتی ہو۔ یہ اصطلاح عموماً اُن کوششوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن کا مقصد ایسے نظام تیار کرنا ہے جو انسانی فکری خصوصیات رکھتے ہوں، جیسے منطقی انداز میں سوچنا، معنی کو سمجھنا، اور پچھلے تجربات سے سیکھنے کی صلاحیت۔ اس مخصوص مفہوم میں مصنوعی ذہانت کو مختلف شعبوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے: طبی تشخیص، کمپیوٹر سرچ انجنز، آواز یا تحریر کی پہچان، اور خودکار چیٹ(میسجنگ) پروگرامز۔ ماخذ: الذكاء الاصطناعي واقعه ومستقبله از آلان بونيه، ترجمہ: ڈاکٹر علی صبري فرغلي، ص 11، مطبوعہ عالم المعرفة۔

اصل کے اعتبار سے مصنوعی ذہانت اور اس پر مبنی مختلف تکنیکی وسائل کا استعمال جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْه﴾ترجمہ:'' اور ا س نے تمھاری خاطر جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنی طرف سے مسخر کر دیا ہے۔''(الجاثیہ: 13)۔ اور سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے اپنی کتاب میں جس چیز کو حلال قرار دیا ہے وہ حلال ہے، اور جسے حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے، اور جس کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی ہے وہ عفو (درگزر) ہے، پس تم اللہ کی طرف سے عطا کردہ اس رخصت کو قبول کرو"۔ اسے حاکم نے اپنی کتاب المستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا: "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اگرچہ بخاری و مسلم نے اسے روایت نہیں کیا۔"

اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ مباح ہے، لیکن شرعی حکم کے لحاظ سے اس کا دار و مدار اس مقصد پر ہے جس کے لیے اسے استعمال کیا جائے۔ پس جب یہ کسی مباح، مستحب، واجب، مکروہ یا حرام کام کے لیے ذریعہ بنے تو اسی مقصد کے اعتبار سے اس کا حکم بھی وہی ہوگا۔ اس کی بنیاد فقہاء کے اس قاعدے پر ہے کہ "وسائل اپنے مقاصد کے حکم کے تابع ہوتے ہیں" اور "حکم وجود اور عدم میں اپنی علت سے وابستہ رہتا ہے"۔ جیسا کہ امام عزّ الدین بن عبدالسلام نے اپنی کتاب الفوائد (ص 43، طبع دارالفکر) میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔

انسان کی خدمت کیلئے اسلامی شریعت میں جدید اور ترقی یافتہ وسائل کے استعمال کا اہتمام

اسلامی شریعت نے ہمیشہ انسان اور معاشرے کی بھلائی کے لیے اُن تمام چیزوں کو اہمیت دی ہے جو نفع و اصلاح کا سبب بنیں۔ اسی مقصد کے تحت اس نے نئی اور ترقی یافتہ ایجادات کے استعمال اور انہیں انسانی خدمت کے لیے کارآمد بنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے، تاکہ انسان کو فائدہ پہنچے اور معاشرہ درست سمت میں ترقی کرے۔ چنانچہ شریعت نے سائنسی و تکنیکی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ قدم سے قدم ملایا ہے۔ تاکہ ان وسائل سے اسلام کی تعلیماتِ رحمت ورواداری، اس کے عادلانہ اصول، منصفانہ احکام اور عظیم تہذیبی اقدار کو عام کیا جا سکے، اور انسانیت ان سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکے۔ یہ دراصل اُن نعمتوں کے صحیح استعمال کی صورت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے زمین میں مسخر فرمایا اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ ترجمہ:"وہی ہے جس نے زمین میں موجود تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں"(البقرۃ: 29)۔

فتویٰ کی اہمیت کا بیان

فتویٰ وہ عمل ہے جس کے ذریعے کسی مسئلے کے بارے میں سوال کرنے والے کو شرعی حکم بتایا جاتا ہے۔ (ماخذ: شرح منتهى الإرادات للبہوتی، 3/483، طبع عالم الکتب)۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فتویٰ فرد اور معاشرے کی زندگی پر گہرا اثر ڈالنے والے امور میں سے ایک ہے، اور اس کی حیثیت بہت عظیم اور نہایت حساس ہے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر فتویٰ دینے کو اپنی ذات کی طرف منسوب کر کے اس کی شان کو بلند فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا: ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ﴾ ترجمہ: ''اور وہ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے" (النساء: 127)، اور فرمایا: ﴿َيَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾ترجمہ:''وہ آپ سے کلالہ کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تمہیں اس کا فتویٰ دیتا ہے" (النساء: 176)، اور اپنے انبیاء کی طرف بھی فتویٰ دینے کو منسوب فرمایا، جیسا کہ فرمایا: ﴿يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا﴾ترجمہ:''اے یوسف، اے سچے (صادق) شخص! ہمیں اس خواب کی تعبیر بتائیے" (یوسف: 46)۔ چنانچہ فتویٰ کا منصب نہایت عظیم اثر رکھنے والا اور انتہائی حساس حیثیت کا حامل ہے۔ یہ ایک جلیل القدر اسلامی ذمہ داری، بلند دینی عمل، اور بڑی شرعی ذمہ داری ہے، جس میں مفتی ربِّ العالمین کی جانب سے احکام کی تبلیغ کا نائب ہوتا ہے اور اسے اللہ کے دین و شریعت کا امین بنایا جاتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ آداب الفتوی (ص 13–14، طبع دارالفکر) میں فرماتے ہیں:''جان لو کہ فتویٰ دینا بہت نازک اور اہم ذمہ داری ہے، اس کا مقام بہت بلند اور اس میں بڑا اجر ہے، کیونکہ مفتی انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا وارث ہوتا ہے اور فرضِ کفایہ کو ادا کرتا ہے، مگر وہ خطا کا سامنا بھی کر سکتا ہے، اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ مفتی اللہ تعالیٰ کی جانب سے شرعی حکم پر دستخط کرنے  والا ہوتا ہے۔

مفتی کے لئے اہم شرائط

چونکہ مفتی نبی کریم ﷺ کا قائم مقام اور اُن کے نائب کی حیثیت رکھتا ہے، جو لوگوں تک احکام پہنچانے، انہیں تعلیم دینے اور ور گناہوں سے ڈرانے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس منصب کے لیے کچھ شرائط پائی جائیں جو اسے اس مقام کے لائق بنائیں۔ مفتی کے اہم شرائط میں سے یہ ہیں: کہ وہ مکلف (بالغ اور عاقل) مسلمان ہو، قابلِ اعتماداور امانت دار ہو، فسق وفجورکے اسباب اور مروّت کو ختم کرنے والے امور سے بچنے والا ہو، فقہ میں مہارت رکھتا ہو، ذہن درست، فکر متوازن، استنباط کی صلاحیت مضبوط، اور ہمہ وقت بیدار و متوجہ ہو۔ کیونکہ جو شخص ان صفات سے خالی ہوتا ہے، چاہے اجتہاد کا اہل بھی ہو، تو اس کا قول قابلِ اعتماد نہیں ہوتا۔ماخذ: أدب المفتي والمستفتي لابن الصلاح، ص 86، طبع مکتبۃ العلوم والحکم۔

فتویٰ میں مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز کے استعمال کا حکم

مفتی وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے شرعی احکام کی اطلاع دینے والا ہو، اور پیش آنے والے واقعات کے احکام دلائل و براہین کی بنیاد پر جاننے والا ہو۔ وہ پیغام پہنچانے میں نبی کریم ﷺ کا نائب ہوتا ہے، کیونکہ علماۓ کرام انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے وارث ہیں۔ عملی تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب مصنوعی ذہانت (AI) کے پروگرامز سے مخصوص شرعی سوالات کیے گئے تو ان کے جوابات میں علمی و شرعی معیار کی درستگی اور معیاریت کا بڑا فقدان پایا گیا۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ یہ پروگرام سائل کو ایسے جوابات فراہم کرتے ہیں جن میں خطا و صواب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات نتائج حقیقت کے خلاف بھی آتے ہیں۔ اس بنا پر یہ طرزِ عمل فتویٰ کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ فتویٰ دراصل شرعی مسائل میں پیش آنے والی الجھنوں کو مضبوط، واضح اور صحیح طور پر بیان کرنے کا نام ہے۔

مزید یہ کہ ان پروگراموں کے جوابات کسی مضبوط علمی منہج پر مبنی نہیں ہوتے جو ان نتائج کی تصدیق کرے یا ان کے لیے اصولی بنیاد فراہم کرے۔ نہ ہی ان کے پاس ایسے علمی اصول موجود ہوتے ہیں جو انہیں شرعی احکام کے استنباط میں مدد دیں، اور نہ ہی انہیں اس بات کی تمیز ہوتی ہے کہ کون سے مراجع و مصادر معتبر ہیں اور کن کتابوں سے تحقیق و استدلال کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایپلی کیشنز اس موضوع سے متعلق ابتدائی معلومات اور حتمی نتائج کا درست تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتیں۔

یہ بات مسلم اور طے شدہ ہے کہ وہ احکام جو عادات، عرف اور بندگانِ خدا کے مصالح پر مبنی ہوتے ہیں، وہ زمانے، مقام، حالات اور اشخاص کے بدلنے کے ساتھ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ امام قرافی رحمہ اللہ الإحكام في تمييز الفتاوى عن الأحكام (ص 218، طبع دار البشائر الإسلامية) میں فرماتے ہیں: وہ احکام جن کی بنیاد عرف و عادت پر ہو، ان میں تبدیلی کے باوجود انہیں جوں کا توں جاری رکھنا اجماع کے خلاف اور دین میں جہالت ہے، بلکہ شریعت میں جو بھی حکم عرف پر مبنی ہو، وہ عرف کے بدلنے سے تبدیل ہو جاتا ہے اور نئی عادت کے مطابق اس کا نیا حکم متعین ہوتا ہے۔

جب عرف کی بنیاد پر فتویٰ میں تبدیلی کے اعتبار کی بات آتی ہے تو امام قرافی رحمہ اللہ الفروق (1/176، طبع عالم الکتب) میں فرماتے ہیں: جب بھی کوئی نیا عرف پیدا ہو تو اسے معتبر سمجھو، اور جب کوئی عرف ختم ہو جائے تو اسے ساقط قرار دو۔ اپنی تمام زندگی محض کتابوں میں لکھے ہوئے اقوال پر جمود اختیار نہ کرو۔ اگر کوئی شخص تمہارے علاقے کے علاوہ کسی اور خطے سے فتویٰ پوچھنے آئے تو اسے اپنے علاقے کے عرف پر نہ پرکھو، بلکہ اس کے علاقے کے عرف کے بارے میں دریافت کرو، پھر اسی عرف کے مطابق اسے فتویٰ دو، نہ کہ اپنے علاقے کے عرف یا اپنی کتابوں میں درج معمولات کے مطابق۔ پس یہی وہ واضح اور درست بات ہے جو مسلم علما اور سلفِ صالحین کے مقاصد اور طرزِ فکر کے عین مطابق ہے''۔ یہ تبدیلیاں جو عادات اور عرف میں پیدا ہوتی ہیں اور جن کا فتویٰ پر اثر پڑتا ہے، انہیں صرف انسانی مفتی ہی صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے، جبکہ جدید مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز ان باریکیوں اور تغیرات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔

خلاصہ
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں اور سوال کے واقعے کے مطابق: فتویٰ حاصل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) کی ایپلی کیشنز پر اعتماد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی ہو چکی ہے، لیکن اب تک کوئی ایسا نظام وجود میں نہیں آیا جو انسانی فہم و بصیرت اور اہلِ افتاء کی علمی و فقہی صلاحیتوں کی برابری کر سکے—وہ بصیرت جو علوم و معارفِ شرعیہ پر مہارت رکھتی ہے، اور جس کے ذریعے مفتی زمانے، مقام اور ہر فتویٰ سے متعلق حالات و اسباب کے اختلاف کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ بعض مصنوعی ذہانت کے نظام کچھ کاموں میں ماہر انسانوں کے درجے تک پہنچ گئے ہیں، لیکن یہ صلاحیتیں محدود دائرے میں ہیں اور فتوے جیسے دینی و اجتہادی امور سے بہت دور ہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas