تبدیل الفلوس

Egypt's Dar Al-Ifta

تبدیل الفلوس

Question

کیا دھاتی کرنسی کو تول کر کاغذی کرنسی میں تبدیل کرانا جائز ہے؟

Answer

 الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی رسول اللہ و آلہ وصحبہ و من والاہ۔۔۔ وبعد:

کچھ لوگ دھاتی کرنسی کو کاغذی کرنسی میں تبدیل کرواتے ہیں اسے عربی میں " فکۃ " یعنی " تبدیل کرنے کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ کام خصوصا تاجر حضرات کرتے ہیں ۔ وہ دھات کو کاغذ کے نوٹوں میں تبدیل کرواتے ہیں۔ یہ باہمی تبادل کبھی وزن کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ وہ اس معدنی کرنسی کا وزن کر کے عام اشیاء کی طرح اسے فروخت کر دیتے ہیں اور اس دھاتی کرنسی کی قیمت مقرر کرتے ہیں مثلا 1کلو اتنے کا ہے جو کہ قیمت میں اس دھات کے مساوی نہیں ہوتی۔

اور کبھی تبادل یوں ہوتا ہے کہ معدنی کرنسی کے مقابلے میں کاغذی کرنسی کی قیمت مقرر کی جاتی ہے اور اکثر اوقات کاغذی نوٹ کی قیمت دھات سے زیادہ ہوتی ہے اور کبھی حالات ایسے ہوتےہیں کہ دھات کی قیمت کاغذ سے زیادہ ہوتی ہے مثلا جب معدنی کرنسی کو اس ٹیلی فون میں استعمال کیا جائے جو صرف معدنی کرنسی سے ہی چلتا ہو۔

یہ سب صورتیں فقہ اسلامی میں " باب الربا " یا " باب الصرف " میں مذکور ہیں کیونکہ ان ابواب میں " مال کے بدلے مال " کے بارے میں کلام ہوتا ہے جس کی مختلف صورتیں ہوتیں ہیں جن میں کچھ جائز ہیں اور ناجائز ہیں۔

اس مسئلہ میں مذکورہ تمام صورتیں جائز ہیں۔

اس پر دلیل یہ ہے سونے اور چاندی میں حرمتِ ربا کی علت یہ ہے یہ غالبا ثمن کی جنس سے ہوتےہیں اور اس علت کو اکثر جوہرِ ثمن سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ علت صرف سونے اور چاندی میں پائی جاتی ہے کسی دوسری چیز کی طرف یہ علت تجاوز نہیں کرتی کیونکہ ان کے علاوہ کسی دوسری میں پائی ہی نہیں جاتی ہے۔ ان میں ربا کی حرمت کسی ایسے معنی کی وجہ سے نہیں ہے جو دوسرے اموال میں بھی پایا جاتا ہو،اسلئے کہ اگر حرمت کسی ایسے معنی کی وجہ سے ہو جو ان دونوں کے علاوہ میں بھی موجود ہو تو ان کے ساتھ دوسرے اموال کا لین دین کرنا جائز نہ ہو، کیونکہ دو چیزوں میں اگر ایک ہی ربا کی علت پائی جا رہی ہو تو انہیں ایک دوسری کے بدلے میں بیچنا جائز نہیں ہوتا۔ جیسے سونا، چاندی، گندم اور جو۔ لیکن جب سونے اور چاندی کو وزنی اور کیلی ( ناپ تول ) اشیاء اور دوسرے اموال کے بدلے میں دینا جائز ہے تو اس سے پتا چلا کہ ان دونوں میں کوئی ایسی علت موجود ہے جو دوسری اشیاء میں موجود نہیں ہے اور وہ علت یہ ہے کہ یہ دونوں ثمن کی جنس سے ہیں اور تحریمِ ربا کی علت کے بیان میں لفظ " غالبا " ذکر کیا ہے تاکہ " فلوس " یعنی ان دونوں کے علاوہ دھاتی سکے جب بطور نقدی رواج پا جائیں تو ان دونوں کے ساتھ حکم میں شامل نہ ہوں کیونکہ اگرچہ چند ممالک میں یہ ثمن کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ غالبا ثمن نہیں ہیں، ہاں سونے چاندی کے برتنوں اور ڈلیوں میں بھی ربا (سود)  جاری ہو گا۔

ہمارے قول کے بارے میں اہل علم کی صراحت موجود ہے۔

شیخ زکریا انصاری لکھتے ہیں سونے چاندی میں ربا حرام ہے اگرچہ وہ زیور، برتن یا ڈلی کی صورت مں ہوں لیکن ان کے علاوہ معدنی سکوں میں ربا حرام نہیں ہو گا اگرچہ وہ رواج بھی پا جائیں۔ کیونکہ ان دونوں میں حرمت علتِ ثمنیت غالب ہونے کی وجہ سے  ہے اوراس علت کو غالبا ثمن کی حقیقت اور اس کے جوہر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ علت سکوں اور دوسری چیزوں میں نہیں پائی جاتی۔([1])

خطیب شربینی فرماتے ہیں: (النقد بالنقد) سے مراد سونا اور چاندی ہیں کرنسی میں ڈھلے ہوں یا نہ ڈھلےہوں ان کا احکام وہی ہیں جو کھانے کے بدلے کھانے کے ہیں۔ اگر انہیں اپنی ہی جنس کے بدلے میں بیچا جائے تو ان میں مماثلت، حلول یعنی عوضین کی موجودگی اور مجلس عقد چھوڑنے اور اختیار سے پہلے باہم قبضہ کرنا شرط ہو گا۔ اور اگر دوسری جنس کے بدلے میں بیچا جائے تو کمی زیادتی جائز ہو گی جیسے جب سونے کو چاندی کے بدلے میں بیچا جائے یا ان میں سابقہ حدیث کی وجہ سے ان میں حلول یعنی دونوں کی موجودگی اور مجلس سے اٹھنے اور اختیار سے پہلے باہم قبضہ کرنا شرط ہو گا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اولی یہ تھا کہ مصنف نقدی کو طعام پر مقدم کرتے تاکہ حدیث مبارکہ کی موافقت ہو جاتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ طعام میں کثرت کلام کی وجہ سے اسے مقدم کیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جس میں کلام کم ہو اسے مقدم کرنا اولی ہے کیونکہ یہی طریقہ مقاصد کے مطابق ہے۔ سونے اور چاندی میں ربا (سود ) کی علت یہ ہے ان میں غالبا ثمنیت کی جنس ہوتی  ہے اوراسے ہی غالبا ثمن کی حقیقت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ علت "سکوں " اور دوسری اشیاء میں نہیں پائی جاتی، نہ کہ اس وجہ سے ربا (سود ) جاری ہوتا ہے کہ ان سے اشیاء قیمتیں لگائی جاتی ہیں جیسا کہ اس کو صاحبِ " تنبیہ " نے بیان کیا ہے کیونکہ برتن، زیور اور ڈلی میں ربا جاری ہوتا ہے حالانکہ ان سے اشیاء کی قیمتیں نہیں لگائی جاتی ہیں غالبا اسکے ساتھ سکوں سے احتراز کیا گیا ہے کہ جب وہ رواج پا جائیں تو بھی ان میں ربا (سود) جاری نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔([2])

امام بہوتی فرماتے ہیں جب عوضین میں سے ایک نقد ہو تو "نساء " (تاخیر ) حرام نہیں ہوتا اور نہ ہی دوسرے عوض ( بدلہ ) کے قبضہ میں تاخیر کی وجہ سے عقد باطل ہو گا اگرچہ دوسری چیز وزنی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ لوہے یا تانبے وغیرہ کو کو سونے یا چاندی کے بدلے بیچنا۔ " مبدع " میں کہتے ہیں: اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ شارع نے بیع سلم میں اس کی اجازت دی ہے اس کے راس المال میں اصل یہ ہے دونوں نقد ہوں پس اگر اس نساء یعنی تاخیر کو حرام کر دیا جائے تو غالبا موزونات (وزن کرنے والی چیزوں ) میں بیع سلم ختم ہو جائے گی ۔ اور رائج سکّوں کو نقد حالی کے ساتھ تبدیل کروانے میں نساء یعنی تاخیر جائز ہے اور اسی کو شیخ وغیرہ جیسے ابن عقیل نے اختیار کیا ہے اور شیخ نے " الرعایۃ " میں رویت ذکر کی ہے کہ اگر ہم اسے کہیں کہ یہ عرض ہے تو جائز ہے ورنہ نہیں لیکن یہ " التنقیح " کی اس شرط کے خلاف ہے اور مروجہ سکوں کو تبدیل کروانے میں باہمی قبضہ اور حلول یعنی عوضین کی موجودگی کو شرط قرار دیا گیا ہے اور یہی بات " المبدع" میں بیان کی گئی اور اسے " الانصاف " میں اس کا ذکر کرتے ہوے فرماتے ہیں: ہمارے مذہب میں یہی صحیح قول ہے اور یہی اکثر علماء کی رائے ہے اور اسی پر نص قائم کی ہے اور اسے" محرر، فروع، رعاتین والحایتین،اور الفائق " میں بیان کیا ہے اور" المنتھی " میں اسی پر تاکید کی گئی ہے۔([3])

امام دسوقی فرماتے ہیں: مروجہ الْفُلُوسِ السَّحَاتِيتِ کو الْفُلُوسِ الدِّيوَانِيَّةِ کے عوض تبدیل کرانے میں معتمد علیہ بات یہی ہے فلوس یعنی کرنسی ربوی نہیں ہوتے پس اگر عدد دونوں مساوی ہیں ہم اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ اگر ہر ایک کا عدد مجہول ہو اور کسی ایک اتنی زیادتی ہو کہ جس سے " بیع مزابنۃ " ثابت نہ ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں اور اگر ربوی کرنسی ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی جب تک دونوں وزن یا عدد میں برابر نہ ہوں۔([4])

اگر یہ اعراض کیا جائے کہ کچھ اہل علم اسے جائز نہیں سمجھتے اور وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ قبضے کے بغیر مال کے بدلے مال کی بیع ہے اور احادیث مبارکہ میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: " سونے کو سونے کے عوض نہ بیچو مگر برابر برابر اور چاندی کو چاندی کے بدلے نہ فروخت کرو مگر برابر برابر اور سونے کو چاندی کے عوض اور چاندی کو سونے کے بدلے جیسے چاہو بیچ سکتے ہو "([5])

جواب: یہ اعتراض اپنی حقیقت میں صحیح ہے لیکن یہ اس مسئلہ پر وارد نہیں ہو سکتا ان میں فرق یہ ہے ان علماء کے اس قول کو سونے چاندی پر محمول کیا جائے گا اور جو ان کے علاوہ دوسری کرانسیز ہیں ان کا معاملہ سونے چاندی جیسا نہیں ہے ان باقی کرنسیز پر قدیم فقہاء عظام نے لفظ " الفلوس "کا اطلاق کیا ہے۔

امام سیوطیؒ فرماتے ہیں: صحیح مذہب کے مطابق "فلوس " پیسوں میں کوئی ربا ( سود ) نہیں ہوتا اگرچہ یہ بطور نقود رواج پا جائیں۔([6])

مذکور دلائل سے ثابت ہوا کہ معدنی کرنسی کو کاغذی کرنسی میں اور اس کے برعکس تبدیل کرانا شرعا جائز ہے، اسے ربا شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ جنس ثمنیت سے خارج ہیں۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔



[1] اسنی المطالب شرح روض الطالب 2/22 ط دار الکتاب الاسلامی

[2] مغنی المحتاج شرح منھاج الطالبین 2/25 ط دار الفکر

[3] کشاف القناع 3/264 ط۔ دارلفکر
[4] حاشیۃ الدسوقی علی شرح  الکبیر3/61 ط۔ دار الفکر
[5] متفق علیہ
[6] الاشباہ والنظائر ص 370
Share this:

Related Fatwas