کیا تجارت کی مندی کی وجہ سے قرض لینے والا مستحق ِزکوۃ ہے
Question
ایک تجارت پیشہ آدمی نے تجارت کی غرض سے کچھ لوگوں سے پیسے لیے مگر اس کی تجارت کساد بازاری کا شکار ہوگئی ۔ وہ شخص بڑی بھاری رقم کے قرض میں گھر گیا اور ادا کرنے کے قابل نہ رہا ، بہرحال ایک خیراتی سوسائیٹی نے اس کو ''الغارم'' یعنی قرضدار اعتبار کرتے ہوئے اس کی جانب سے قرضہ ادا کرنے اور اسے زکوۃ کا مال دینے کا قصد کیا ، تو کیا یہ عمل درست ہے؟. کیا اس شخص پر'' غارم ''کا مفہوم صادق آتا ہے اور کیا وہ زکوۃ کا مستحق ہے؟.
Answer
اللہ تعالی نے زکوۃ کے مصارف کے بیان میں ارشاد فرمایا ہے:'(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ) - زکوۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو- [سورہ توبہ :٦٠]، یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ قرضدار کے لئے زکوۃ میں حصہ ہے، شافعی المذہب امام باجوری اپنے حاشیہ میں لکھتے ہیں: ''الغارم " عربی زبان میں " الغُرم " سے لیا گیا ہے- جس کا معنیٰ چمٹنا ہے- کیونکہ قرضہ دینے والا اس وقت تک قرضدار کا دامنگیر رہتا ہے جب تک وہ اپنا قرضہ حاصل نہ کر لے، واضح رہے کہ قرضداروں کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، کچھ قرضدار ایسے ہوتے ہیں جو مباح کام کے لئے قرض لیتے ہیں۔ (پھر معصیت میں صرف کرتے ہیں)، اور کچھ قرضدار معصیت کے لئے قرض لیتے ہیں لیکن مباح میں صرف کرتے ہیں ، اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ نیت کے مطابق معصیت ہی ميں خرچ بھی کریں ، لیکن توبہ کر لے اور اس کے توبہ کے بارے میں سچائی کا گمان راجح ہو( اگر چہ ابھی توبہ کی ہو)، تو ایسے شخص کو ضرورت کے مطابق زکاۃ میں سے دیا جائیگا تاکہ وہ اپنا قرضہ اتار سکے جس کے ادا کرنے سے وہ قاصر رہ گیا تھا ، بر خلاف اس کے کہ اگر معصیت کے لئے قرض لیا ہو اور اسی میں صرف کیا اور توبہ بھی نہ کی ہو، اگر ضرورت نہ ہو تو اسے زکوۃ نہیں دی جائیگی''. .
لہذا سوال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذکورہ بالا خیراتی سوسائیٹی اس شخص کو زکوۃ کا مال دے سکتی ہے اگر واقعتا اس کا قرض ادا نہ ہو سکا ہو اور قرض دینے والے نے اسے معاف اور بری بھی نہ کیا ہو.
و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.