عام وکالت نامے کی بنیاد پر شادی کا ...

Egypt's Dar Al-Ifta

عام وکالت نامے کی بنیاد پر شادی کا عقد کرنا

Question

سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

ایک عورت کی منگنی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوئی جو بیرون ملک کا م کرتا ہے، جب اس نے اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہا تو اس نے اس عورت کے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام طلب کیا اور اس کے نام سے سرکاری وکالت نامہ ارسال کر دیا تا کہ وہ اس کی طرف سے اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کا وکیل بنے، بہرحال عقد مکمل ہوا ، عقد نکاح کے لئے عورت کی طرف سے اس کا ماموں وکیل بنا تھا، لیکن جب مسئلہ قاضی کے پاس پہونچا اور رجسٹری کی ضرورت پڑی تو عدالت نے رجسٹری کرنے سے انکار کر دیا، اور یہ عذر پیش کیا کہ یہ عقد عام سرکاری وکالت نامے کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو عقد نکاح کی تکمیل کے لئے نا کافی ہے، اور قاضی نے يہ مشورہ دیا ہے کہ يا تو نکاح کرنے والا خاص شادی کے عقد سے متعلق وکالت نامہ بھیجے یا خود آكر عقد کرے، لیکن اس شخص نے کہا کہ ابھی وقت نہیں ہے لیکن آئندہ خود آکر نکاح کر لے گا بہرحال خاص وکالت نامہ بھیجنے سے انکار کر دیا، اور ہوا یہ کہ جب وہ چھٹیوں میں گھر آیا تو نہ ہی قاضی کے پاس گیا اور نہ خود نکاح کے لئے آگے بڑھا بلکہ اس مسئلے کو ٹالتا رہا، اور شادی کے سازو سامان میں بھی ٹال مٹول سے کام لیا ، بلکہ الٹے اس نے اپنے ازدواجی حقوق کا مطالبہ شروع کیا، اور جب عورت نے بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینے کو کہا تو اس نے اسے جواب دیا کہ وہ اسے لٹکا کر رکھے گا، اسی دوران وہ سفر کر گیا. دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ عورت اس کی بیوی ہے یا سرے سے یہ عقد ہی صحیح نہیں ہے؟ جب کہ اس عورت کے پاس شادی کے کوئی کاغذات نہیں ہیں یا کوئی ایسی دستاویز نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ اس کی بیوی ہے

Answer

یہ عقد نکاح سرے سے باطل ہے اور اس وکالت میں نکاح کی توکیل شامل نہیں ہے، بلکہ اس میں جو وکالت ہے وہ ایک عام نوعیت کی وکالت ہے جو صرف مالی یا اس کے مماثل تصرفات کی حد تک محدود ہے، اور شریعت میں یہ طے شده ہے کہ وکالت کے چار ارکان ہیں: موکل - یعنی وکیل بنانے والا- وکیل، موکل فیہ - یعنی جس چیز سے متعلق وکالت دی جا رہی ہے، اور صیغہء توکیل. شادی کے وکالت نامے میں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ موکل فیہ عقد نکاح ہے، اور شریعت پاک نے شرمگاہوں اور عزت و آبرو کے مسائل میں ایسی احتیاط برتى ہے جو دوسری چیزوں میں نہیں برتى. الغرض یہ عقد صحیح نہیں ہے اور اس پرعقد نکاح کے احکام مرتب نہیں ہونگے، لہذا وہ عورت اس کی بیوی نہیں ہے اور اس کا دعویٰ غلط ہے بلكہ اس کو اس عورت پر کوئی حق نہیں ہے.

باقى اللہ سبحانہ و تعالی زياده بہتر جاننے والا ہے
 

Share this:

Related Fatwas