امام بخاری اور صحابہء کرام پر تہمت ...

Egypt's Dar Al-Ifta

امام بخاری اور صحابہء کرام پر تہمت تراشی

Question

مندرجہ ذیل سوال پر مشتمل ہے:

بتاریخ ٩/٤/٢٠٠٧ ء ایک ''الفجر'' نامی اخبار نے اپنى اشاعت کے دوسرے سال کے شمارہ نمبر٩٦ کے بارہویں صفحے پر ایک مقالہ شائع كيا ،جس میں عالی مرتبت صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ، اور ''صحیح '' نامی مجموعہء احادیث کے مولف حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالی پر اس طرح سے برى تہمت لگائی گئی ہے جس كے لفظوں، عنوان اور مضمون بالكل واضح ہيں ، اس مقالے كو پڑھ کرمجھے اور عام قارئین کو شدید صدمہ پہونچا کیونکہ اس نے میرے دین حنیف کے بنیادی اصولوں کو نشانہء ملامت بنایا ہے جو مجھے میری جان میرے اہل و عیال اور میرے مال سے زیادہ عزیز ہے، اخبار کے اس صفحے کا تراشا حاضر خدمت ہے جو ان گندگیوں سے لبریز ہے، لہذا اس بارے میں شریعت کی کیا رائے ہے؟ اور ایسی حرکتوں کے ارتکاب کرنے والوں کے بارے میں دین اسلام کا کیا حکم ہے؟

Answer

سوال میں مذکور مقالے پر ہم مطلع ہوئے، جس كا تراشہ سوال کے ساتھ ارسال بهى کيا گيا تها، سوال میں بیان کردہ معاملے کی تحقیق سے پتہ چلا کہ مذکورہ اخبار کے مضمون نگار نے بيان كيا ہے کہ اس نے اپنے مقالے کا مواد ایک ایسی کتاب سے نقل كيا ہے جو بلند پایہ صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تہمت تراشی اور افترا پردازی سے پُر ہے، اور اس نے یہ کتاب اپنے کسی دوست سے حاصل كر لى ہے لیکن انہیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کے مشمولات کے بارے میں کچھ تحقیق ہی کرلیتا یا برسہا برس سے علمائے کرام کی طرف سے دئے گئے جوابات کا ہی مطالعہ کرلیتا اور مضمون نگار نے ایسا شعور دیا کہ گویا ان کا گوہر مقصود حاصل ہو گیا، بہر حال اس کے مقالے کا خلاصہ چند مختصر جملوں میں ملاحظہ ہو:
• اس نے مضمون کى افتتاحی سطور میں صحیح بخاری میں موضوع حدیثوں کے وجود كے بارے ميں ایک سابقہ مضمون کا حوالہ دیا ہے.
• اس کے بعد مذکورہ کتاب سے عالی مرتبت صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تہمت تراشیوں کا سلسلہ نقل كرنا شروع كيا ان ميں سے ايك يہ ذكر كيا ہے کہ وہ زمانہء جاہلیت میں فقیر تھے اس لئے مقام خیبر کو پہونچے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر احسان رہے.
• ان ميں يہ بهى ذكر كيا کہ زمانہء جاہلیت يا عہد اسلام ميں ان كے نام كے بارے ميں معلوم نہیں ہے، بقول مضمون نگار کے: ان کے نام سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ بلّی ہمیشہ ان کے ساتھ رہا کرتی تھی.
• ان کی زندگی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے، ہاں صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ایک فقیر اور محتاج آدمی تھے، غزوان نامی شخص کی بیٹی کے ہاں مزدوری کیا کرتے تھے، اور ان پڑھ ہی رہ گئے، اس كے بعد مضمون نگار نے دعویٰ کيا ہے کہ بکریاں چرانا ان کا مشغلہ تھا.
• يہ دعوى كيا ہے کہ انہوں نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں ایک حدیث گڑھ لی تھی.
• پھر مضمون نگار خیبر کے دن کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابان بن سعید بن عاص کے قصے کا تذکرہ کرتا ہے اور اس کا مطلب يہ بیان کرتا ہے کہ جب ابان نے حضرت ابو ہریرہ کی توہین کی تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كى طرف سے کوئی مدافعت نہیں كى.
• اسی طرح ان کے مدینہ شریف میں آنے کا تذکرہ کرتا ہے، اور ان کی بھوک کے بارے میں کچھ کہانیاں ذکر كرکے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ لوگوں سے مانگا کرتے تھے اور اصرار كے ساته مانگتے تھے.
• یہ بھی تہمت لگائى کہ وہ غزوہ موتہ سے بھاگ گئے تھے.
• اس نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ علم طب كے بهى دعوی دار تھے، اس بارے میں ثعالبی کی کتاب'' ثمار القلوب فی المضاف و المنسوب'' کا حوالہ دیا ہے.
• اس میں ـ''المضیرۃ'' نامی کھانے کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ انہیں صرف پیٹ پالنے کی پڑی تھی اور جنگ کے معاملے میں بزدل تھے.
• مضمون نگار کا یہ بهى دعویٰ ہے کہ وہ ہنسی مذاق کے دلدادہ تھے، خلافت کے بارے میں ان کا قصہ بیان کرنے اور بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کا تذکرہ کرنے کے بعد عجیب و غریب نتائج اخذ کرتا ہے.
• مزید یہ کہ وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو علاء حضرمی کے ساتھ منذر بن ساوی کے پاس بھیجنے کا واقعہ لکھ کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ در حقیقت ان کى شہر بدرى تھى.
• اکیسویں سال میں حضرت عمر کا ان کو بحرین کا گورنر بنانے کے واقعے کی طرف بھی مضمون نگار نے اشارہ کیا ،اور دعویٰ كيا ہے کہ حضرت عمر نے ان کى مال وثروت کے سلسلے میں گرفت بھی کی تھی ، نیز یہ کہ حضرت عمر نے انہیں یہاں اس لئے بھیجا تھا کہ وہ چھوٹے صحابہ میں سے تھے.
• مضمون نگار کا دعویٰ ہے کہ حضرت عمر نے ان کو حدیث بیان کرنے سے روکا تھا، اور انہيں کوڑے بھی مارے تھے، اس لئے حضرت عمر کے وصال کے بعد ابو ہریرہ کہا کرتے تھے: "بے شک اب میں ایسی حدیثیں بیان کرتا ہوں اگر میں حضرت عمر کو وہ حدیثیں بیان کرتا تو وہ میرا سر پھوڑ دیتے".
یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ زیر نظر مضمون اور وہ سابقہ مضمون جس پر اس مضمون کی بنیاد قائم کی گئی ہے دونوں کے دونوں صحت نقل کی تحقیق سے بالکل عاری ہے، بلکہ حال یہ ہے کہ اکثر وبیشتر ادب کی کتابوں سے نقل پر نقل مارتے چلے گئے ہیں، چنانچہ زمخشری کی کتاب ''ربیع الابرار'' سے، اور ابن ابی حدید کی '' شرح نھج البلاغۃ'' سے نقل کرتے ہیں، لیکن ان قصوں کی سند بیان نہیں کى ہے، جب کہ سند دین اسلام کا جدا نہ ہونے والا جز ہے، اور سند ہی روایات پر حکم لگانے کی کسوٹی ہے، اور فن ادب میں لکھنے والے حضرات عموما سند کے بغیر ہی روایتیں بیان کر دیتے ہیں اور ان کی صحت اور کمزوری کی طرف توجہ نہیں دیتے، اس کے علاوہ مقالہ نویس نے جن دو شخصوں کا حوالہ دیا ہے وہ دونوں معتزلی مذہب کے پیروکار تهے،صرف یہی نہیں بلکہ ان میں سے دوسرے شخص پر معتزلی ہونے کے ساتھ ساتھ رافضی ہونے کا بهى الزام ہے۔ اس لیے یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ جواب جو یہاں دیئے جا رہے ہیں اور جن عبارتوں کا مضمون نگار نے اپنے الزام تراشیوں میں سہارا لیا ہے ان کی تفسیریں جو یہاں پیش کی جارہی ہیں وہ براہ تنزل اور روایت کو درست تسلیم کرلینے کی صورت میں ہے، اسی طرح یہاں اس حقیقت سے آگاہ کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ یہ مضمون نگار کہانی ذکر کر دینے کے بعد ایسے ایسے عجیب وغریب نتائج اخذ کرلیتا ہے جن کا دور دور سے بھی اصل قصے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس پر بهى جسارت یہ کہ ان نتائج كو قطعی اور یقینی صورت میں پیش کرتا ہے.
تفصیل کے ساتھ جواب دینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تمام صحابہ کرام عادل ہیں،اور ان کا عادل ہونا قرآن کریم کی کئی آیتوں میں وارد ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا)- اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں سب امتوں میں افضل کیا-(البقرة : 143). اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) - تم بہتر ہو ان امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں-( آل عمران: 110). یہاں یہ بات محتاج بیان نہیں کہ یہ خطاب اس زمانے میں موجود لوگوں کو ہے جیسا کہ '' تدریب الراوی'' جلد ٢/ صفحہ٢١٤، میں آیا ہے.
مزید یہ کہ کتب احادیث میں ایسے مستقل ابواب موجود ہیں جن کو اہل علم نے عام صحابہ کے فضائل میں وارد شدہ احادیث کو بیان کرنے کےلئے خاص کیا ہے بلکہ بعض معین صحابہ کے فضائل کےلئے بھی مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور یہ ایسی ایسی مستند کتابیں ہیں جن کو پوری امت نے اپنی روشن تاریخ کے ابتدائی زمانے سے ہی قبولیت کی سند دے دی ہے اور علمائے کرام نے انہى كو دین اسلام کے مفهوم كى بنیاد بنایا ہے،ان احاديث مباركه ميں سے ترمذی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آیا ہے: '' میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں چند کھجوریں لے کر حاضر ہوا اورعرض کی: یا رسول اللہ! اللہ تعالی سے ان میں برکت کےلئے دعاء فرمائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جمع فرمایا پھر میرے لیے ان میں برکت کی دعا فرمائی اور مجھ سے فرمایا: ''انہیں لے کر اپنے اس توشہ دان میں رکھ لو۔ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔اس توشہ دان میں رکھ لو۔ جب جب اس میں سے لینا چاہو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لیا کرو لیکن اسے مت جھاڑنا''. تو میں نے اس میں سے اتنے اتنے وسق(یعنی اتنے اتنے من) اللہ کے راستے میں خرچ کئے، اور ہم اس میں سے کھاتے رہے اور کھلاتے بهى رہے، اور وہ میرے کمر سے جُدا نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ حضرت عثمان کے قتل کا دن آیا تو وہ کٹ گیا. امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن غریب ہے. اور اسی میں آيا ہے: '' ایک شخص حضرت طلحہ بن عبید اللہ کے پاس آیا اور کہا: اے ابو محمد! کیا بات ہے كہ یہ یمانی ۔ یعنی ابوہریرہ۔ آپ سے بڑھ کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا علم رکهتے ہيں! ہم ان سے وہ سب کچھ سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سنتے!۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو حقیقت میں انہوں نے نہیں فرمائى ہو!۔ تو انہوں نے جواب دیا: جہاں تک حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سننے کا سوال ہے تو اس میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں سنی ہوں جو ہم نہیں سن سکے اور اس حقیقت کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے کیونکہ وہ بے مال تھے ان کے پاس کچھ نہیں تھا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافت میں رہتے تھے، ان کا ہاتھ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے ساتھ رہتا تھا،اور ہم گھروں والے اور دولت والے تھے ہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف صبح و شام آتے تھے، اس لئے ہمیں شک نہیں کہ انہوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ سب کچھ سنا ہے جو ہم نہیں سن سکے، اور ہم تو ایسا کوئی شخص پاتے ہی نہیں جس میں تھوڑی سی بھی بھلائی پائی جاتی ہو اور وہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات کی نسبت کرتا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ فرمائى ہو'' . امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن غریب ہے. اور اسی میں یہ بھی آيا ہے كہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا:'' اے ابو ہریرہ آپ تو ہم سب سے زیادہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اور ان کی حدیثوں کو ہم سے زیادہ یاد رکھتے تھے''. امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن ہے. اور اسی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ سے بہت ساری چیزيں سنا کرتا ہوں لیکن انہیں یاد نہیں رکھ پاتا. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اپنی چادر پھیلاؤ'' تو میں نے پھیلا دی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارى حدیثيں بیان فرمائیں تو میں آپ کی بیان کردہ حدیثوں میں سے کچھ بهى نہيں بھولا. امام ترمذی نے اس حدیث كو حسن صحیح کہا ہے.
اور ''تحفۃ الاَحوذی'' نامی کتاب میں آيا ہے: [صاحب '' السعایۃ شرح شرح الوقایۃ'' نے لکھا ہے۔ واضح رہے کہ صاحب کتاب کا تعلق حنفی مذہب سے ہے۔.... ان کے الفاظ یہ ہيں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر فقیہ نہ ہونے کا الزام درست نہیں، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ ان فقہاء كرام میں سے تھے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فتویٰ دیا کرتے تھے جیسا کہ اس بات کی تصریح ابن ھمام نے ''تحریر الاصول'' اور ابن حجر نے''الاِصابۃ فی احوال الصحابۃ'' میں کی ہے۔ ختم شد. اور''نور الاَنوار'' نامی کتاب پر تحریر شدہ ایک حاشیے میں ہے بيشک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ تھے، اس کی تصریح ابن ھمام نے '' التحریر'' میں کی ہے، اور یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کیونکہ وہ دوسروں کے فتوے پر عمل نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے زمانے میں خود فتویٰ دیا کرتے تھے، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے بڑے بڑے صحابہ سے ان کا اختلاف رائے ہوا کرتا تھا، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ حاملہ عورت کی عدت جس کا شوہر فوت ہوچکا ہو ابعد الاجلین(دونوں عدتوں میں سے طویل ترعدت) ہے لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ان سے اختلاف ہوا اور انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ اس کی عدت وضع حمل ہے، جیسا کہ روایت میں ہے. ختم شد. میں کہتا ہوں كہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا شمار فقہاء صحابہ اور فتوی کے بڑے ائمہ میں ہوتا ہے، حافظ ذھبی نے ''تذکرۃ الحفاظ'' میں لکھا ہے: حضرت ابو ہریرہ دوسی، یمانی، فقیہ اور حافظ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے: وہ علم دوست اور بڑے ائمہ فتویٰ میں سے تھے اس کے ساتھ ساتھ بزرگ ، عبادت گزار اور عاجزی پسند بھی تھے. ختم شد. اور حافظ ابن قیم اعلام الموقّعین نامی کتاب میں رقمطراز ہيں: پھر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام کی جماعت، ایمان کا گروہ، قرآن کا لشکر اور حضرت رحمن ۔ جل جلالہ ۔ کی فوج فتویٰ دینے لگے اور وه آپ صلی الله عليه و سلم کے صحابہ ہیں، لیکن ان میں بھی سب ایک درجہ میں نہ تھے اس سلسلے میں چند صحابہ کا اہتمام زیادہ تھا اور چند کا نہایت ہی کم اور بعض کا متوسط تھا، لیکن جن حضرات کا اہتمام زیادہ تھا ان میں ان سات صحابہ کے نام شامل ہیں: حضرت عمر بن الخطاب، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عائشہ ام المؤمنین، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر . اور صحابه ميں سے جن حضرات سے متوسط مقدار ميں فتوے منقول ہیں ان كے اسماء گرامى یہ ہیں: حضرت ابو بکر صدیق، حضرت ام سلمہ، حضرت انس بن مالک، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ ۔۔۔الخ، لہذا اب اس حقیقت میں کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقہاء صحابہ اور جلیل القدر ائمہ فتوی میں سے ایک تھے]. ختم شد.
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کی شان میں نازیبا الفاظ بکنے کی ممانعت میں بھی کئی حدیثیں وارد ہیں، چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''میرے کسی بھی صحابی کو گالی مت دو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان میں سے کسی کے ایک مد(ایک پیمانہ جس کی مقدار اہل حجاز کے ہاں ٣/١ اور اہل عراق کے ہاں ٢ رطل ہوتی تھی) کو بھی نہیں پہونچ سکتا بلکہ اس کے نصف کو بھی نہیں پہونچ سکتا ہے''.اس حدیث کی امام بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے. اس کے علاوہ کئی سندوں سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ''جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے''. اور یہ بات محتاج بیاں نہیں ہے کہ لعنت بڑے گناہوں کی نشانی ہے. مزید امام احمد نے اپنی مسند میں اور ترمذی نے روایت کی ہے اور حسن غریب کہا ہے۔ كه حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمايا که حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو ،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو لعن طعن کا نشانہ نہ بناؤ، جس نے ان سے محبت رکھی تو مجھ سے ہی محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی، اور جس نے ان سے نفرت رکھی تو مجھ سے ہی نفرت کی وجہ سے ان سے نفرت رکھی ، اور جس نے ان کو تکلیف پہونچائی اس نے مجھے تکلیف پہونچائی، اور جس نے مجھے تکلیف پہونچائی تو اس نے اللہ کو تکلیف پہونچائی، اور جس نے اللہ کو تکلیف پہونچائی تو دور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو گرفت ميں لے لے.
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے بنیاد الزام تراشیاں کرکے ٹھیس پہونچانا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر کے بالکل منافی ہے اور ان کی تعظیم و توقیر کے تو ہم بلا شبہ مکلف ہیں. حضرت قاضی عیاض فرماتے ہیں: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا احترام کیا جائے اور ان کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے اور ان کے احسانات کی قدر دانی کی جائے اور ان کی اقتدا کی جائے اور ان کی خوبیاں بیان ہوں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی جائے اور ان کے آپس میں جو اختلافات ہوئے تھے ان کے متعلق چوں چرا سے گريز کیا جائے، اور ان کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھا جائے ، اور جھوٹے مؤرخین کے قصوں اور جاہل راویوں کی روایتوں اور گمراہ شیعہ اور بدعتیوں کی ایسی باتوں سے گریز کیا جائے جن سے ان صحابہ میں کسی پر بھی حرف آتا ہو،اور اگر اس قسم کی باتیں ان کے بارے میں یا ان کے درمیان فتنوں کے بارے میں منقول بھی ہوئی ہیں تو ان کی اچھی توجیہات تلاش کی جائیں، اور انكے لئے بہترين حل نكالا جائے اور بے جاه تجزیوں سے پرہیز کیا جائے، کیونکہ یہی طریقہ ان کے شایان شان ہے، نہ کسی کی برائی کی جائے اور نہ ان کے شان میں گستاخی کی جائے، بلکہ ان کی خوبیاں اور ان کے کارنامے بیان کئے جائیں اور ان کے کمالات اور پاکیزہ روش کا تذکرہ ہو اور اس كے علاوه سے سکوت اختیار کیا جائے.'' الشفا''(٢/٥٣).
امام غزالی فرماتے ہیں: جان لو کہ قرآن مجید مہاجرین اور انصار کی خوبیوں پر مشتمل ہے، اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں ان کی صفائی کا تذکرہ ہوا ہے اور مختلف الفاظ میں ان کی پاکبازی کی وضاحت آئی ہے۔۔۔۔ صرف یہی نہیں بلکہ نام بنام اور فردا فردا ان کی ستائش آئی ہے لیکن یہاں ان سب کا بیان موجب تطویل ہے، لہذا آپ كو ان کے بارے میں ایسا ہی اعتقاد رکھنا چاہئے اور بد گمانی سے پرہیز کرنا چاہئے جيسے كہ حسن ظن کے تقاضوں کے منافی احوال كو بيان كيا جاتا ہے، كيونكه اس سلسلے میں اکثر و بيشتر من گھڑت اور ان سے دشمنی ركهنے والا بے بنياد حكايتيں بيان كرتا ہے، اور جو نقل سے ثابت ہيں ان میں تاویل کی گنجائش ہے،اور ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جس میں عقل سہو و خطا کو جائز نہ رکھتی ہو، اور نہ ہی ان کے افعال کو نیک نیتی پر محمول کرنے میں کوئی عقلی رکاوٹ ہے اگرچہ ان کا فعل نیت کے مطابق نتیجہ خیز نہ ہوسکا ہو. ''الاقتصاد فی الاَعتقاد''(ص ٧٩). مزید امام غزالی ''اِحیاء علوم الدین'' میں ''مسلمان پر کن کن چیزوں کا عقیدہ رکھنا واجب ہے'' کے عنوان كے تحت لکھتے ہیں۔۔۔''اور یہ کہ تمام صحابہ کے بارے میں اچھا گمان رکھے، اور ان کے کمالات کا چرچہ کرے جیسا کہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی خوبیاں بیان فرمائی ہیں، اور یہ ایسی روشن باتیں ہیں جن کی وضاحت میں روایتیں موجود ہیں اور واقعات کی گواہی ثابت ہیں، جس نے مذکورہ باتوں پر اعتقاد و یقین رکھا وہ اہل حق میں شامل ہے اور ان کا شمار سنت کی جماعت میں ہے، اور گمراہوں کی جماعت اور بدعتی گروہ میں شامل ہونے کے الزام سے بری ہے. ختم شد.
یہ بات تو بالعموم سارے صحابہ کے متعلق ہے، رہی بات بالخصوص حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق تو ''صحیح'' نامی مجموعہ احادیث کے مؤلف امام ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمۃ لکھتے ہيں: جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے اندھا فرما دیا ہے اور احادیث کے معنی سمجھنے سے قاصر ہوگئے وہی لوگ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور ان کی احادیث کو رد کرنے کے لیے حیلہ بناتے ہیں، ایسے لوگ یا تو جھمی مکتب فکر اور نصوص شرعیہ کو مہمل قرار دینے والی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور جب ان کی احادیث کو سنتے ہيں اور اپنے کفریہ مذہب کے خلاف پاتے ہیں تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے نام گالیاں بکتے ہیں اور عامۃ الناس اور سادہ لوح عوام کو اندھيرے میں رکھنے کی خاطر ان پر ایسی ایسی تہمتیں باندھتے ہیں اور ان کی احادیث کو حجت کے قابل نہیں سمجھتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح کے تمام عیوب ونقائص سے پاک رکھا ہے ،یا پھر ایسے لوگوں کا تعلق خارجی جماعت سے ہوتا ہے جو امت محمدیہ پر تلوار کو بے نیام کرنا جائز سمجھتے ہیں اور خلیفۃ المسلمین اور امام المؤمنین کی اطاعت کو واجب نہیں سمجھتے ہیں لہذا اگر وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ احادیث کو سنتے ہیں اور اپنے گمراہ مذہب کے خلاف پاتے ہیں اور دلیل و برھان کے ذریعے ان حدیثوں کو رد نہیں کر پاتے ہيں تو ان کی عیب جوئی کا سہارا لیتے ہیں، یا پھر ایسے لوگ قدری فرقے کے کاسہ لیس ہیں جو مذہب اسلام اورمسلمانوں سے الگ تھلگ ہوگئے تھے اور ان مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا جو قضاء و قدر پر ایمان لاتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے کرنے سے پہلے ہی قضا و قدر کو لکھ دیا ہے، لہذا جب وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کردہ ایسے احادیث کو دیکھتے ہيں جو قدر کے اثبات میں واضح دلیل ہیں تو لا جواب ہوجاتے ہیں اور اپنے گمراہ کن اور کفریہ دعوے پر کوئی دلیل نہیں پاتے ہیں ، تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث سے استدلال جائز نہیں ہے، یا پھر ان خیالات کے حامل ایسے جاہل لوگ ہیں جو فقہ کا پیشہ اختیار کرتے ہيں اور بے بنیاد فقہ کی تعمیر کرتے ہیں جب یہ حضرات حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث پر مطلع ہوتے ہیں اور انہیں اپنے مذہب و مشرب کے خلاف پاتے ہيں یا اپنے اپنائے ہوئے مکتب فکر کے منافی پاتے ہیں جس کو انہوں نے محض تقلید سے آنکھیں بند کر کے بغیر حجت و دلیل کے اختیار کرلیا ہے، تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور ان کی روایت کردہ احادیث کو محض اس وجہ سے رد کرتے ہیں کہ وہ ان کے مذہب کی تایید نہیں کرتے ہیں ،اور اگر ان کی روایت کردہ احادیث ان کے مذہب کے موافق ہوں تو اپنے مخالفین پر انہیں کو بطور حجت پیش کرتے ہیں، بہرحال ایسے کچھ فرقے ہیں جنہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو رد کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ان احادیث کے صحیح معانی پر رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہے. ختم شد. اسے حاکم نے مستدرک میں ان کے حوالے سے نقل کیا ہے(٣/٥٨٦).
جہاں تک اس بارے میں فقہی حکم کا سوال ہے تو واضح رہنا چاہئے کہ علمائے کرام نے اتفاق کیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی دینا حرام ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:( میرے صحابہ کو گالی مت دو، کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان میں سے کسی کے مد یا اس کے نصف کو بھی نہیں پہنچ سکتا)". لہذاجمہور فقہائے کرام کی یہی رائے ہے کہ ایسا شخص فاسق ہے، لیکن بعض فقہاء نے اسے کافر تک قرار دیا ہے.
حضرت ابن حجر ہیتمی نے کہا ہے: شیخین اور دیگر علماء كرام نے تصریح کر دی ہے کہ صحابہ کو گالی دینا بڑا گناہ ہے، اور حضرت جلال بلقینی نے کہا ہے:"ایسا شخص جماعت سے علٰيحدگی اختیار کرنے والے کے حکم میں ہے، اور ایسی حرکت سراسر بدعت ہے اور ترک سنت کی کھلی نشانی ہے، اور جس نے صحابہ رضی اللہ عنھم کو گالی دی اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا اس میں کسی کا اختلاف نہیں''.الزواجر'' (٣/٣٣٢).
اور ابن تیمیہ کہتے ہیں: اگر کسی نے انہیں ایسی گالی دی جس سے ان کے عدل و انصاف پر کوئی حرف نہیں آتا ہے یا ان کی دینداری میں کوئی نکتہ چینی نہیں ہوتی ہو جیسے ان میں سے کسی کو بخیل یا بزدل یا کم علم یا عدم زہد وغیرہ سے متصف کيا، تو ایسا شخص تادیبی اور تعزیری سزا کا مستحق ہے، لیکن صرف اس بناء پر ہم ایسے شخص پر کفر کا حکم نہیں لگا سکتے ، اور ان اہل علم کا کلام اسی پر محمول کیا جائیگا جنہوں نے ایسے شخص کو کافرکہنے سے گریز کیا ہے.''الصارم المسلول'' (ص ٥٩٠).
اور حضرت خطیب بغدادی نے اپنی کتاب''الکفایۃ''(ص ٤٦۔٤٩) میں ایک فصل قائم کی ہے جس میں انہوں نے صحابہ کے عدل و انصاف کے بارے میں کئی نصوص ذکر کیے ہیں، اس کے بعد انہوں نے اس باب میں امام ابو زرعۃ رازی سے روایت کی ہے۔ واضح رہے کہ وہ بڑے محدثین میں سے ہیں۔ انہوں نے کہا: جب تم کسی آدمی کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کو گالی گلوج كرتے دیکھو تو جان لو کہ وہ زندیق ( یعنی بے دین)ہے، اور یہ اس لیے کہ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نزدیک سچے ہیں اور قرآن سچا ہے ، اور یہ قرآن اور سنتیں حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے توسط سے ہم تک پہونچے ہيں. اور یہ لوگ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہمارے بنیادی شواہد پرنکتہ چینی کرکے کتاب اور سنت کو باطل ٹھہرائیں جبکہ حقیقت میں ایسے لوگ خود عیب جوئی کے زیادہ مستحق ہیں کیونکہ یہ زندیق لوگ ہیں. ختم شد.

اور رہی بات کاتب کے دعوے پر تفصیلی رد کی تو وہ حسب ذیل ہے:

• جہاں تک مضمون نگار کی طرف سے ان پر فقر و تنگدستی کے طعنہ کی بات ہے ، تو یاد رہے کہ فقراء کا بڑا مقام ہے خصوصا صحابہ میں سے جو فقر کو ترجیح دیتے تھے اور ایمان پر قائم رہے چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرمایا:(وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ) – اور آپ ان لوگوں کو دور مت کیجئے جو صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے ہیں- [سورہ انعام: ٥٢]، لہذا اس کے بعد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقر اختیار کرنے والے صحابہ کی خاص عزت افزائی فرماتے تھے اور خصوصا اہل صفہ کی بہت حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فقراء مہاجرین تھے جو مسجد کے صفہ میں رہا کرتے تھے اور جو بھی ہجرت کرتے جاتے تھے ان میں شامل ہوتے جاتے تھے، اور وہ نہایت غریب لیکن صابر تھے، اور حافظ ابو نعیم نے اپنے کتاب''حلیۃ الاَولیاء'' کے ابتداء میں ان کے تذکرے کا بڑا اہتمام کیا ہےــ''.

• اور مضمون نگار کا یہ دعوی کرنا کہ غزوہ حنین کے بعد گفتگو کے دوران ان کی توہین ہوئی تھی، تو در اصل قصہ یہ ہے کہ حضرت ابان اورحضرت ابو ہریرہ کے درمیان کچھ سخت کلامی ہوگئی تھی ، اس کے باوجود حضرت ابان نے ان کے بارے میں کچھ نہ کہا یہاں تک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں کہا: یہ حضرت ابن قوقل کے قاتل ہیں( یعنی ابن قوقل نامی صحابی کے قاتل ہیں اور یہ واقعہ غزوہ احد میں پیش آیا تھا)، لہذا معاملہ مال غنیمت مانگنے سے متعلق نہیں تھا، اور غنیمت مانگنے کے بارے میں بھی دو مختلف روایتیں آئی ہیں، چنانچہ بعض نے بیان کیا ہے کہ وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، اور بعض نے کہا کہ وہ حضرت ابان تھے، اور حافظ ابن حجر نے دونوں روایتوں میں یوں تطبیق دی ہے کہ دونوں نے طلب کیا تھا، اور دونوں کو کچھ نہیں ملا. لیکن سوال یہ ہے کہ جب حضرت ابان بھی شریک تھے تو صرف حضرت ابو ہریرہ ہی کیوں مورد الزام ٹھہرے، اس کے علاوہ کسی شخص کا مال غنیمت میں سے اپنا حصہ طلب کرنا کوئی عیب کی بات تو ہے نہیں خصوصا جب آدمی کو یہ گمان ہو کہ اس میں انکا حصہ ہے، اور بدر میں تو معمر اور نو عمر صحابہ کے درمیان مال غنیمت کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنا یہ قول نازل فرمایا: (يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ) - وہ آپ سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں فرما دیجئے: مال غنیمت کے مالک اللہ اور رسول ہیں، پس اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایماندار ہو- (سوره انفال :1).اور اس میں شک نہیں کہ اہل بدر جلیل القدر صحابہ میں سے تھے.

• اور مضمون نگار کا یہ دعوی کرنا کہ انہوں نے صرف کھانے کی خاطر ایمان لایا تھا، در اصل ان کا یہ کلام صحابہ کرام کے اخلاص پر نکتہ چینی کرنے کے مترادف ہے بلکہ ان کی صداقت اور نیک نیتی کو داغدار کرنا ہے اور ایسی نکتہ چینی درحقیقت بے ادبی گستاخی اور بے شرمی پر مبنی ہے، کیا ترک وطن کرکے ایسی شخصیت کی بارگاہ میں پہونچنا جن سے سارے عرب نے دشمنی ٹھان لی تھی کوئی آسان بات ہے؟جي نہیں بلکہ اس کےلئے تو بڑی ہمت درکار ہے.

• مضمون نگار کا یہ طعنہ دینا اور گستاخی کرنا کہ ان کا نام تک بھی معلوم نہیں ہے صرف کنیت سے جانے جاتے ہیں، تو اس میں تو کوئی نقص كي بات نہیں، کتنے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے علمائے کرام ایسے ہیں جن کے نام معلوم نہیں ہے بلکہ صرف کنیتوں سے جانے جاتے ہیں یا پھر اپنے القاب سے پہچانے جاتے ہیں، یا کم سے کم اپنے القاب سے اتنے مشہور ہوگئے ہیں کہ اگر نام لیا جائے تو معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ کون ہیں، اور سوانح اور مصطلاحات کی کتابیں اس حقیقت پر واضح دلیل ہیں، اس کے باوجود حافظ ابن حجر نے ''الاِصابہ'' میں بیان کیا ہے کہ ان کے نام کے سلسلے میں اختلاف صرف تین ناموں میں سے کسی ایک کے ہونے میں منحصر ہے اور یہ بھی روایتوں کی صحت و عدم صحت کی بنیاد پر.

• مضمون نگار کا یہ مزاق اڑانا کہ بلی ہر وقت ان کے ساتھ رہتی تھی، تو درحقیقت یہ ان کی نادانی اور بےوقوفی کی واضح دلیل ہے اور ان کے دماغ میں حق وباطل کی پہچان کا معیار بگڑ گیا ہے، اس لئے رحمت کو عیب اور تہمت شمار کررہا ہے، لیکن حیوان کا خیال رکھنا اور اس پر رحم کرنا اسلام میں کوئی عیب کی بات نہیں ہے بلکہ اس میں تو انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے بشرطیکہ عقل ہو.
بہرحال اس بارے میں صحیح روایت وہی ہے جو امام ترمذی کی کتاب میں ہے اور جسے انہوں نے حسن کہا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے بچپن کے بارے میں بیان کیا ہے: ''میں اپنے گھر کي بکریاں چراتا تھا، اور میری ایک چھوٹی سی بلی تھی، رات میں میں اسے درخت پر چھوڑ دیا کرتا تھا اور جب دن ہوتا تو میں اسے اپنے ساتھ لے لیا کرتا تھا اور اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا، اس لئے لوگوں نے میری کنیت ابو ہریرہ رکھ دی، اس کے علاوہ جو باتیں اڑائی گئی ہیں صحیح نہیں ہے ، اور خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی پیار ومحبت میں انہیں ان کی ا س کنیت سے یاد فرمایا کرتے تھے.

• مضمون نگار کا یہ مسخرہ اڑانا کہ وہ ان پڑھ تھے، تو سارے عرب کا بھی تو یہی حال تھا جیسا کہ قرآن مجید کی نص میں موجود ہے، بلکہ اکثر صحابہ کرام ایسے ہی تھے، امام ترمذی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور اپنی سنن میں اسے حسن صحیح کہتے ہیں چنانچہ روایت ہے: ''حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے میں مجھ پر کسی کو سبقت نہیں سوائے عبد اللہ بن عمرو کے، کیونکہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا''.

• اور مضمون نگار کا یہ دعوی کرنا کہ حضرت عمر نے انہیں بحرین کا گورنر اس لئے بنا دیا تھا کہ وہ چھوٹے صحابہ میں سے تھے، اور یہ کہ حضرت عمر نے ان کے مال ودولت پر ان کی گرفت کی تھی بلکہ مارا بھی تھا. تو معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صرف لائق و فائق لوگوں کو ہی گورنر بنایا کرتے تھے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ پر خیانت کی وجہ سے سختی فرمائی تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مال کا معاملہ تھا اور دونوں اپنے اپنے اعتبار سے حق بجانب تھے، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کے بعد ایک بار حضرت ابو ہریرہ کو گورنر بننے کی پیشکش کی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ جیسا کہ '' الاستیعاب'' نامی کتاب میں مذکور ہے۔، اور یہ ان کی خود داری کی نمایاں دلیل ہے. مزید یہ کہ یہ سختی صرف حضرت ابو ہریرہ کے لیے نہیں تھی بلکہ عموما حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں ہی سختی تھی، اور یہ بات ان کے بارے میں مشہور ہے، یہاں جلدی میں ہمارے لیے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا قصہ کافی ہے چنانچہ جب سخاوت کی وجہ سے وہ قرضے میں ڈوب چکے تھے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیج دیا تاکہ مال سے قرضہ اتار سکیں ، لیکن جب وہ مدینہ شریف واپس آئے تو حضرت عمر نے ان پر بھی سختی کی یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مداخلت کرني پڑي اور اس وقت وہ خلیفہ تھے. اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی اور جب شام کے گورنر ابو عبیدہ فوت ہوئے، تو حضرت عمر نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ملک شام پر مقرر فرما دیا، لہذا اگر والیوں پر سختی کرنا خیانت کی وجہ سے ہوتی تو وہ ہرگز حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو شام کا حاکم مقرر نہیں کرتے خصوصا اس واقعہ کے پیش آجانے کے بعد جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت معاذ کے ساتھ ہوا تھا.

• اور مضمون نگار کا یہ دعویٰ کرنا اور مزاق اڑانا کہ حضرت ابو ہریرہ بنت غزوان کے ہاں پیٹ پالنے کےلیے مزدوری کیا کرتے تھے تویہ عجیب بات ہے، کیا مزدوری کرنا باعث فخر نہیں ہے؟ کیا حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام نے مزدوری نہیں کی تھی، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہےـ: (قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ)- انہوں نے ( یعنی موسی علیہ السلام سے)کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے ہاں مزدوری کریں پھر اگر آپ نے دس سال پورے کر دیئے تو آپ کی مرضی ہے-[سورہ قصص: ٢٧]. اور موقعے کی مناسبت سے یہاں حافظ ابن حجر کی ''الاِصابہ'' نامی کتاب سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قصے کی اصل عبارت کو نقل کرتے ہیں، چنانچہ "حلیہ" میں تاریخ ابی العباس سراج سے صحیح سند کے ساتھ مضارب بن حزن سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں: میں رات میں چل رہا تھا تو ایک آدمی کو تکبیر کہتے ہوے سنا، میں چلتا رہا یہاں تک کہ انہیں پالیا میں نے ان سے پوچھا: یہ کیا ہو رہا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں اللہ تعالیٰ کا شکر کر رہا ہوں کیونکہ میں پہلے تو بسرۃ بنت غزوان کے ہاں مزدوری کرتا تھا تاکہ میں اپنی سواری کو چارہ دے سکوں اور اپنا گذر بسر ہوسکے، اور جب وہ سوار ہوتے تھے تو میں ان کی سواری ہانکا کرتا تھا اور جب وہ اترتے تھے تو میں ان کی خدمت کیا کرتا تھا، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے میری ان سے شادی کرادی، تو اب ہوتا یہ ہے کہ میں سوار ہوتا ہوں اور جب میں اترتا ہوں تو میری خدمت ہوتی ہے. ختم شد. غور فرمائیے کس قدر ان میں عاجزی و انکساری تھی ،اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے کس قدر قدر دان تھے، انہوں نے اکڑنے والوں اور ناشکری کرنے والوں کی طرح تکبر نہیں کیا.

• اور مضمون نگار کا یہ دعوی کرنا کہ انہوں نے حضرت جعفر کی فضیلت میں ایک حدیث گڑھ لی تھی کیونکہ وہ ان پر مہربانی کرتے تھے، تو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دعوی بھی نری جہالت پر مبنی ہے، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی نسبت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی ہے، بلکہ وہ ان کی رائے تھی جس کا انہوں نے اظہار فرمایا جیسا کہ دوسرے صحابہ بھی اپنی اپنی رائے کا اظہار فرمایا کرتے تھے ، اور مضمون نگار کی اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ وہ حدیث مرفوع اور حدیث موقوف کے درمیان فرق نہ کر سکے ! لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس جہالت کے باوجود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور امام بخاری پر نکتہ چینی کی جرأت کر رہے ہیں!

• اسی طرح مضمون نگار کا ان کی بھوک کا قصہ بیان کرنا کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کی تفسیر پوچھی تاکہ انہیں کھانا کھانے کا کوئی موقع مل جائے، تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مضمون نگار نے اس ایک خاص واقعے کو لیکر عمومی حکم لگایا یہاں تک کہ ان کی دائمی عادت ٹھہرا دی، مزید یہ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے براہ راست ان سے کھانا طلب نہیں کیا بلکہ اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھا، اور ایسا کام مباح ہے خصوصا جب بھوک کا شدید غلبہ ہو، اور جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت ابو ہریرہ سے تنگ آنے کا دعویٰ ہے یہ تو اپنے جيب سے نكالا ہوا دعویٰ ہے، بلکہ درست یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے اشارے کو يا تو سمجھا ہی نہیں، اور یہ احتمال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہوسکتا ہے ان کے پاس دینے کےلئے کوئی چیز ہی نہ رہی ہو اور صاف صاف جواب دینے میں سبکی محسوس کئے ہوں بہرحال اس واقعے پر تعجب کرنے کی کوئی بات نہیں، بلکہ ایسا واقعہ تو خود حضرت عمر اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنھما کے ساتھ بھی پیش آیا تھا، بلکہ ساری مخلوق سے بہتر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ایک مرتبہ ایسا واقعہ پیش آیا، چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے: ''ایک روز۔ یا ایک شب۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ باہر تشریف لے گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بھی باہر ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: '' آپ دونوں کو کس چیز نے اس وقت اپنے گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کیا'' انہوں نے جواب دیا: بھوک نے یا رسول اللہ! .تو آپ نے فرمایا: اور مجھ کو بھی۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ اسی چیز نے گھر سے نکالا جس نے تم دونوں کو نکالا، اٹھو''، تو وہ ان کے ساتھ اٹھے اورانصار میں سے ایک آدمی کے پاس تشریف لائے۔۔۔۔۔ پھر باقی حدیث بیان کی، بہرحال مضمون نگار اس بارے میں کیا فرمائیں گے؟.

• اسی طرح ان کو علاء حضرمی کے ساتھ منذر بن ساوی کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجنے کی بات ہے،تو واضح رہنا چاہئے کہ اس واقعہ سے تو ان کی فضیلت ہی فضیلت عیاں ہو رہی ہے، کیا ایسے اہم وفد کے ساتھ ان کو روانہ فرمانا ان پر اطمئنان اور اعتماد کی علامت نہیں ہے؟ اور امیر کو ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت سے بھی اسی حقیقت کی تائید ہوتی ہے اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت رکھتے تھے ناراض نہیں تھے، اسی طرح حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ کو اذان کےلیے منتخب کرنا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے، اسی طرح بہت سارے صحابہ کو بھیجا گیا جن میں حضرت معاذ،حضرت خالد، حضرت علی، اورحضرت ابو موسی رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں، لیکن نہ جانے مضمون نگار کو یہ کہاں سے معلوم ہو گیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو شہربدر کرنے کی نیت سے بھیجا گیا تھا اور دوسرے صحابہ اس سے مستثنیٰ رہے. معلوم ہونا چاہئے کہ اگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ملک بدر کرنا چاہتے تو کر دیتے جس طرح حکم بن ابی عاص کو طائف شہر بدر فرما دیا تھا، جب کہ وہ حضرت ابو ہریرہ سے زیادہ طاقت اور جماعت رکھتے تھے، اور حکم کے ملک بدر کئے جانے کا قصہ ''الاصابہ'' نامی کتاب اور دیگر سوانح کی کتابوں میں بھی موجود ہے.

• جہاں تک بکثرت ہنسی مذاق کرنے کی بات ہے، تو واضح رہنا چاہئے کہ مذاق دراصل ایک جائز و مباح امر ہے، اور بچوں سے ہنسی مذاق کرنا تو درحقیقت ان کی فضیلت کی روشن دلیل ہے،کیونکہ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ وہ مدینہ شریف کے امیر تھے، اس سے تو ان کی عاجزی و انکساری جھلکتی ہیں اور یہ تو ان کی خوش اخلاقی کی بین دلیل ہے. اور بچوں کے ساتھ ہنسی اور دل لگی کرنے کے بارے میں تو حدیث شریف وارد ہے چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک بچے کی چڑیا مر گئی تھی تو ان سے فرمایا: ''یا اباعمیر مافعل النغیر'' اے ابو عمیر چڑیا کو کیا ہوگیا؟ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مذاق فرمایا کرتے تھے لیکن سچا مذاق فرمایا کرتے تھے.

• اور مضمون نگار کا یہ کہنا کہ وہ علم طب جاننے کا دعویٰ کرتے تھے، لیکن وه ان کے طبی اقوال میں کچھ نقل نہ کرسکے سوائے ایک قول کے اور وہ بھی دعوی خاص اور دلیل عام ہے، اور اس میں بھی یہ احتمال باقی ہے کہ وہ قول کسی اور کا ہو اور وه صرف ناقل ہوں جیسے کہ لوگ اپنے زمانے کے اہل طب کا کلام نقل کیا کرتے ہيں اور اس میں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے. اور یہ جواب اس صورت میں ہو گا اگر اس قول کے ثبوت کو تسلیم کرلیا جائےتو!.

• اسی طرح جنگ مؤتہ کے دن ان پر فرار ہونے کا الزام لگانا بھی عجیب وغریب ہے، کیونکہ مشہورومعروف بات تو یہی ہے کہ پوری اسلامی فوج خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے زیر قیادت گھمسان کی لڑائی کے بعد ایک زبردست جنگی حکمت عملی کے پیش نظر میدان جنگ سے پلٹ آئی تھی ، لہذا اگر مضمون نگار اسے جنگ سے بھاگنا سمجھتا ہے تو اس میں صرف حضرت ابو ہریرہ کی ہی کیا خصوصیت ہے بلکہ اس میں تو پوری فوج برابر کی شریک ہے؟

• مضمون نگار کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ جنگ صفین کے دنوں میں امام علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور حضرت معاویہ کے دسترخوان پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، اور جب اس بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: حضرت معاویہ کی دسترخوان زیادہ مرغن ہوتی ہے، اور حضرت علی کے پیچھے نماز زیادہ بہتر اور کامل ہوتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ شیخ مضیرۃ کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے، اور یہ دعویٰ کرنا کہ لڑائی میں وہ دونوں فریقوں سے لاتعلق تھے، تو صحیح بات یہ ہے کہ یہ قصہ ادب کی کچھ کتابوں میں سند کے بغیر مذکور ہے، اور زمخشری نے اسے ''ربیع الابرار'' میں ذکر کیا ہے اور ابن حدید نے '' شرح نھج البلاغۃ'' میں بیان کیا ہے، یہاں یہ بات ذهن نشین رہے کہ مذکورہ بالا دونوں مؤلف اپنے مذہب کے مطابق سند بلا سند ہر طرح کی روایتیں ذکر کر جاتے ہیں مزید یہ کہ اس طرح کی باتیں صرف اور صرف نفس پرست لوگوں کے حلقوں میں ہی گشت کرتی ہیں اور اگر بالفرض ہم قصے کو درست بھی تسلیم کرلیں تو بھی انصاف اور غور کرنے والی نگاہ میں اس ميں کوئی عیب کی بات نہیں ہے، رہى بات ایام جنگ میں ان کے دونوں فریق کے درمیان رہنے اور ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر جانے آنے کی تو اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ دونوں فریق کے درمیان قابل اعتماد تھے اور ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کرنے سے دونوں فریق اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھتے تھے، رہا حضرت معاویہ کے دسترخواں پر ان کا یہ کہنا کہ'' حضرت علی کے پیچھے نماز زیادہ مکمل ہوتی ہے'' یہ بات درحقیقت ان کی جراتمندی اور صاف گوئی کی نمایاں نشانی ہے، کیونکہ اگر وہ کھانے کےلئے یہ سب کچھ کرتے تو مکر وفریب سے کام ليتے، اس کے علاوہ وہ اس وقت تک دولتمند ہوچکے تھے، کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہی بحرین کا سفر کرچکے تھے اور پھر حضرت عمر کے زمانے میں بھی وہاں رہ چکے تھے جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں. اور ان کى ان جنگوں سے کنارہ کشی کرنا ان کی بزدلی کی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اس سے صاف طور پر یہ سمجھ میں آتی کہ انہوں نے دونوں گروہوں میں سے کسی بھی گروہ کے ساتھ جنگ کرنے کوپسند نہیں کیا تھا. اور یہ کوئی قابل تنقید بات نہیں ہے کیونکہ بہت سارے صحابہ کا ایسا موقف تھا، جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت سعد بن ابی وقاص جو ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو جنت کی بشارت دی گئی ہے بھی شامل ہیں.

• مضمون نگار کا یہ کہنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو حدیث بیان کرنے سے منع کیا تھا، اسی طرح ان کا خود یہ اعتراف کرنا کہ وہ ایسی حدیثیں بیان کرتے ہيں اگر حضرت عمر سنتے تو ان کا سر پھوڑ دیت، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قصہ اولا توصحیح ہی نہیں ہے،کيونكہ یہ روایت ابن ابی حدید معتزلی رافضی کی کتاب میں درج ہے، اور اگر ہم بالفرض اسے درست بھی مان لیں، تو حضرت عمر کا حدیث بیان کرنے سے منع کرنا صرف حضرت ابو ہریرہ کے ساتھ خاص نہیں تھا بلکہ عموما سارے صحابہ کو شامل تھا جیسا کہ یہ امر مشہورومعروف ہے، اور صحیح مسلم میں مذکورحدیث استئذان کے سلسلے میں حضرت ابو موسی کے ساتھ ان کا قصہ كسى پر پوشیدہ نہیں ہے، اس کے باوجود ہر وقت صرف حضرت ابو ہریرہ کو نشانہء تہمت بنانا قابل تعجب ہے؟، اور اگر درست بھی ہو تو یہ سختی صرف رخصت اور فتنے کی حدیثوں پر محمول ہے جن کی روایت کرنے میں شان ورود اور حکمت کا خیال رکھنا ضروری ہے.

• اور مضمون نگار نے آغاز مقالہ میں جو اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے امام بخاری اور ان کی صحیح کا پردہ فاش کر دیا ہے، تو معلوم رہے کہ امام بخاری محدثین کے امام ہیں ، اور ان کی کتاب یعنی صحیح البخاری اللہ تعالی کی کتاب کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے، جیسا کہ کتب مصطلح میں منصوص ہے، اور روایت حدیث میں امام بخاری کی احتیاطی شرط اہل علم کے ہاں مشہور ہے. رہی بات ان کی صحیح کتاب میں کچھ احادیث پر کلام کی تو در اصل اس کی وجہ قصور فہم کے سوا کچھ نہیں اورسوال یہ ہے کہ کیا تہمت تراشی حقیقت کو بدل سکتی ہے، اس افترا پردازی کا دندان شکن جواب دینے کےلئے وہی کلام کافی ہے جو امام الائمۃ محمد بن اسحاق بن خزیمہ نے حضرت ابو ہریرہ کی مدافعت میں کیا ہے.
سوال اور مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں صحابہء کرام کی شان میں گستاخی کرنے والا فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود ہے، اور امام بخاری کی شان میں چوں وچرا کرنے والا شخص بھی اسی حکم میں ہے، کیونکہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے دین میں بغیر علم کے لب کشائی کی جرات کرتا ہے، اور جو لوگ ائمہء حدیث اور راویان سنت پر کیچڑ اچھالتے ہیں خواہ وہ راوی حضرات صحابہ میں سے ہوں یا صحابہ کرام کے بعد کے لوگ ہوں، ایسے کیچڑ اچھالنے والے بے لگاموں کا اصلی مقصد ہی کچھ اور ہے گویا کہ وہ دبے لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شریعت صرف اول زمانے کےلئے تھى اب اس کی ضرورت باقی نہيں رہی ، لیکن یاد رہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ایسے اقوال اس سے پیشتر بھی کہے گئے تھے لیکن ان کا انجام یہ ہوا کہ وہ تاریخ کے ردی خانے میں ڈال دئے گئے، اور ایسے لوگ تادیبی سزا کے مستحق ہوئے، کیونکہ جب شریعت اور قانون کی نگاہ میں غلط افواہ پھیلانے والے اور لوگوں میں خوف وہراس اور دہشت وبے چینی پیدا کرنے والے سزا کے مستحق ہیں ، تو مسلمانوں کے عقائد میں شک پیدا کرنے والا اور جھوٹی اور بے بنیاد خبریں اڑاکر ان کے دینی اصولوں کو متزلزل کرنے والا یا شعائر اسلام میں رخنہ اندازی کرنے والا شخص تو بدرجہء اولیٰ سزا کا مستحق ہونا چاہئے. لہذا ہر وہ شخص جو اپنا دین اپنی دنیا کی خاطر یا دوسروں کی دنیا کی خاطر فروخت کرے اور جو دین اسلام کے اصولوں پر نکتہ چینی کرکے یا ارکان اسلام پر کیچڑ اچھال کر اپنی شہرت اور نام ونمود چاہے ایسا شخص سزا کا مستحق ہے بلکہ ایسے شخص کی سزا اور پکڑ میں کسی کی ملامت یا مذمت کی بھی پرواہ نہیں ہونی چاہئے، تاکہ وه ديگر ان لوگوں کےلیے باعث عبرت بن جائے جنہیں سماجی امن و استقرار کے بگاڑ کی دھن سوار ہو، کیونکہ سوئے ہوئے فتنے کو جگانے والے شخص پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے.

باقى اللہ سبحانہ وتعالی بہتر جاننے والا ہے
 

Share this:

Related Fatwas