أهل السنة والجماعة سے مراد

Egypt's Dar Al-Ifta

أهل السنة والجماعة سے مراد

Question

أهل السنة والجماعة کی جامع اور مانع تعریف کیا ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد ! اہل سنت والجماعت کی اصطلاح اعتقادی بدعتوں والے اصحاب کے مقابل استعمال ہوتی ہے، اس لفظ کا اس معنی میں استعمال قدیم ہے، جو کہ عصر اول کی طرف راجع ہے؛ کیونکہ اس کا ذکر بعض مرفوع اور موقوف احادیث میں آیا ہے؛ امام خطیب رحمہ اللہ نے '' رواۃ المالک '' میں تخریج کیا ہےاور امام دیلمی رحمہ اللہ نے ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کیا ہے، آپ رضی اللہ تعالی عنھما نے اللہ تعالی کے فرمان: ﴿ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ﴾ ([1]) کے متعلق نبی اکرم سےروایت کیا ہے: تَبْيَضُّ وُجُوه أَهْلِ السُّنَّةِ وَتَسْوَدُّ وُجُوه أهْلِ الْبِدَعِ'' یعنی اہل سنت کے چہرے سفید ہوجائیں گے اور اہل بدعت کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ابو نصر سجزی رحمہ اللہ نے  "الإبانة" میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ﴿ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ﴾ پڑھا اور فرمایا: اہل جماعات کے چہرے سفید ہونگے اور اہل بدعت اور خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہونگے۔([2])

امام آجری رحمہ اللہ نے "الشريعةمیں سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنھما سے اسی آیت کریمہ کے بارے میں روایت کیا اور فرماتے ہیں: جن کے چہرے سفید ہونگے وہ اہل سنت والجماعت والے ہونگے، اور جن کے چہرے سیاہ ہونگے وہ اہل بدع اور خواہشات کے پیروکار ہونگے۔

پھر جب علماء کرام کی جماعت نے اسلاف کے عقائد کی وضاحت کرکے انہیں مستحکم کیا اور اس میں شرح وبسط کے ساتھ کلام کیا اور دلائل اور براہین کے ساتھ ان عقائد کی نصرت اور حمایت کی, اور ملحدین وغیرہ کا رد کیا اور وہ مذہب پسند کیا جو جمہور علماۓ اسلام کے ذریعے سے ان تک پہنچا اور اسے پوری تاریخ میں شریعت مطہرہ نے ہمارے زمانے تک نقل کیا، اس پر انہوں نے اپنے اسلاف کی پیروی کی، اور ان کا مسلک اختیار کیا، ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا، تو اس طرح یہ مسلمانوں کا سواد اعظم بن گیا؛ امام حاکم نے سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنھما  سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوادِ اعظم کی پیروی کرو اور جو اس سے خارج ہوا وہ آگ میں گیا۔ تو اہل سنت والجماعت اہل بدعت اور اہل انحراف کے مقابلے میں اسلاف اور ان کے متبعین کا نام ہے۔

اہل جماعت اہل سنت کی صفت ہے اور ان کی یہ صفت ہونے کا سبب یہ ہے جیسا کہ امام عبد القاہر بغدادی رحمہ اللہ نے '' الفرق بین الفِرق '' میں بیان فرمایا ہے: یہ لوگ ایک دوسرے کو کافر قرار نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے درمیان ایسی نوعیت کی مخالفت ہوتی ہے جس سے " تبری " یعنی ایک دوسرے سے دستبرداری اور تکفیر لازم آتی ہو؛ اس لئے یہی لوگ اہل سنت والجماعت ہیں جو کہ حق پر قائم ہیں اور اللہ تعالی حق اور اہل حق کی حفاظت فرماتا ہے اور وہ باہمی اختلاف کو دشمنی نہیں بننے دیتے۔ اور دوسری طرف ان کے مخالفین میں سے کوئی ایسا فرقہ نہیں ہے جس میں لوگ ایک دوسے کو کافر نہ کہتے ہوں اور ایک دوسرے سے دست بردار نہ ہوتے ہوں؛ جیسے خوارج، رافضی اور قدریہ کے فرقے ہیں، یہاں تک کہ اگر ان میں سے سات آدمی بھی ایک مجلس میں بیٹھے ہوں تو ایک دوسرے کو کافر بنا کر ہی اٹھتے ہیں۔([3])

امام ابنِ سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جان لو! تمام اہل سنت کا واجب، جائز اور مستحیل ہونے میں ایک ہی عقیدے پر اتفاق ہے، اگرچہ اس نتیجے تک پہنچنے والے ذرائع مخلتف ہوں---------- اور یہ اہل سنت تین گروہوں پر مشتمل ہے:

1- اہل حدیث۔ ان کے معتمد علیہ اصول سماعی دلائل ہیں؛ یعنی کتاب وسنت اور اجماع؛

2-  اہل نظر وفکر۔ ان سے مراد اشاعرہ اور احناف ہیں۔ اشاعرہ کے امام ابو الحسن اشعری ہیں اور احناف کے امام ابو منصور ماتریدی ہیں۔احناف اور ماتریدی بنیادی اصولوں میں ہر اس مطلب پر متفق ہیں جن پر '' السمع '' موقوف ہے۔ اور سماعی اصولوں پر بھی متفق ہیں جن میں عقل جواز کا ادراک کرتی ہے، اور سماعی و عقلی وغیرہ کے اصولوں پر بھی متفق ہیں، وہ مسئلہ تکوین و تقلید کے علاوہ تمام اعتقادی مطالب پر ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہیں۔

3- اہل وجدان اور کشف: یہ اہل تصوف لوگ ہیں ان کے مبادیات ابتداء اہل نظر وفکر اوراہل حدیث کے اصول ہی ہیں اور انتہاء کشف اور الہام ہیں۔ ([4])

امام سفارینی حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت الجماعت کے تین فرقے ہیں:

اثریہ- ان کے امام، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ ہیں
اشعریہ- ان کے امام ابو الحسن اشعری ہیں۔
ماتریدیہ- ان کے امام ابو منصور ماتریدی ہیں
اور گمراہ فرقے بہت زیادہ ہیں۔ ([5])
 

امام مرتضی زبیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب مطلقا اہلِ سنت والجماعت کہا جائے تو اس سے مراد اشاعرہ اور ماتریدیہ ہوتے ہیں۔([6])

امام ابنِ عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (قوله -أي: الحصكفي-: عن معتقدنا) فروعی مسائل کے علاوہ میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مکلف پر بغیر کسی کی تقلید کےوہی عقیدہ  واجب ہے، جو اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے ، اور اہل سنت والجماعت اشاعرہ اور ماتریدیہ ہیں یہ دونوں گروہ چند چھوٹے مسائل کے علاوہ دیگر تمام مسائل میں متفق ہیں، جن چند مسائل میں اختلاف ہے وہ بھی لفظی اختلاف ہے۔([7])

امام ابو الحسن اشعری چوتھی صدی ہجری کی پہلی تہائی میں فوت ہوئے یہ ان آئمہ اسلام میں سے ایک ہیں جنہوں نے عقائد اسلامیہ کو راسخ کیا اور انہیں مستحکم کیا، اور بدعتی فرقوں کو جوابات دیے۔ تو علمی دنیا اور اسلامی جامعات میں یہ طریقہ  عقائد کے استحکام میں معتمد علیہ طریقہ بن گیا۔ جیسے مصر کے اندر جامعۃ الازہر میں، تیونس کے اندر جامعۃ زیتونۃ میں اور مراکش کے اندر جامعۃ قرویین میں، اور ان کے علاوہ شام اور عراق کے شرعی مدارس میں اور دیگر ممالک کی درس گاہوں یہ طریقہ معتمد علیہ قرار پایا۔

بہت سے آئمہ کرام نے آپ کے اوصاف اور آپ کے منہج اور طریقۂ کار کے بہترین ہونے کی صراحت کی ہے۔جیسے قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آپ نے اہل سنت کیلئے بہت سی کتب تصنیف کیں، سنت کے اثبات پر دلائل قائم کئے، اللہ تعالی کے اوصاف رؤیت باری تعالی اس کے کلام کے قدیم ہونے، اس کی قدرت سماعی امور جیسے صراط، میزان، شفاعت،حوض اور قبر کی آزمائش جن کا معتزلہ وغیرہ انکار کرتے ہیں، کے متعلق اہل بدعت کی باتوں کی نفی کی۔ پس آپ نے ان کے خلاف کتاب وسنت سے براہین اور عقلی دلائل دیے اور اہل بدعت اور ان کے بعد آنے والے رافضی اور ملحدین کے شبہات سے عقائد اسلامیہ کا دفاع کیا۔ اس ضمن میں آپ نے ضخیم کتب تصنیف کیں اللہ تعالی نے جنہیں مسلمانوں کیلئے باعث نفع بنا دیا۔ اسکے علاوہ آپ نے معتزلہ سے مناظرے بھی کیے اور ان سے مناظرے کیلئے آپ خود ان کے پاس جایا کرتے تھے۔۔۔۔ پھر فرمایا جب آپ کی کتب کافی ہو گئیں اور آپ کا کلام بھی مفید ثابت ہوا ، تو اس دوران اہل حدیث اور اہل فقہ نے جب دیکھا کہ کس قدر آپ نے سنت اور دین کا دفاع کیا ہے تو اہل سنت آپ کی کتب سے وابستہ ہو گئے،آپ سے اخذِ فیض کیا،آپ سے پڑھا آپ کے طریقے کو سمجھا، تو اس طرح آپ کے پیروکاروں اور دفاعِ سنت کے لئے اس منہج کوسیکھنے اور ملت اسلامیہ میں یہ دلائل و براہین عام کرنے کیلئے آپ کے طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ تو آپ کے کی نسبت سے ان طلباء کے نام پڑ گئے پھر طلباء اور پیروکار آتے گئے اور اسی نام یعنی اشاعرہ سے معروف ہوتے گئے اس سے پہلے یہ  ''مثبتہ '' کے نام سے مشہور تھے ''مثبتہ '' اہل بدعت نے انہیں نام دیا تھا کیونکہ یہ لوگ قرآن و سنت سے ان چیزوں کو ثابت کیا کرتے تھے جن کی معتزلہ نفی کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ پھر آپ نے فرمایا: مشرق و مغرب میں اہلِ سنت آپ ہی کی دلائل سے حجت پکڑتے ہیں اور آپ کے ہی منہج پر چلتے ہیں۔ بہت سے علماء عظام نے آپ کی خدمات کی تعریف کی اور آپ کے منہج کو سراہا ہے۔([8])

امام تاج الدین سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے کوئی نئی رائے یا نیا مذہب ایجاد نہیں کیا، بلکہ اسلاف کے مذاہب کو ہی مستحکم کیا ہے اور اصحابِ رسول اللہ ﷺ کے مذہب کا ہی دفاع کیا ہے۔ اور وہ نسبت جو آپ کی طرف کی گئی ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ آپ نے طریقِ اسلاف کو ایک دائرۂ کار میں رکھا اور اسی کو تھاما ہے اور اسی پر دلائل اور براہیں کے انبار لگائے ہیں۔ تو اس منہج میں آپ مقتدیٰ اور امام بن گئے اورجو آپ کے منہج پر چلتا ہے اس اشعری کہتے ہیں۔([9])

امام مایرقی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ پہلے امام نہیں جو اہل سنت کی زبان بولتے ہیں، بلکہ آپ اپنے سے پہلے آئمہ کے طریقہ کار پر چلے ہیں اور معروف مذہب کی حمایت کی ہے، اور اس مذہب کے دلائل و براہین اور اس کے بیان میں اضافہ کیا۔ کوئی خود ساختہ گفتگو ایجاد نہیں کی، نہ ہی الگ سے کوئی مذہب ایجاد کیا ہے؛ بلکہ جیسے اہل مدینہ کا مذہب امام مالک رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے اور جو آپ کا پیروکار ہو گا مالکی کہلائے گا؛ اور اسی طرح امام مالک بھی اپنے اسلاف کے طریقِ کار پر چلتے تھے۔ اور انہی کی اتباع کیا کرتے تھے مگر جب آپ کا مذہب پھیل گیا تو آپ کی طرف ہی منسوب ہوگیا ۔ اسی طرح امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا معاملہ ہے؛ اسلاف کے مذہب کی سب سے زیادہ شرح وبسط آپ نے کی اور اس کے دفاع اور حمایت میں کتب تصنیف کیں۔([10])

شیخ الاسلام عزالدین بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: احناف، شافعی، مالکی اور حنبلی سب کے سب اللہ تعالی کے فضل سے عقائد میں ایک ہیں اور وہ ہےعقیدۂ اہل سنت والجماعت۔ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے طریقے سے اللہ تعالی کو مانتے ہیں؛ اس طریق سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا سوائے چند ایک احناف اور شوافع کے، جو معتزلہ سے مل گئے تھے اور چند ایک حنابلہ  جو اہل تجسیم سے مل گئے تھے۔ اور مالکیہ کو اللہ تعالی نے بچائے رکھا؛ ہم نے کسی مالکیہ کو اشعری مذہب کے علاوہ  کوئی مذہب اپنائے ہوئے نہیں دیکھا۔ اور ابو جعفر طحاوی کا عقیدہ بھی اس عقیدے کو شامل ہے جسے علماء نے قبول کیا ہے اور اسے بطور عقیدہ تسلیم کیا۔([11])

امام ابو اسحاق شیرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امام ابو الحسن اشعری اہل سنت والجماعت کے امام ہیں، اکثر اصحابِ شافعی نے آپ کا مذہب ہی اختیار کیا ہے، اور آپ کا مذہب ہی اہل حق کا مذہب ہے۔([12])

ان تمام دلائل کی بناء پر ثابت ہوا کہ اہل سنت والجماعت کی اصطلاح آپ کے اور امام ابو منصور ماتریدی کے پیروکاروں کی علامت ہے تو جب یہ اصطلاح  اہل علم کی کتب میں استعمال کی جاتی ہے تو ذہن انہی لوگوں طرف ہی جاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى اعلم۔

 

 


[1][آل عمران: 106]

[2]الدر المنثور" للسيوطي (2/ 291، ط. دار الفكر

[3]"الفَرْق بين الفِرَق" (ص361، ط. المدني)

[4]"إتحاف السادة المتقين" للزبيدي (2/ 6-7، ط. مؤسسة التاريخ العربي بلبنان)

[5]"لوامع الأنوار البهية" (1/ 73، ط. مؤسسة الخافقين)

[6]"شرح الإحياء" (2/ 6)

[7]"حاشيته رد المحتار على الدر المختار" (1/ 48-49، ط. دار الكتب العلمية)

[8]"ترتيب المدارك" (5/ 24-25، ط. وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية بالمغرب)

[9]"طبقات الشافعية الكبرى" (3/ 365، ط. هجر)

[10]"طبقات الشافعية الكبرى" (3/ 367)

[11]"معيد النعم ومبيد النقم" (ص75، ط. الخانجي)

[12] "طبقات الشافعية الكبرى" (3/ 367) 

Share this:

Related Fatwas