ھدی اور قربانی کے جانور سے متعلقہ م...

Egypt's Dar Al-Ifta

ھدی اور قربانی کے جانور سے متعلقہ مسائل ؟

Question

حت مندرج سوال پر مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے :

خاندان کے سب سے اہم فرد کے سفر حج کے لئے روانہ ہوجانے کی صورت میں جب کہ ان پر حج کی ہدی ہے تو کیا ان کی ہدی قربانی کی طرف سے کافی ہوگی یا ملک میں الگ سے قربانی کرنے كي ضرورت ہے ؟ اور اس صورت میں کیا ان کی واپسی کا انتظار کیا جائے گا یا کسی کو نائب بناديا جاءے گا ؟ اور جب گھر کا اہم فرد نوکری کے لئے باہر ہو تو کیا اپنے رہائشی ملک میں قربانی کرے گا یا اپنے اصلی ملک میں قربانی کرنے کے لئے کسی کو مامور کرے گا ؟ اور کیا حج کے دوران ہدی کے جانور کو ہدی اور قربانی دونیتوں سے ذبح کرنا جائز ہے ؟

Answer

(1)قربانی کی تعریف: مخصوص شرائط کے ساتھ قربانی کے دنوں میں اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کی غرض سے حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہا جاتا ہے.لہذا جو جانور اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کے لئے نہ ہوں وہ قربانی نہیں کہلائیں گے،مثال کے طور پر وہ جانور جوبیچنے یا کھانے یا مہمان نوازی کے لئے ذبح کیے جاتے ہیں، یا جو جانور ان مخصوص دنوں کے علاوہ دوسرے دنوں میں اگر چہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے بھی ذبح کیے جاتے ہوں وہ بھی قربانی میں شمار نہیں ہوں گے ، اسی طرح وہ جانور بھی قربانی کی تعریف میں نہیں آتا ہے جو نو زائد بچے کے عقیقہ کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے، اور قربانی کی تعریف سے وہ جانور بھی خارج ہے جو حج تمتع اور حج قران میں ھدی کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے، اسی طرح حج کے واجبات میں کوتاہی یا ممنوع افعال کے ارتکاب کے کفارے کے طور پر جو جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ بھی قربانی کی تعریف میں داخل نہیں ہے، اور جو جانورمحض حرم اور اس کے غریبوں پرصدقہ کے لئے ذبح کیا جاتا ہے وہ بھی قربانی کے مفہوم میں شامل نہیں ہے.
قربانی کو عربی زبان میں "اُضحیة" کہا جاتا ہے اور اس کی جمع "اَضاحِیْ" ہے، یا "ضحیة" کہا جاتا ہے اور اس کی جمع ضحایا ہے، یا اضحاۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع اضحی ہے اور اسی وجہ سے اس عید کو عید الاضحی یعنی قربانی کی عید کا نام دیاگیا ہے ، اور اسے عید الاضحیٰ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ قربانی چاشت کے وقت کی جاتی ہے.
قربانی کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس کے ذریعہ ذی الحجہ کے مبارک ایام کی آمد اور اپنی زندگی کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، جس طرح اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علی نبینا و علیھما الصلاۃ و السلام کی زندگی بچ جانے ، اور ان ایام مبارکہ کے پانے اور ان میں نیک کاموں کی توفیق پر اللہ تعالی کا شکر کرتے ہوئے ایک عظیم بھیڑ ذبح فرمایاتھا، کیونکہ یہ ایام سال کے ایسے بہترین دن ہیں جن کی اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں قسم کھائی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا :"وَالْفَجْرِوَلَيَالٍ عَشْرٍ"(فجر کی قسم ، اور دس راتوں کی قسم) [سورہ فجر : ١۔٢] ،اور ان ایام کی شان میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:'' بھلائی کرنے کے دنوں میں سے اللہ عز و جل کو ان دنوں سے زیادہ کوئی دن پسند نہیں ہیں''. یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں سے، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی اتنا محبوب نہیں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:'' نہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد اتنا محبوب ہے مگر یہ کہ ایک آدمی اپنی جان اور مال لے کر نکلے اور پھر دونوں کو لٹا کے آجائے'' امام بخاری وغیرہ نے حضرت ابن عباس سے اس کی روایت کی ہے.
مذهب اسلام اپنے پیروکاروں کویہ درس دیتا ہے کہ ان کی خوشیاں اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں اور ان کی خوشیاں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں پر ہوں، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے"قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ "( فرمادیجئے اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت کے باعث ہے اور انہیں اسی پر خوشی منانی چاہئے وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے ) [سورہ یونس ٥٨]، عید الفطر اور عید الاضحی ان دونوں کا مقصد دراصل اللہ تعالیٰ کی طاعت اور اس کی توفیق اور رضامندی پر خوشی منانا ہے، تاکہ مسلمان اس بات کا عادی ہوجائیں کہ ان کی خوشی بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہواور ان کا غم بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اسی طرح ان کی داد و دہش بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو اور ان کا روکنا بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہو، وہ اللہ کے لئے جییں اور اسی بزرگ و برتر کے لئے مریں.
قربانی کا ثبوت قرآن ، حديث اور اجماع میں موجود ہے: اللہ تعالی فرماتا ہے:''فصل لربک وانحر''( پس آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے) [ سورہ کوثر: ٢]،اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے: عید کی نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے: یعنی اونٹ،گائے وغیرہ کی قربانی کیجئے، اور اس بارے میں قولی اور فعلی دونوں سنتیں وارد ہیں: چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'' جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود بھی قربانی نہ کرے وہ ہمارے عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے''.اس حدیث کی ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کی ہے اور حاکم نے صحیح کہا،اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ نے دو سرخی مائل سفید رنگ کے اور سینگ دار بکروں کی قربانی کی، دونوں کو اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا، اللہ تعالیٰ کا نام پاک لیا اور تکبیر کہی، اور اپنے پاؤں مبارک ان بھیڑوں کی گردنوں کے سرے پر رکھا. اس کی روایت امام مسلم نے کی . چنانچہ مسلمانوں کا اس کی مشروعیت پر اجماع ہے.
اور جہاں تک اس کے حکم کا تعلق ہے تو جمہور کی رائے میں یہ عمل سنت مؤکدہ ہے( یعنی اس کے چھوڑنے پر گناہ نہیں ہے) لیکن اس کے ترک کرنے سے مسلمان بڑي بهلائی سے محروم رہ جاتا ہے، اگر قربانی کرنے کی استطاعت ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'' اللہ تعالی کو قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل اتنا پسند نہیں ہے جتنا خون بہانے کا عمل پسند ہے ، بے شک وہ قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گی . اور خون قبل اس کے کہ زمین پر گرے اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتا ہے، اس لئے قربانی خوشی دلی سے کیا کرو''.اس حدیث کی ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کی ہے اور ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے اور حاکم نے بھی اس کی روایت کی اور صحیح کہا. اور بعض اہل علم اس عمل کو واجب سمجھتے ہیں، انہیں میں امام ابو حنیفہ بھی شامل ہیں اور امام مالک کا بھی ایک قول ایسا ہے. لیکن جن حضرات نے اس عمل کو سنت قرار دیاہے ان میں سے بعض نے اسے سنت عین کہا ہے جو صرف ایک شخص کے کرنے سے باقی لوگوں كي طرف ادا نهيں ہوگی ، اور بعض نے یہ کہا کہ یہ عمل تنہا شخص کے حق میں سنت عین ہے لیکن عیال دار شخص کے حق میں سنت کفایہ ہے۔ یہی رائے شافعی اور حنبلی حضرات کی ہے، اور اسی رائے کے ہم بھی قائل ہیں۔ لہذا ایک شخص اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری قربانی کرسکتا ہے چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا : ہم لوگوں کا حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا لیکن اس کے بعد لوگوں میں دیکھا دیکھی کا جذبہ عام ہوا اور قربانی بڑائی کے اظہار کا سامان بن گیا. اس روایت کو امام مالک نے ذکر کیا ہے اور امام نووی نے مجموع میں اسے صحیح کہا ہے. اور اہل خانہ میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے نان و نفقہ کا آدمی ذمہ دار ہوتا ہے. اور اس عمل کے سنت کفایہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے کردینے سے باقی افراد خانہ سے اس کا مطالبہ ساقط ہو جائے گا، مگراس کے ثواب میں وہ تمام افراد شریک نہیں ہونگے لیکن اگر قربانی کرنے والے نے ثواب میں ان کی شرکت کی نیت کی ہو تو وہ سب ثواب میں بھی شریک ہونگے.
(٢)قربانی کے جانور کی شرطیں دو قسم کی ہیں، ایک تو عام شرطیں جو اُس میں اور اُس کے علاوہ دوسرے ذبح کے جانوروں میں مشترک رہتی ہیں، اور دوسری وہ شرطیں جوصرف قربانی کے جانور کے ساتھ خاص ہیں، عام شرطیں یہ ہیں:
1. جانورکا ذبح کے وقت زندہ ہونا.
2. ذبح کے ذریعے جانور کی روح کا نکلنا ، اور اگر ذبح کے ساتھ موت کا کوئی اور دوسرا سبب بھی اکٹھا ہو جائے تو حرمت کو حلت پر ترجیح حاصل ہوگی اوروہ جانورمردارٹھہرے گا نہ کہ مذبوح.
3. جانورکا حرام شکاروں میں سے نہ ہونا ،کیونکہ اگر حرام شکارکو ذبح بھی کیا جائے تب بھی وہ مرُدار ہی سمجھاجائے گا ، چاہے ذبح کرنے والا حالت احرام میں ہو یا غیرحالت احرام میں ہو.
اور ذبح کرنے والے میں بھی کچھ شرطیں ہیں اور وہ یہ ہیں :
1. عاقل ہونا.
2. مسلمان یا اہل کتاب ہونا.
3. غیر حالت احرام میں ہونا اگر غیر حرم کے شکارکو ذبح کررہاہو
4. غیر اللہ کا نام لیکر ذبح نہ کرنا.
اور ذبح کرنے کے آلے کی شرطیں یہ ہیں کہ دھاردار کاٹنے والا ہوخواہ دھات کا ہو یاغیر دھات کا ، چنانچہ حضرت رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:'' جس کا خون بہا دیا جائے اور اللہ کا نام لے لیا جائے تو اس کو کھاؤ، لیکن جب دانت اور ناخن کے ذریعہ نہ ہو'' اس حدیث کو شیخین(بخاری اور مسلم) نے روایت کیا.اور ذبح کے مستحبات تو بہت ہیں جن میں سے اکثر حضرت شداد بن اوس کی مرفوع حدیث سے ماخوذ ہیں :'' بے شک اللہ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو، اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، اور تم میں سے ہر شخص کوضرور اپنی چھری کے دھارکو تیز کرلےنا چاہئے اور اپنے ذبیحہ کو آسانی پہونچاناچاہئے''. اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا.
اور ذبح کے مستحبات میں سے چند یہ ہیں :
1. تیز آلہ سے ہونا.
2. ذبح کو طول نہ دینا.
3. ذبح کرنے والے اورجانور دونوں کا قبلہ رخ ہونا، کیونکہ قبلہ اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے مرغوب سمت ہے، اور ظاہر ہے کہ ذ بح کرتے وقت ذبح کرنے والے کا رخ کسی نہ کسی طرف ہوگا ہی،تو بہتر یہ ہے کہ قبلہ کی طرف ہو کیونکہ یہ سب سمتوں سے بہتر سمت ہے، اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ ایسے ذبیحوں کے کھانے کو مکروہ جانتے تھے جو قبلہ سے ہٹ کر کسی اور سمت ذبح کئے جاتے تھے.
4. اور ذبح کرنے سے پہلے چھری کو تیز کرنا،لیکن جانورکو دکھائے بغیرچنانچہ امام حاکم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: کہ ایک شخص نے ایک بکری کو ذبح کرنے کے لئے لٹا لیا اور اس کے سامنے ہی چھری تیز کر نے لگا ، تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا:'' کیا کئی بار مارنا چاہتا ہے؟ لٹانے سے پہلے کیوں چھری تیز نہیں کرلی''.
5. جانور کو آہستہ سے بائیں پہلو پر لِٹانا، حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جانور کو اس کے بائیں پہلو پر لٹایاجائے کیونکہ اس میں ذبح کرنے والے کے لیے زیادہ آسانی ہے کیونکہ اس صورت میں دائیں ہاتھ میں چھری لے سکے گا اور بائیں ہاتھ سے جانور کا سر پکڑے گا'' . ۔( اوراس علت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر ذبح کرنے والا بائیں ہاتھ سے کام کرنے کا عادی ہو تو اس کے برعکس بائیں پہلو پہ لٹانا مستحب ہوگا، باقی اللہ تعالی بہتر جانتا ہے). اور یہ حکم اُن جانوروںکے بارے میں ہے جنہیں لٹانے کی ضرورت پڑتی ہے، بر خلاف اونٹ کے کیونکہ انہیں کھڑے کھڑے ہی ذبح کیا جاتاہے۔ جیسا کہ نیچے آرہاہےـ۔.
6. جانور کو ذبح کرنے کے مقام کو نرمی سے ہانک کر لانا.
7. جانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی دینا.
8. غیر ضروری اتناگہرا نہ کاٹنا کہ ذبح مغز یا گودا تک پہونچ جائے، اور نہ اتنا کاٹنا کہ سردھڑ سے جُدا ہوجائے، اور اسی طرح ذبح کرتے ہی ٹھنڈ اہونے سے پہلے سر اتار نے سے پرہیز کرنا،،کیونکہ اس میں بلا فائدہ ضرورت سے زیادہ تکلیف رسانی ہے.
رہا اونٹ تو اسے ذبح کرنے کے طریقے کا نام نحر ہے یعنی گردن کے نیچے دھار دار چیز سے مار کر ذبح کرنا، اور بعض فقہا نے زرافہ ،ہاتھی اور اس کے علاوہ جس جس جانور کی گردن اُونچی ہوتی ہے اسی حکم میں شامل کیاہے. اور نحر کا مطلب یہ ہے کہ ذبح کے آلے کو لبۃ یعنی اس کے گردن کے گوشت میں مارے اس طور پر کہ گردن کی رگیں کٹ جائیں،اوربعض فقہا کے نزدیک اگر نہ کٹیں تو بھی کوئی حرج نہیں ان کے کٹنے اور نہ کٹنے کی صورت میں اس کے احکام کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، اور اللبۃ: گردن کے نیچے کی دونوں ہنسلیوں کے درمیان کے شگاف کو کہتے ہيں، اور اونٹ کو ذبح کرنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ اونٹ تین ٹانگوں پر کھڑا رہے اور اس کا سامنے کا بایاں پیر بندھا ہو، اور مالکی مذہب کے فقہا نے نحر یعنی اونٹ کو ذبح کرنے کی کیفیت یہ بیان کی کہ جانورکو قبلہ رخ کردیا جائے اور ذبح کرنے والا جانور کے کھلے دائیں پیرکے پاس کھڑا ہو جائے اور اونٹ کے نچلے ہونٹ کو اپنے بائیں ہاتھ سے اوپر کی طرف کئے ہوے تھامے اور اللہ کا نام لیتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ سے اس کی گردن کے نچلے حصے میں مارے ، اس پر اللہ تعالی کا یہ فرمان دلیل ہے"وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ" ( اور قربانی کے بڑے جانوروں کو ہم نے تمہارے واسطے اللہ کی نشانیوں میں سے کردیا ہے ، تمہارے لیے اُن میں بھلائی ہے ، پس تم قطار میں کھڑا کر کے اُن پر اللہ کا نام لو)[سورہ حج ٣٦]،ابن عباس نے(صواف کے لفظ کے بارے میں) فرمایا:'' باندھے ہوئے، تین پر''. اور اسی طرح اور دیگر حدیثیں جن میں سے زیاد بن جبیر کی حدیث ہے کہ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ ایک شخص کے پاس آئے اور وہ قربانی کے اونٹ کو بیٹھا کر ذبح کر رہا تھا، تو انہوں نے فرمایا:'' اسے بندھا رہنے دو اور کھڑا کرکے ذبح کرو ، تمہارے نبی کی سنت ہے''. اس حدیث کو شیخين نے روایت کی.

جہاں تک قربانی کے شرائط کی بات ہے توان میں کچھ شرطیں جانور سے متعلق ہیں جن میں سے چند یہ ہیں.

1)جانور کا چوپایوں میں سے ہونا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے"وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ":(اور ہم نے ہر اُمت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پرجو اُس نے انہیں عنایت فرمائے ہیں اللہ کا نام لیں)[سورہ حج ٣٤]. اورحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی اور فعلی دونوں قسم کی دلیلیں موجود ہیں: چاہے یہ چوپائے عربی ہوں یا غیر عربی، ان میں بھیڑ ،بکری، اونٹ اور گائے آتے ہیں اور گائے ہی کے حکم میں بھینس بھی شامل ہے، اور ان میں سے ہرایک میں نر اور مادہ کوئی بھی جائز ہے. اور جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بکری ایک کی طرف سے کافی ہوگی، اور بدنۃیعنی اونٹ یا اونٹنی اور گائے یا بھینس ان میں سے ہر ایک سات شخص کی طرف سے کافی ہوتا ہے، چنانچہ حضرت جابررضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے : صلح حدیبیۃ کے سال حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے قربانی کی، بدنۃ یعنی اونٹ سات شخص کی طرف سے اور گائے سات شخص کی طرف سے. امام مسلم نے اس کی روایت کی ہے.

2) چوپائے کا قربانی کی عمر کو پہونچنا: اس کی تفصیل یہ ہے کہ اونٹ، گائے ،بکری اور بھیڑ میں سے ہرایک دانت پورے ہونے کی عمر کو پہونچ جائیں یا اس سے بڑھ کر ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :'' ذبح مت کرو مگر پختہ عمر والے کو اور اگریہ تم پر مشکل ہو جائے تو بھیڑوں میں سے جذع یعنی چھ مہینے سے بڑھکر عمر والے کو ذبح کرو'' امام مسلم نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے اس کی ر وایت کی ، اور ان عمروں کی تشریح میں فقہی مذاہب کے درمیان اختلاف ہے، لیکن ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ بھیڑ میں (جذعہ ) یعنی پختگی کی عمر کا آغاز چھ ماہ سے ہوتا ہے، اور بکری میں( ثنیہ) یعنی پختگی کا آغاز ایک سال سے ہوتاہے، اور گائے میں ( ثنیہ) یعنی پختگی دو سال سے شروع ہوتی ہے، اور اونٹ میں سے پانچ سال سے .

3)عیب دار نہ ہو اورغیر معمولی عیب سے محفوظ ہو( اور غیر معمولی عیب میں وہ مرض بھی شامل ہے جس سے چربی اور گوشت کم ہوجائے ) اس پرحضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث دلیل ہے انہوں نے بیان کیا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :''قربانی کے جانوروں میں سے چارایسے ہوتے ہیں جس سے قربانی ادا نہیں ہوتی : کاناجانور جس کا کانا پن واضح ہو، وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو، وہ بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر ہو، اورایسا لاغر جو فربہ نہ ہو سکے'' اس حدیث کو پانچوں ائمہء حدیث نے نقل کیا ہے. اوراس وجہ سے بھی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کان کٹے کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ اسے احمد اور ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا اور ترمذی نے اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے صحیح قراردیا. اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :'' آنکھ اور کان کو جھانک کر دیکھ لو'' اس حدیث کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے امام احمد، ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا اور ترمذی نے : حسن صحیح کہاہے. اس بنا پر مندرجہ ذیل جانوروں کی قربانی نہیں ہوسکتی : اندھا، کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، پورے طور پر زبان کٹا جانور، ناک کٹا، دو نوں کان کٹا ہوا یا ایک کان کٹا ، یا جس کے ایک کان کا بڑا حصہ کٹ گیا ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو، پاؤں کٹا جانور، یا پیدائشی طور پر پیر سے محروم، یاجس کے تھن کے سرے کٹے ہوں یا تھن مردہ ہوکر بے کار ہوچکے ہوں ،اوروہ جانور جس کاپچھلا حصہ کٹا ہولیکن شافعیوں نے ایسے جانور کی قربانی کوجائز قرار دیا ہے جس کا پیدائشی طور پر پچھلا حصہ نہ ہو، یا جس کے پچھلے حصے کا بڑا جزچلا گیا ہو، ایسا بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر ہو، وہ عجفاء یعنی لاغر جو تندرست نہ ہو سکے اور عجفاء ایسے دُبلے جانور کو کہتے ہیں جس کی ہڈیوں سے مغز ختم ہو گیا ہو، اور وہ جانورجس کا علاج کرنے کی وجہ سے دودھ ختم ہوگیاہو،اور گندگی کھانے والا جانور،الا یہ کہ پاک ہونے کے لیے اسے بند رکھاجائے اور پاک چیزیں کھلا کر اس کے گوشت کو پاک کرلیا جائے، اور بے آواز جانور، اور منہ کا بد بُو والا جانور، اور بہراجانور، اور ایسا جانور جو شدت پیاس کی بیماری میں مبتلا، اوروہ جانور جس کے خصیے اور ذکر کٹ گئے ہوں لیکن اس حکم میں وہ جانور شامل نہیں ہے جس کا دونوں میں سے صرف ایک کٹاہو ،چنانچہ ثابت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو فربہ ، کوٹے ہوئے خصیے والے مینڈھوں کی قربانی کی'' اس حدیث کی امام احمد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی،لیکن بے سینگ جانور جس کے پیدائشی طور پر سینگ نہ ہو اس کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ، اور اگر سینگ ٹوٹ گئے ہوں تو اس میں تفصیل ہے ، اور بھینگی آنکھ والے جانور کی بھی قربانی ہوسکتی ہے بشرطیکہ روشنی باقی ہو ، اور اس جانور کی بھی قربانی نہیں ہو سکتی جس کا ایک کان یا دونوں کان چھوٹے ہوں اور نہ جس کے کان پھٹے ہوں اور نہ جس کے کان چھدے ہوئے ہوں، لیکن اگر چھیدنے سے کا ن کا صرف کچھ حصہ متاثر ہوا اکثر حصہ صحیح وسالم ہو تو حرج نہیں، اور نہ جس کے کان کے پچھلے حصے کو کاٹ دیاگیا ہو اور وہ مکمل جدا ہوچکا ہو، اور نہ ایسا جانورجو بے دانت ہو،بشرطیکہ کہ یہ اس کو چرنے اور چارہ کھانے میں مانع ہوتا ہو،اور نہ پاگل جانوراگر پاگل پن چارہ کھانے سے روکتا ہو، اور نہ جس کو داغ دیا گیا ہو،اور نہ جو بڑی عمر کی وجہ سے بچہ دینے سے عاجز ہو، اور نہ جس کے کان میں زینت کی خاطر کوئی داغ دیا گیا ہو اور اس کا دھبہ ہو، اور نہ جس کی اُون کاٹ لی گئی ہو، نہ وہ جو کثرت چربی کی وجہ سے اٹھنے سے قاصر ہو، اور نہ وہ جانورجسے رات میں دکھائی نہ دے، اور نہ وہ جس کی آنکھیں چندھیاتی ہوں، اور نہ کمزوربینائی والاجانور، اور نہ کوئی ایسا جانور جس کے بڑے عضو سے چھوٹا ٹکڑا کٹ گیا ہو، جیسے کہ ران کا کچھ گوشت.

4)ذبح کرنے والے کی ملکیت میں ہو نا یاصاحب ملکیت کی اجازت ہونا،لہذا اگر کسی شخص نے زبردستی ایک شخص کی بکری لیکر مالک کی طرف سے بغیر اجازت کے قربانی کردی تو مالک کی طرف سے قربانی نہیں ہوئی کیونکہ اجازت نہیں پائی گئی، اور ذبح کرنے والے کی طرف سے بھی قربانی نہیں ہوئی کیونکہ ملکیت نہیں تھی.

اور قربانی کرنے والے کی شرطیں یہ ہيں:

1)قربانی کی نیت کرنا، کیونکہ حدیث شریف میں ہے ' ' انما الاَعمال بالنیات'' ، یعنی کاموں کا دارومدار نیتوں پرہے تاکہ یہ عبادت دیگرعبادتوں سے ممتاز ہوجائے، اوریہ ذبح صرف گوشت کے لیے ذبح سے جدا ہوجائے.

2) ذبح کا وقت: اور رہی بات اس کے ذبح کے وقت کی ، تو ان شہروں میں جہاں عید کی نماز جائز ہے تو وہاں قربان گاہ کے علاقے میں نماز ختم ہوتے ہی قربانی کا وقت شروع ہوجاتا ہے، اگر چہ خطبہ سے پہلے ہی کیوں نہ ہو، اگر چہ دوسرے علاقوں میں ابھی نماز نہ ہوئی ہو، لیکن دونوں خطبوں کے اختتام تک تاخیر کرنا بہتر ہے، اور اگر شہر نہ ہو اور جہاں نماز عید جائز نہیں ہے تو قربانی کے دن وقت فجر سے ہی قربانی جائز ہے، اور یہ رائے حنفیوں کی ہے،لیکن اتنی دیر جتنی دیر میں نماز ختم کی
جائے انتظار کرنا بہتر ہے،کیونکہ بعض فقہاء نے اس کی شرط لگائی ہے، یاد رہناچاہئے کہ ذبح کرنے کی جگہ کا اعتبار ہوگا نہ کہ موکل کے جگہ کی .

تقسیم کرنے اور بانٹنے کی کیفیت :جہاں تک تقسیم کرنے اور بانٹنے کی کیفیت کی بات ہے، تو مستحب طریقہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اس میں سے کھائے اور دوسروں کوبھی کھلائے اور بچاکر بھی ر کھ سکتاہے، مولیٰ تعالی نے ارشادفرمایا:" وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ "(اورمقررہ دنوں کے اندر جواُس نے مویشی چوپائے میں سے اُن کو عنایت کیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں سو تم اس میں سے کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو کھلاؤ)[سورہ حج ٢٨]، اوراللہ عز و جل ارشاد فرماتاہے:" وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ "( اور قربانی کے بڑے جانوروں کو ہم نے تمہارے واسطے اللہ کی نشانیوں میں سے کردیا ہے ، تمہارے لیے اُن میں بھلائی ہے ، پس تم قطار میں کھڑا کر کے اُن پر اللہ کا نام لو پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم اس میں سے کھاؤ اور صبر سے بیٹھے رہنے والے اور سوال کرنے والے کو کھلاؤ، اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔)[سورہ حج ٣٦]، اور آپ نے ارشاد فرمایا ـ''کھاؤاور توشہ بناؤ اور جمع کرکے رکھو''. مسلم اور نسائی نے اس حدیث کو حضرت جابررضی اللہ عنہ سے کیا. لیکن بہتر یہ کہ تین حصوں میں تقسیم کیاجائے . اس کا گوشت امیر وغریب دونوں کو دیاجاسکتاہے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے بارے میں بیان فرمایا: ایک تہائی اپنے گھروالوں کو کھلاتے تھے اورایک تہائی پڑوسی محتاجوں کو کھلاتے تھے ، اورایک تہائی مانگنے والوں کو دیتے تھے. المغنی میں لکھا ہے: اس کی ابو موسی اصفہانی نے ''الوظائف'' میں روایت کی ہے اوراس کی سند کو حسن کہا. لیکن اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ سارا خیرات کردے یا سارا اپنے لئے بچاکے رکھ لے،لیکن خیرات کردینا ذخیرہ کرنے سے بہتر ہے ، ہاں اگر قربانی کرنے والا عیال دار ہو اور دولتمند اور فراخ دست نہ ہو،تو اس جیسے لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے عیال پر کشادہ گی کرے،کیونکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: '' خود اپنے آپ سے شروع کرو اور پہلے اپنے آپ کو صدقہ دو،اور اگر کچھ باقی رہ جائے تو اپنے اہل و عیال کو دو،اور اگر تمہارے اہل وعیال سے بھی بچ جائے تو اپنے رشتہ دوروں کو دو،اور اگر تمہارے رشتہ داروں سے بھی کچھ بچ رہے تو اسی طرح اسی طرح دیتے جاؤ''. ا امام مسلم نے اس کی روایت کی. اور قربانی کرنے والے کے لیے مستحب یہ ہے کہ خود ذبح کرے اگرکرسکتاہو،کیونکہ قربانی کرنا عبادت ہے، اورعبادت خود سے انجام دینا کسی دوسرے سے کرانے یا وکیل بنانے سے بہتر ہے،لیکن شافعیوں نے اس بات کی استثنا کی ہے کہ اگر عورت قربانی کررہی ہو یا قربانی کرنے والانابینا ہو تو ان کے حق میں وکیل بنانا ہی بہتر ہے، اور ذبح کرتے وقت قربانی دینے والے کو بسم اللہ و اللہ اکبر( یعنی اللہ کے نام سے شروع اور اللہ بہت بڑا ہے) پڑھنا مستحب ہے تاکہ اختلاف فقہا سے بچ جائے کیونکہ بعض نے اسے واجب قرار دیا ہے ، اور کیا ہی اچھا ہے اگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھی پڑھ لی جائے،اور قربانی کرنے والے کے لئے یہ دعا پڑھنا مستحب ہے: اللھم منک و لک، ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ ، و بذلک اُمرت ، و انا من المسلمین،( اے میرے اللہ تمہارے طرف سے ہی ہے اور تمہارے لیے ہے، بے شک میری نماز اور قربانی اور زندگی اور موت اللہ سارے جہانوں کے پروردگار کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم ملا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں) جیسا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آنے والی حدیث میں ہے اور دیگر احادیث میں بھی ہے ، اور قربانی کرنے والے کے لیے بھی مستحب ہے کہ عید اور ایام تشریق کے دوسرے معمولات پیچھے چھوڑکر سب سے پہلے قربانی کرلے، اور اس کار خیر میں بالکل تاخیرنہ کرے ، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:" وَسَارِعُواْ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ"( اور اپنے پروردگار کی بخشش اوراس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں جو تیار کی گئی ہے پرہیزگاروں کے لیے)[سورہ آل عمران ١٣٣]، اور اس کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ قربانی کے جانور کو قربانی سے پہلے ہی سے باندھ رکھے بلکہ کئی دن پہلے سے لا کر باندھ لے ،کیونکہ اس سے جذبہء عبادت کا ظہور ہوتاہے، اور اس کے گلے میں قلادہ بھی ڈال رکھے اور قلادہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز اس کے گلے میں ایسی ڈال دے کہ قربانی کی پہچان ہو اور اس کوڈھانپا بھی جاسکتاہے اور ڈھانپنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کوئی کپڑا اڑھادیا جائے یاحفاظت کے لیے جھول پہنا دیا جائے کیونکہ مکہ شریف بھیجی جانے والی هدي کو پہنایاجاتاہے اور اس کواس پر قیاس کیا جاسکتاہے، اورقربانی کرنے والے کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ ذو الحج کی پہلی رات سے بال اورناخن نہ تراشے، کیونکہ اس میں حاجیوں سے مشابہت ہے، اور اس کی اصل حضرت ام سلمۃ کی مرفوع حدیث میں موجود ہے: '' جب عشر ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال اور کھال(ناخن) سے کچھ نہ چھوئے'' امام مسلم نے اس کی روایت کی ہے، اور کچھ لوگوں نے اس کی حکمت یہ بتائی ہے کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو کامل الاعضاء رہنا چاہئے اس امید میں کہ قربانی کی وجہ سے جہنم سے بچایا جائے. اور یہ کام مالکیوں اور شافعیوں کے نزدیک مسنون ہے، حنبلیوں کے نزدیک واجب ہے.
اور قربانی کرنے والے کے لیے یہ بھی مستحب ہے کہ قربانی کے جانور کو فربہ کرے یا فربہ خریدے، کیونکہ یہ عمل اللہ تعالی کی نشانیوں کی تعظیم کرنے میں شامل ہے، اور اگرقربانی کا جانور بکریوں کی قبیل سے ہوتو سفید بکرا بڑے سینگ والا خصی ہوناچاہئے چنانچہ حضرت انس کی حدیث میں ہے: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو فربہ آختہ کیے ہوئے بکروںکی قربانی کی۔جیسا کہ پہلے بیان ہوچکاہے.
اورا س بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے کہ افضل کونسی چیز ہے ؟بھیڑبکری کی قربانی بہتر ہے یا اونٹ یا گائے میں شرکت کرنا بہتر ہے؟ لیکن اس اختلاف کا محور و مرکزیہ ہے کہ غریب کا فائدہ کس میں ہے، اور جس میں قربانی کے جانور کا گوشت وپوست بڑھ کر حاصل ہوسکے ، اور شاید ملکوں کے عرف کا بھی اس حکم میں عمل دخل ہے کیونکہ لوگوں کے ذوق الگ الگ ہیں، اور لوگوں کو کن اقسام اور کس مقدار کے جانوروں کی ضرورت ہے یہ بھی مختلف ہوتے ہيں،بہرحال اس معاملے کا دار ومدار پرہیزگاری پر ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:" لِمَنِ اتَّقَى "(یہ اس کے لیے ہے جو پرہیزگاری اختیار کرے)[سورہ بقرہ ٢٠٣] .
اور بلا ضرورت رات کے وقت قربانی دینا مکروہ ہے، اسی طرح قربانی کے جانور میں کوئی ایسا تصرف کرنا جس سے اسکے گوشت یا جسم کو نقصان پہونچے بھی مکروہ ہے، خصوصا جب جانور پہلے سے ہی متعین ہو یا منت کا ہو، جیسے سواری کا کام لینا ، یا اس کادودھ پینا اگر یہ اس کی صحت پرانداز ہو، یا اس کااُون کترنا اگر اس عمل سے اسے نقصان پہونچے، یا روح نکلنے سے پہلے چمڑا اُتارنا. اسی طرح قصاب وغیرہ کو قربانی میں سے کوئی حصہ بطور اجرت دینا بھی مکروہ ہے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے انہوں نے بیان کیا :'' حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تھاکہ میں اُن کی قربانیوں کا کام انجام دوں اور ان کی کھالیں اور جھول تقسیم کردوں، لیکن تاکیدفرمائی کہ قصاب کو اس میں سے کچھ نہ دینا:''ہم خود اپنی طرف سے اسے کچھ دے دیں گے''۔ بخاری نے اس کی روایت کی ہے .

(٣) قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لئے کسی غیر کو مامور کرنا جائز ہے: خواہ یہ نائب قصاب ہو یا کوئی اور چنانچہ اس بارے میں مرفوع حدیث شریف موجود ہے جس میں وارد ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :''اے فاطمہ ! اٹھ کر اپنی قربانی کے پاس جاؤ اسے دیکھو'' حاکم نے حضرت ابو سعید خدری سے اس کی روایت کی ہے اس کی سند میں اگرچہ کچھ کمزوری ہے لیکن فقہائے کرام نے اس کے مفہوم پر عمل کی درستگی پر اتفاق کیا ہے اور اگر ذبح کرنے والا نائب اہل کتاب میں سے ہو تو جمہور کے نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے بہرحال افضل تو یہی ہے کہ خود ذبح کرے.

(٤) قربانی کرنے کی آخری تاریخ ایام تشریق کا آخری دن ہے : اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرہویں ذوالحج کا سورج غروب ہونا قربانی کے وقت کا اختتام ہے اور یہی کئی صحابہ کرام اور تابعین کا مذہب ہے اور یہی شافعی حضرات کا بھی مذہب ہے نیز حنبلی حضرات کا بھی ایک قول یہی ہے اور یہی ابن تیمیہ کی ترجیح ہے اس کی دلیل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث شریف ہے جسے ابن حبان نے روایت کی ہے اور جو جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ ''سارے ایام تشریق ذبح کا وقت ہے'' اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :''قربانی کے ایام عید الاضحی اور ان کے بعد کے تین دن ہیں'' .
لیکن افضلیت تو بہرحال اسی میں ہے کہ ذبح میں پہل کی جائے اور ایام تشریق کے دوسرے دن کا سورج غروب ہونے سے پہلے یعنی بارہویں ذوالحج کے اختتام سے قبل ہی قربانی کرلی جائے اور اس پر عمل کرنے سے آدمی اختلاف کی چکر سے بھی نکل جائے گا .

(٥) قربانی کے سنت ہونے کی شرطیں( قائلین سنیت کے مطابق):
1. قربانی کرنے والے کا مسلمان ہونا.
2. مالدار ہونا: واضح رہے کہ احناف کے نزدیک مالداری کا معیار یہ ہے کہ زکاۃ کے نصاب کا مالک ہو اور یہ مال بنیادی ضرورتوں سے فاضل ہو اور مالکی حضرات کے نزدیک اس کا معیار یہ ہے کہ پورے سال بھر میں کبھی بھی اسے اس مال کی ضرورت نہ پڑے اور شافعی حضرات کی رائے میں اس کا معیار یہ ہے کہ اتنی مالیت کا مالک ہو جتنے میں قربانی ہوسکتی ہے اور یہ مال عید کا دن اس کی رات نیز ایام تشریق کے دن ورات کے اخراجات سے زائد ہو .
3. مالکی حضرات نے قربانی کے سنت ہونے کے لئے ایک منفردشرط رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی عازم حج نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک عازم حج شرعا کسی قسم کی قربانی دینے کا مکلف ہی نہیں ہے خواہ منی میں ہو یا غیر منی میں بلکہ حج نہ کرنے والا ہی قربانی کا مکلف ہوتا ہے خواہ عمرہ کرنے والا ہو یا منی میں ہو لہذا عازم حج پر خواہ اس پر ہدی ہو یا نہ ہو مالکی حضرات کی رائے کے مطابق نہ ملک میں اور نہ بیرون ملک میں اس پر کسی طرح کی قربانی واجب ہے، لیکن دیگر حضرات کی رائے کے مطابق عازم حج مناسک کے ساتھ حج کے دوران قربانی کرسکتا ہے اور ایام قربانی کی مدت میں قربانی کرنے کے لئے کسی کو نائب بھی بنا سکتا ہے واپسی کے انتظار کی ضرورت نہیں کیونکہ قربانی کا ایک معین وقت ہے اس کے گزرتے ہی موقع ہاتھ سے چلاجائے گا لیکن اگر ایسی کوئی صورت ہو کہ حج کرکے قربانی کی مدت کے دوران ہی جلدی سے عازم حج واپس ہوجائے گا توانتظار بھی ہوسکتا ہے یعنی ایام تشریق کے آخری دن کے گزرنے سے پہلے تک جیساکہ سابقہ سوال کے جواب سے واضح ہوگیا.
(٦)اگر گھر کا کاروبارچلانے والا شخص باہر ہو: اگر گھر کا کاروبارچلانے والا شخص کسی دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہو اور باہر ہو تو اسے یہ بھی اختیار ہے کہ اپنی نوکری کے ملک میں قربانی کرے یا اپنے خاندان کی رہائش کے ملک میں کسی کو قربانی کرنے لئے مامور کردے، نوکری کے ملک میں قربانی میں یہ بات پیش نظر ہے کہ قربانی دینے والا وہی ہے اور وہی اس میں سے کچھ صدقہ نکالے گا لیکن آبائی وطن یا خاندان کی رہائش کے ملک میں قربانی کرنے میں یہ بات پیش نظر ہے کہ یہ قربانی اس کی اور اس کے اہل خانہ اور ان کی کفالت کے تمام افراد کی طرف سے ہے.

(٧)حج کے دوران ہدی کے جانور کو قربانی اور ہدی دونوں کی نیت سے ذبح کرنا :حج کے دوران ہدی کے جانور کو قربانی اور ہدی دونوں کی نیت سے ذبح کرنا درست نہیں ہے کیونکہ دونوں کے مقرر ہونے کے اسباب الگ الگ ہیں دونوں کو ایک دوسرے میں ضم نہیں کیا جاسکتا ہے ، چنانچہ قربانی تو اس لئے مقرر ہوئی کہ اس کے ذریعے اللہ تبارک وتعالی کا شکر ادا کیا جائے کہ ان بابرکت دنوں تک زندگی ملی ہے اور یہ حکم استحبابی طور پر ہے لیکن حج میں جو ھدی ذبح کی جاتی ہے وہ یاتو اس طور پر ہوتی ہے کہ حج تمتع کی ہدی ہے اور یہ واجب ہے اور اس کے ذریعے اللہ تبارک وتعالی کا شکر ادا کیا جاتا ہے کہ اس نے حج وعمرہ دونوں کو ایک ساتھ جمع کرنے اور ان دونوں کے درمیان احرام کھولنے کی اجازت مرحمت فرمائی یا پھر حج قران کی ہدی ہو اور یہ بھی واجب ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ حج وعمرہ کو ایک ہی سفر میں جمع کرنے کی توفیق دی ، اور جو حج کے کسی واجبات کے ترک کرنے کی تلافی کے لئے یا حج کے محرمات میں کسی ممنوع امر کے کرلینے کے کفارے کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے تو وہ دونوں واجب ہیں اور حرم شریف کے غریبوں کے لئے جو صدقہ کئے جاتے ہیں وہ قربانی سے الگ ہیں کیونکہ ان سب کے اغراض ومقاصد قربانی کے اغراض ومقاصد سے ہٹ کر ہیں.

اور اللہ سبحانہ وتعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے
 

Share this:

Related Fatwas