سلام اور تکبیراتِ انتقال جہرا کہنا

Egypt's Dar Al-Ifta

سلام اور تکبیراتِ انتقال جہرا کہنا

Question

امام، مقتدی اور منفرد نمازی کیلئے سلام اور تکبیراتِ انتقال جہرا کہنے کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

 
 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ اما بعد! امام کیلئے جہرا سلام کہنا سنت ہے اور اگر جماعت بڑی ہو اور امام کی آواز سب لوگوں تک نہ پہنچ رہی ہو تو امام کی طرف سے آواز پہنچانے والے (مکبر) کیلئے بھی جہرا سلام اور تکبیرات کہنا سنت ہے، ان دونوں کے علاوہ کسی کیلئے بھی جہرا سلام اور تکبیراتِ انتقال کہنا مستحب نہیں ہے؛ چاہے مقتدی ہو یا منفرد نماز ادا کرنے والا ہو۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مقتدیوں کو سنانے کیلئے تکبیر تحریمہ اور تکبیراتِ انتقالات جہرا کہنا امام کیلئے مستحب ہے تاکہ انہیں امام کی نماز کے صحیح ہونے کے بارے میں پتا چل سکے، اور اگر مسجد بڑی ہو اور تمام نمازیوں تک امام کی آواز نہ پہنچ رہی ہو، یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے اس کی آواز کمزور ہو یا ویسے ہی اس کی آواز تھوڑی ہو تو نمازیوں میں سے حسبِ ضرورت کچھ لوگ اس کی طرف سے تکبیر آگے پہنچائیں؛ کیونکہ حدیثِ صحیح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مرض کی حالت میں لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کو تکبیر سناتے تھے۔( رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ مِنْ رِوَايَةِ عَائِشَةَ) اور غیرِ امام کیلئے سنت ہے کہ وہ آہستہ تکبیر کہے چاہے مقتدی ہو یا اکیلے نماز ادا کرنیوالا ہو، آستگی کی ادنی مقدار یہ ہے کہ نمازی خود اس کو سن سکے اگر کی سماعت صحیح اور اگر صحیح نہ ہو تو اتنی بلند کر سکتا ہے کہ خود سن لے، اس سے زیادہ بلند کرنا صحیح نہیں گا۔([1])

 

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 


[1]"المجموع شرح المهذب" 3/ 295، ط. دار الفكر 

Share this:

Related Fatwas