مال پر زکات واجب ہونے کے بعد اگر وہ مال تلف ہو جائے تو اس کی زکات کا حکم
Question
اگر کسی مال پر زکات واجب ہو جائے اور وہ مال زکات ادا کرنے سے پہلے تلف (ضائع) ہو جائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ میری ملکیت میں ایک ایسا مال تھا جو نصابِ شرعی کو پہنچ چکا تھا، لیکن زکات نکالنے سے پہلے وہ مال ضائع ہوگیا۔ تو کیا اب بھی زکات میرے ذمہ باقی رہے گی اور مجھے کسی دوسرے مال سے ادا کرنی ہوگی، یا پھر مال کے ضائع ہوجانے سے زکات ساقط ہو جائے گی اور مجھ پر شرعاً اس کی ادائیگی لازم نہیں رہے گی؟
Answer
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبه ومن والاه، وبعد؛ جب مال شرعی نصاب کو پہنچ جائے، یعنی اکیس قیراط سونے کے پچاسی گرام کے برابر ہو جاۓ، اور اس پر ایک مکمل قمری سال بھی گزر جائے، تو زکات واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر مال سال مکمل ہونے سے پہلے ہی ضائع ہو جائے تو اس میں زکات واجب نہیں ہوتی۔
اور اگر مال پورا سال گزرنے کے بعد ضائع ہوا، تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر یہ ضائع ہونا خود مالک کے فعل سے ہوا ہو، مثلاً اس نے جان بوجھ کر مال تلف کر دیا، تو اس پر زکات کی ضمان واجب ہوگی۔ اور اگر ضائع ہونا اس کے اپنے فعل سے نہ ہو، بلکہ کسی آسمانی آفت، قدرتی نقصان یا عمومی مصیبت کی وجہ سے ہو، اور یہ اس وقت ہوا جب وہ زکات ادا کرنے پر قادر نہ تھا اور اس نے کوتاہی بھی نہیں کی، مثلاً زکات کے مستحقین دستیاب نہ تھے، یا وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے اُن تک پہنچ نہیں سکا، یا اس کے پاس کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اس کی طرف سے زکات ادا کر دیتا، یا اس کا مال کہیں اور موجود ہو ، — تو اس صورت میں زکات ساقط ہو جائے گی، کیونکہ ادا کرنا متعذر تھا۔ البتہ اگر وہ زکات ادا کرنے پر قادر تھا، یعنی سال پورا ہو گیا، مستحقین بھی موجود تھے، ان تک پہنچنا ممکن تھا، اور مال بھی میسر تھا مگر اس نے باوجود قدرت کے تاخیر کی، تو اب وہ زکات کا ضامن ہوگا اور اس سے زکات کا مطالبہ کیا جاۓ گا۔
تفاصیل:
مال پر زکات واجب ہونے کی شروط:
زکات اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور ہر اُس مسلمان پر فرض ہے جس میں اس کے وجوب کی شرائط پائی جائیں۔ نقدی اموال میں زکات کے واجب ہونے کی بنیادی شرائط یہ ہیں:
یہ کہ مال قرض سے خالی ہو، اپنے مالک اور اس کے زیرِ کفالت افراد کی بنیادی ضرورت سے زائد ہو، شرعی نصاب کو پہنچ گیا ہو — یعنی اس کی قیمت موجودہ کرنسی کے لحاظ سے اکیس قیراط سونے کے پچاسی (85) گرام کے برابر ہو — اور اس پر پورا قمری سال گزر جائے۔
پس جب مال اس مقدار کو پہنچ جائے یا اس سے زیادہ ہو جائے، اور اس پر سال گزر جائے، تو اس میں ڈھائی فیصد (2.5%) کے حساب سے زکات واجب ہو گی؛ جیسا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
''جب تک تمہارے پاس بیس دینار نہ ہوں تم پر کچھ (زکات) نہیں، اور جب تمہارے پاس بیس دینار ہو جائیں اور ان پر سال گزر جائے، تو اُن میں آدھا دینار زکات ہے، اور جو اس سے زیادہ ہو، تو اسی تناسب سے حساب کیا جائے گا۔'' (ابو داؤد نے روایت کیا ہے)۔
علامہ ابن عبد البرؒ نے الاستذکار (ج 3، ص 136، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب سونا چالیس مثقال تک پہنچ جائے تو اس پر سال گزرنے کے بعد زکات واجب ہوتی ہے، اور اس کی مقدار ربع العشر (یعنی ڈھائی فیصد) ہے، جو ایک دینار بنتا ہے۔ اور اس بات پر بھی سب کا اجماع ہے کہ بیس دینار سے کم سونے میں کوئی زکات نہیں۔"
اور "حولانِ حول" (یعنی قمری سال گزر جانا) بڑھنے والے اموال میں زکات کے وجوب کی شرط ہے ، جیسے نقدی، تجارت کا سامان، اور مویشی؛ کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "کسی مال میں زکات واجب نہیں ہوتی جب تک اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔"ابو داود۔
رہی بات کھیتی، پھلوں اور معدنیات کی، تو ان کی زکات ادراک (پکنے) اور فصل کے کاٹنے کے وقت واجب ہوتی ہے، اس میں سال گزرنے (حولانِ حول) کی شرط نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾ (الأنعام: 141) — یعنی ''فصل کاٹنے کے دن اس کا حق(زکات) ادا کرو''۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ زکات کے وجوب کا وقت نمو (پیداوار) کے ظاہر ہونے یا زمین سے مال حاصل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے۔
علامہ ابو سلیمان خطابی رحمہ اللہ "معالم السنن" (ج 2، ص 31، المطبعة العلمية) میں فرماتے ہیں: حدیث میں جو یہ ارشاد ہے کہ "کسی مال میں زکات واجب نہیں جب تک اس پر ایک سال نہ گزر جائے"، اس سے مراد وہ مال ہے جو بڑھنے والا ہو، جیسے مویشی اور نقدی، کیونکہ ان میں نمو (بڑھوتری) سال گزرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ رہی بات کھیتیوں اور پھلوں کی، تو ان میں سال گزرنے کی شرط نہیں، بلکہ ان کا اعتبار اس وقت سے ہے جب وہ پک جائیں اور کٹائی کے قابل ہو جائیں، پس اسی وقت ان میں سے حق (زکات) ادا کیا جاتا ہے۔
اگر مال سال پورا ہونے سے پہلے تلف ہو جائے تو زکات کا حکم
فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ جو مال بڑھنے والا ہو اور شرعی نصاب کو پہنچ جائے، اس میں ہر قمری سال گزرنے پر زکات دوبارہ واجب ہوتی ہے کیونکہ یہ مال ہر سال ترقی اور نمو پاتا ہے۔ اس کے برعکس کھیتیاں اور پھل ایسے نہیں، ان میں زکات صرف ایک ہی بار واجب ہوتی ہے، یعنی فصل کی کٹائی کے وقت؛ کیونکہ ان میں زکات کے وجوب کا سبب خود پیداوار ہے، نہ کہ سال کا گزرنا، اس لیے ان میں تکرارِ وجوب (زکات کا بار بار واجب ہونا) نہیں ہوتا۔(ملاحظہ ہو: "مراتب الإجماع" از امام ابن حزم اندلسی، ص 38، دار الکتب العلمیة)۔
اور جب مال نصاب کو پہنچ جائے تو بعض اوقات وہ ہلاک بھی ہو سکتا ہے، یا تو سال پورا ہونے سے پہلے یا اس کے بعد۔
پس اگر وہ مال سال پورا ہونے سے پہلے ہلاک ہو جائے تو وہ معدوم کے حکم میں ہوگا، لہٰذا اس میں زکات واجب نہیں، بشرطیکہ سارا مال ہلاک ہو گیا ہو۔اور اگر مال کا کچھ حصہ باقی رہ جائے تو دیکھا جائے گا: اگر باقی مال نصاب کو پورا کر رہا ہے تو سال مکمل ہونے پر زکات واجب ہوگی، اور اگر نصاب سے کم رہ گیا ہو تو زکات واجب نہیں ہوگی۔ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
ابو الطاہر ابن بشیر التنوخی نے "التنبيه على مبادئ التوجيه" میں فرمایا: فقہاء میں کوئی اختلاف نہیں کہ زکات سال مکمل ہونے سے پہلے واجب نہیں ہوتی، لہٰذا اگر کسی کا مال یا اس کا کچھ حصہ سال پورا ہونے سے پہلے ضائع ہو جائے اور نصاب سے کم رہ جائے، تو اس پر زکات واجب نہیں۔
اسی طرح امام ابن بزیزة تونسی نے "روضة المستبین" اگر مال زکات کے واجب ہونے کے وقت سے پہلے ضائع ہو جائے، تو اس میں زکات واجب نہیں ہوتی، اس میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ اگر کچھ مال باقی رہ جائے جس پر زکات واجب ہو، تو صرف اسی باقی مال پر زکات ادا کی جائے گی۔
زکات کا حکم جب مال سال مکمل ہونے کے بعد اور زکات نکالنے سے پہلے ضائع ہو جائے
جہاں تک بات ہے کہ مال سال پورا ہونے کے بعد لیکن زکات نکالنے سے پہلے تلف ہو جائے، اگر یہ مال تلف کرنے کا سبب خود مکلف ہو، تو فقہاء میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ اسے واجب زکات کے برابر مال کی ضمان ادا کرنا ہوگی۔
علاء الدین السمرقندی نے "تحفة الفقهاء" (1/306، طبع: دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "فقہاء نے اتفاق کیا ہے کہ اگر کوئی شخص زکات کے مال کو تلف کر دے تو اسے زکات کے برابر مال کی ضمان اداکرنا ہوگی۔"
اور اگر مال کا ضیاع مکلف کی طرف سے نہیں بلکہ کسی آسمانی آفت، قدرتی نقصان یا عمومی مصیبت کی وجہ سے ہو ، تو زکات ادا کرنے والا اس کے ذمہ دار نہیں؛ کیونکہ اسے مال پر کوئی اختیار نہیں رہا۔ اس صورت میں فقہاء میں اختلاف ہے، جو اس بات پر مبنی ہےآیا کہ زکات اصل مال (العين) پر واجب ہوتی ہے یا کہ ذمہ پر؟ ، یاپھر ذمہ میں واجب ہوتی ہے اور اصل مال ضمانت کے طور پر رکھا گیا ہوتا ہے ۔ حوالہ: "البحر الرائق - مع منحة الخالق وتكملة الطوري" از زین الدین ابن نجیم (2/235، ط. دار الكتاب الإسلامي)۔
احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر مال زکات کے واجب ہونے کے بعد ضائع ہو جائے تو زکات کی واجبیت بالکل ختم ہو جاتی ہے، چاہے مکلف ادا کرنے کے قابل ہو یا نہ ہو۔ اگر تمام مال ضائع ہو جائے تو زکات بالکل ساقط ہو جاتی ہے، اور اگر مال کا صرف کچھ حصہ ضائع ہو تو زکات اسی ضائع شدہ حصہ کے مطابق کم ہو جاتی ہے۔
امام فخر الدین زیلعی حنفی نے اپنی کتاب "تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق" (ج 1، ص 269، ط. الامیریہ) میں فرمایا: "جو مال زکات واجب ہونے کے بعد ضائع ہو جائے، اس پر زکات واجب نہیں رہتی، اور اگر مال کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے تو زکات اسی حساب سے ساقط ہو جاتی ہے۔"
علامہ الشلبي نے اس پر حاشیہ میں وضاحت کرتے ہوۓ فرمایا: یہاں مراد یہ ہے کہ مال ضائع ہونے کے بعد زکات واجب نہیں، چاہے مکلف اسے ادا کرنے کے قابل ہو یا نہ ہو۔
مالکی اور شافعی فقہاء کے نزدیک، اگر مال زکات واجب ہونے کے بعد ضائع ہو جائے اور مکلف اس کے ادا کرنے کے قابل نہ ہو اور کوئی کوتاہی نہ ہوئی، تو زکات ساقط ہو جاتی ہے۔ ، مثلاً زکات کے مستحقین دستیاب نہ تھے، یا وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے اُن تک پہنچ نہیں سکا، یا اس کے پاس کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اس کی طرف سے زکات ادا کر دیتا، یا اس کا مال کہیں اور موجود ہو ، تو زکات واجب نہیں رہتی۔ لیکن اگر مکلف نے ادا کرنے کے قابل ہوتے ہوئے بھی غفلت کی، جیسے کہ سال پورا ہو گیا یا فصل کاٹنے کا وقت آ گیا اورمستحقین بھی موجود تھے اوران تک رسائی بھی ممکن تھی، لیکن زکات ادا نہ کی گئی، تو ایسی صورت میں وہ ضامن ہو گا، اور اس پر زکات واجب ہے۔
شیخ الدردیر المالکی نے "الشرح الكبير" اور حاشیہ دسوقی میں فرمایا: اگر نصاب کا ایک حصہ، یا سارا نصاب، زکات واجب ہونے کے بعد ضائع ہو جائے اور اس میں کوئی غفلت نہ ہوئی، اور ادا کرنا ممکن نہ ہو—چاہے اس کی وجہ مستحقین کی عدم موجودگی ہو، رسائی ممکن نہ ہونا ہو، یا مال کی غیر موجودگی ہو—تو زکات ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ادا کرنا ممکن تھا اور مکلف نے غفلت کی، تو وہ ضامن ہو گا ۔
علامہ دسوقی «اگر نصاب کا ایک حصہ ضائع ہو جاۓ» پر حاشیہ لگاتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ نصاب کا اگر اتنا حصہ ضائع ہو جائے کہ باقی مال نصاب سے کم رہ جائے (اور اس نے کوتاہی بھی نہ ہو تو زکات زکات ساقط ہو جاۓ گی)۔
اور علامہ خطیب شربینی شافعی نے "الإقناع" میں فرمایا کہ اگر مکلف زکات ادا کرنے میں تاخیر کرے اور مال ضائع ہو جائے، تو وہ ضامن ہوگا اور زکات واجب ہوگی۔
علامہ بجیرمی اس پر حاشیہ لگاتے ہوۓ فرماتے ہیں: ضمان کا مطلب یہ ہے کہ مستحقین کا حق ادا کیا جائے، یعنی وہ مال دیا جائے جو مال موجود ہونے کی صورت میں دیا جاتا۔ اور یہ ضمان تب ہی لازم ہے جب مکلف کو مال پر تمکّن حاصل ہونے کے بعد ضائع ہوا ہو؛ اس سے پہلے، یعنی اگر مال قبل از تمکّن ضائع ہو جائے ، تو کوئی ضمان نہیں ۔
حنابلہ کے مشہور قول کے مطابق: جب مال پر زکات واجب ہو جاتی ہے، تو وہ زکات مال کے ضائع ہونے سے بھی ساقط نہیں ہوتی، چاہے مال تلف خود مالک کی غفلت سے ہو یا کسی اور سبب سے۔ کیونکہ ایک بار زکات واجب ہونے کے بعد یہ مالک کی ذمّہ میں ایک ثابت حق بن جاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے قرض ہوتا ہے، اور مال کے ضائع ہونے سے یہ حق ختم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، کھیتی اور پھلوں کی زکات صرف اصل پیداوار (عين المحصول) سے متعلق ہوتی ہے، اس لیے اگر فصل پر کوئی آفت آ جائے یا وہ مکمل طور پر پکنے سے پہلے ضائع ہو جائے، تو زکات ساقط ہو جاتی ہے۔
امام شمس الدین ابن قدامہ نے "الشرح الكبير" میں فرمایا کہ امام احمد کے مشہور قول کے مطابق: زکات مال کے ضائع ہونے سے ساقط نہیں ہوتی، چاہے مال ضائع ہونے کی وجہ مالک کی کوتاہی ہو یا نہ ہو۔
شیخ ابو السعادات البُهُوتی نے "کشاف القناع" میں فرمایا: زکات مال کے تلف ہونے سے ساقط نہیں ہوتی، کیونکہ یہ مال کی ایک مقدار ہے جو مالک پر واجب ہے کہ مستحقین کو دے، اور اگر مال اس کے قبضے میں تلف ہو جائے تو وہ اس کی ضمانت کرے گا، بالکل جیسے عاریہ، غصب شدہ مال یا انسان کے قرض کی صورت میں۔ اس لیے مال کے باقی رہنے یا ضائع ہونے کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ سوائے کھیتی اور پھلوں کے، اگر وہ کسی آفت سے فصل کے پکنے یا استحکام سے پہلے ضائع ہو جائیں، یا بعد اس کے بھی جب تک انہیں ذخیرہ وغیرہ کی جگہ میں نہ رکھا جائے، کیونکہ اس وقت تک وہ مستقر نہیں ہوتی۔
زکات واجب ہونے کے بعد مال تلف ہو جائے تو حکمِ زکات کے بارے میں فتویٰ کے لیے قولِ مختار
فتویٰ کے لیے راجح قول یہ ہے کہ اگر زکات واجب ہونے کے بعد مال تلف ہو جائے اور مالک نے ادائیگی میں کوتاہی نہ کی ہو، تو زکات ساقط ہو جاتی ہے — جیسا کہ مالکیہ اور شافعیہ کا مذہب ہے۔ کیونکہ زکات کا مقصد امیروں اور غریبوں کے درمیان ہمدردی اور باہمی تعاون کو قائم کرنا ہے، اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہوتا ہے جب نمو پانے والا مال موجود ہو جو کہ زکات کا محلّ ہے۔ لہٰذا اگر مال بغیر کسی قصور یا کوتاہی کے ضائع ہو جائے تو زکات لازم نہیں رہتی، کیونکہ زکات کی بنیاد وہی مال ہے، اور جب وہ باقی نہ رہا تو وجوب کی وجہ بھی ختم ہوگئی۔ شرعی حکم اپنی علت کے ہونے یا نہ ہونے پر موقوف ہوتا ہے، اس لیے علت کے ختم ہونے سے حکم بھی ختم ہو جاتا ہے۔ حوالہ: "تشنیف المسامع بجمع الجوامع" از بدر الدین الزرکشی (ج 3، ص 54، ط. مكتبة قرطبة)۔
اور یہ کہ اگر مال کے ضائع ہونے کے بعد بھی زکات کو ذمّے میں برقرار رکھا جائے تو مکلَّف پر وہ بوجھ آ جائے گا جو وہ برداشت نہیں کر سکتا، اور اس میں سختی اور مشقّت شامل ہے، جس سے امت کو بچایا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ ترجمہ: "اور اللہ نے تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔" [الحج: 78]۔ لہٰذا، بغیر کسی کوتاہی یا غفلت کے مال تلف ہونے کی صورت میں زکات کے ساقط ہونے کا قول شریعت کے مقاصد کے زیادہ مطابق اور آسانی و عدل کی روح کے قریب تر ہے۔
خلاصہ
اس بنا پر اور پیش کیے گئے سوال کی صورتحال کے مطابق : جب مال شرعی نصاب کو پہنچ جائے، یعنی اکیس قیراط سونے کے پچاسی گرام کے برابر ہو جاۓ، اور اس پر ایک مکمل قمری سال بھی گزر جائے، تو زکات واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر مال سال مکمل ہونے سے پہلے ہی ضائع ہو جائے تو اس میں زکات واجب نہیں ہوتی۔
اور اگر مال پورا سال گزرنے کے بعد ضائع ہوا، تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر یہ ضائع ہونا خود مالک کے فعل سے ہوا ہو، مثلاً اس نے جان بوجھ کر مال تلف کر دیا، تو اس پر زکات کی ضمان واجب ہوگی۔اور اگر ضائع ہونا اس کے اپنے فعل سے نہ ہو، بلکہ کسی آسمانی آفت، قدرتی نقصان یا عمومی مصیبت کی وجہ سے ہو، اور یہ اس وقت ہوا جب وہ زکات ادا کرنے پر قادر نہ تھا اور اس نے کوتاہی بھی نہیں کی، مثلاً زکات کے مستحقین دستیاب نہ تھے، یا وہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے اُن تک پہنچ نہیں سکا، یا اس کے پاس کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اس کی طرف سے زکات ادا کر دیتا، یا اس کا مال کہیں اور موجود ہو ، — تو اس صورت میں زکات ساقط ہو جائے گی، کیونکہ ادا کرنا متعذر تھا۔ البتہ اگر وہ زکات ادا کرنے پر قادر تھا، یعنی سال پورا ہو گیا، مستحقین بھی موجود تھے، ان تک پہنچنا ممکن تھا، اور مال بھی میسر تھا مگر اس نے باوجود قدرت کے تاخیر کی، تو اب وہ زکات کا ضامن ہوگا اور اس سے زکات کا مطالبہ کیا جاۓ گا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
Arabic
Englsh
French
Deutsch
Pashto
Swahili
Hausa
