دفن کے بعد قبر پر بلند آواز سے دعاء...

Egypt's Dar Al-Ifta

دفن کے بعد قبر پر بلند آواز سے دعاء کرنا

Question

سال٢٠٠٨ ء مندرج استفتاء ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل پر مشتمل ہے :

میت کو دفنانے کے بعد قبر پر لوگوں کا اس کے لئے بلند آواز سے دعاء کرنے کا کیا حکم ہے ؟. واضح رہے کہ ہمارے یہاں یہ مسئلہ لڑائی جھگڑے کا باعث بن گیا ہے

Answer

میت کو دفن کرنے کے بعد جنازہ کے ساتھ چلنے والے لوگوں کا قبر کے پاس کچھ دیر ٹھہرنا اور اُس کے لئے دعاء کرنا مسنون ہے، چنانچہ ابو داود اور حاکم نے روایت کی ہے اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاِسناد کہا ، روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفنا کر فارغ ہوتے تو اُسکے پاس ٹھہرتے اور فرماتے: ''اپنے بھائی کے لئے مغفرت کی دعاء کرو اور اُسکے لئے ثابت قدم رہنے کی دعاء مانگو کیونکہ اس وقت اس سے سوال ہو رہا ہے''. اور امام مسلم نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''جب تم مجھے دفن کرو گے تو تھوڑی تھوڑی کر کے مٹی ڈالنا اس کے بعد میری قبر کے اِرد گرِد اتنی دیر ٹھہرے رہنا جتنی مدت میں اونٹ ذبح کیا جاتا ہے اور اُسکا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ میں تم سے مانوس رہوں اور دیکھوں کہ اپنے پروردگار کے فرستادہ فرشتوں کے ساتھ کیا سوال و جواب ہوتا ہے''. ظاہر ہے کہ یہ سارے امور دفن کے بعد ہی ہوتے ہیں.

اس دعاء سے پہلے مختصر وعظ و نصیحت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، تاکہ موت و آخرت یاد آئے، کیونکہ اس سے دل نرم ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں گریہ وزاری کا جذبہ دل میں بیدار ہوتا ہے اور دعاء کرنے میں دل کو یکسوئی نصیب ہوتی ہے. چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع کے مزارات میں موجود تھے ، اسی اثنا میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے پاس تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے، ہم بھی اُنکے ارد گرد بیٹھ گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چھٹری تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک جھکایا اور اس چھڑی سے زمین کو کریدنے لگے اور ارشاد فرمایا: ''تم میں سے کوئی ایسا نہیں، یعنی کوئی مخلوق ایسی نہیں جس کی جگہ جنت یا جہنم میں نہ لکھ دی گئی ہو اسی طرح اس کا نیک بخت ہونا یا بد بخت ہونا بھی لکھا جا چکا ہے، اس پر ایک شخص نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! تو کیا ہم اپنے لکھے ہی پر اعتماد نہ کر بیٹھیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ''عمل کيا كرو، ہر شخص کے لئے وہی آسان ہے جس کے لئے وہ پیدا ہوا ہے''۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے. اور امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس عنوان پر باب قائم کیا ہے " باب موعظۃِ المحدثِ عند القبر و قعود اصحابہ حولہ " قبر کے پاس واعظ کے وعظ کہنے اور ان کے ارد گرد سننے والوں کے بیٹھنے کے بیان میں ۔ .

امام نووی اپنی کتاب ''الاذکار'' میں رقمطراز ہيں: " دفن سے فراغت کے بعد یہ مستحب ہے کہ اس کے پاس اتنی دیر تک بیٹھا جائے جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جاتا ہے اور اسکا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے، اس دوران بیٹھنے والے تلاوت قرآن کریم کريں اور میت کے لئے دعائے مغفرت كريں ، وعظ و نصیحت ميں مشغول ر ہيں، اسی طرح نیک لوگوں کے تذکرے اور اولیائے کرام کے احوال بیان کرنے میں مشغول رہنا بھی مستحب ہے. امام شافعی كا فرمان ہے: ''اس کے پاس قرآن مجید ميں سے كچھ آيات پڑھنا مستحب ہے ، اور اُنکے متبعین علماء نے کہا ہے: "اور اگر پورا قرآن كريم پڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہے''.

جہاں تک میت کے لیے دعاء کرنے کی کیفیت کا سوال ہے کہ بلند آواز سے کی جائے یا آہستہ سے، تو واضح رہنا چاہئے کہ اس مسئلے میں گنجائش ہے اور اس کی وجہ سے لڑنا جھگڑنا ، اللہ اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے بلکہ اس طرح کی حرکت خود بری بدعتوں میں سے ہے کیونکہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وسعت دیئے گئے ۔ معاملات کو تنگی کی طرف لے جانا بدعت ہے، اگر اللہ تعالی نے کسی چیز کا حکم مطلق طریقے پر دیا ہے اور اس فعل کی ادائیگی یا اس حکم کی تطبیق کی کئی صورتیں ہو سکتی ہوں تو وہ حکم اپنے اطلاق اور وسعت پر ہی رکھا جائیگا اور اس کو بغیر دلیل کے دوسری تمام صورتوں کو نظر انداز کر کے کسی ایک صورت کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں.

جان ليں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبہم مسائل کو کریدنے اور حیل و حجت کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ واضح فرما دیا کہ اللہ تعالی اگر کسی امر سے سکوت اختیار فرماتا ہے تو وہ سکوت امت کیلئے وسعت اور رحمت کا باعث ہوتا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''بے شک اللہ تعالی نے کچھ فرائض مقرر کئے تو انہیں ضائع مت کرو اور کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے تو اُن چیزوں کے مرتكب مت ہو جاؤ اور کچھ حدود مقرر فرما ديے تو اُن سے تجاوز نہ کرو اور تم پر مہربانى کر کے بغير بهولے کئی چیزوں سے خاموش رہا تو اُن چیزوں کى کھوج میں نہ پڑو''۔ اس حدیث کو دار قطنی اور دیگر محدثین نے ابو ثعلبہ خشنی ۔ رضی اللہ عنہ ۔ سے روایت کیا ہے ،اور ابن صلاح نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی نے حسن کہا ہے.

علامہ تفتازانی "الاربعین النوویہ" کی شرح میں - فلا تبحثوا عنھا - کے بیان میں لکھتے ہیں: ''یعنی اُن چیزوں کے احوال کى کرید میں مت پڑو، کیونکہ جس چیز سے اللہ تعالی نے سکوت فرمایا ہے اس کے بارے میں پوچھنا سخت تکالیف میں پڑنے کا باعث بنتا ہے اور ان مسائل میں اصل میں اجازت کا ہی حکم ہوگا ۔ .

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کے جرم کی سنگینی بیان فرمائی جو کثرت سوال اور کھوج کی وجہ سے مسلمانوں پر تنگی کا باعث بنتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''مسلمانوں کے حق ميں وه مسلمان سب سے بڑا مجرم شخص ہے جس نے کسی چیز کے بارے میں پوچھا اور اُسکے بارے میں اتنی چھان بین کی کہ اُسکے سوال کی وجہ سے وہ چیز لوگوں پر حرام کر دی گئی''. امام مسلم نے اس كو عامر بن سعد کے اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روايت كرده احاديث ميں روایت کیا ہے.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بیان کرتے ہيں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا ، اس میں ارشاد فرمایا: ''اے لوگو! بے شک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے تو حج کرو''، اس پر ایک شخص نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا ہر سال فرض ہے ؟، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ اس شخص نے تین بار پوچھا تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر میں ہاں کہہ دیتا تو - ہر سال حج کرنا - فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے''، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس حد تک میں تمہیں حکم دوں مجھے اسی حد پر رہنے دو تم سے پیشتر قوميں کثرت سوال اور اپنے نبیوں کی بات نہ ماننے کی وجہ سے ہلاک ہو گئيں، تو جب میں تمہیں کسی چیز کے کرنے کا حکم دوں تو حسب طاقت اُسے کیا کرو اور جب کسی چیز سے منع کر دوں تو اُسے چھوڑ دو''. یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ .

علامہ مناوی نے'' فیض القدیر شرح جامع صغیر'' میں لکھا ہے'': یعنی مجھ سے سوال کرنا اس وقت تک موقوف رکھو جب تک میں تمہیں وسعت و کشادگی دوں ۔ اس وقت تک تم مجھ سے اس بارے میں زیادہ چھان بین نہ کرو جو تمہارے دین میں تمہارے لئے مفید نہ ہو جب تک میں تمہیں وسعت و کشادگی دیے رکھوں اور کچھ نہ کہوں. ہو سکتا ہے یہ پوچھ گچھ لازمی تمھارے اوپر سختی کا باعث بنے ، میرے حکم کے ظاہر کو لے لو اور اہل کتاب کی طرح ٹوہ میں مت پڑو، اور جو حکم کسی ایک ظاہری معنیٰ میں واضح ہو اس کے بارے میں زیادہ ٹوہ میں نہ پڑو اگر چہ وہ حکم کسی دوسری طرح سے بھی قابل عمل ہو کیونکہ ہو سکتا ہے اس پر مرتب ہونے والے جواب میں کثرت واقع ہو اور بنی اسرائیل کے قصے کے مثل ہو جائے کیونکہ اُنہوں نے خود - بار بار سوال کر کے - سختی کی تو اُن پر سختی كى گئى، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ صلى الله عليه وسلم كى امت میں بھی ویسا نہ ہو جائے'.

جماعت کے ساتھ دعا کرنے میں قبولیت کی امید زیادہ ہوتی ہے اور اس میں دل زیادہ بیدار رہتا ہے اور ارادہ بھی زیادہ پر عزم ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے سامنے عجز و انکساری کا شعور بھی اپنے عروج پر ہوتا ہے خصوصا اگر اس وقت کچھ وعظ و نصیحت بھی شامل ہو جائے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے''۔ امام ترمذی نے اس حدیث کی روایت کی اور حسن کہا اور نسائی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس كى روایت کی ہے.

و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.
 

Share this:

Related Fatwas