کیا وقف شدہ مال کی زکوۃ نکالنی ہے؟

Egypt's Dar Al-Ifta

کیا وقف شدہ مال کی زکوۃ نکالنی ہے؟

Question

ت سال ٢٠٠٤ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پرمشتمل ہے:

ہم جناب والا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم ١٣١ فلیٹوں پر مشتمل ايک عمارت میں رہتے ہیں ، اور ہر فلیٹ کے مالک نے عمارت کی یونین کے کھاتے میں ایک ایک ہزار جمع کیا ہے، یہ رقم بینک میں ڈپازٹ رکھی جاتی ہے اور سالانہ اس کے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں، اور ہر مہینے اس میں سے ہر فلیٹ کی طرف سے تیس پونڈ بطورعمارت کا خرچہ ادا کئے جاتے ہیں ، اور اس میں سالانہ فوائد کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اس وقت بنیادی رقم تقریبا ایک لاکھ پچیس ہزار پونڈ ہے اس پر سال گذر جاتا ہے اور بنیادی رقم سے کچھ بھی نہیں گھٹتا، تو کیا اس غرض سے رکھے گئے اس مال پر سالانہ زکوۃ ہے یا نہیں؟

Answer

مجموعی طور پر فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مال پر زکوۃ واجب ہونے کے شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مال کسی خاص شخص کی مکمل ملکیت میں ہو، اور مکمل ملکیت سے مراد یہ ہے ، کہ وہ سراسر اس کی ملکیت میں ہو یعنی ملک وتصرف سب اسی کا ہو کہ مالک اپنے اختیار سے اس میں تصرف کرسکے، اور اس کے فوائد اس کو حاصل ہوتے ہوں، اور فقہاء نے بیان کیا ہے کہ عام طور پر وقف شدہ مال پريا فقیروں یا مسجدوں یا جنگجووں یا یتیموں وغیرہ کے لئے وقف کردہ مال پر زکوۃ نہیں ہے، کیونکہ اس کا کوئی خاص مالک نہیں ہوتا ہے.
اس اصول کی بنا پر ہر وہ مال جو کسی متعین شخص کی ملکیت نہ ہو وہ عام مال تصور ہوگا اس کے اصل پر زکوۃ نہیں ہے، اور اس دائرے میں وہ سب اموال داخل ہیں جن کا انتظام و انصرام، سرمایہ کاری اور قوم کی طرف سے خرچ کرنے کی نیابت ملکی نظام کرتا ہو، یہ بیت المال یا خزانہء عامہ کے اموال ہیں.
اس بنا پر اور سوال کی صورت کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اس عمارت کےلئے وقف شدہ فنڈ ہے اس پر زکوۃ نہیں ہے کیونکہ وہ کسی خاص شخص کی مکمل ملکیت نہیں ہے بلکہ وہ عام وقف میں شامل ہے ،عین ممکن ہے کہ اس کے دینے والے بدل جائیں اور وہ باقی رہے.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas