وباء کو دور کرنے کی غرض سے اجتماعی ...

Egypt's Dar Al-Ifta

وباء کو دور کرنے کی غرض سے اجتماعی دعاء کیلئے نکنا

Question

وبائی حالات میں لوگوں کا اجتماعی دعا و استغفار کے لئے اجتماع کی شکل میں اس خیال سے نکلنے کا کیا حکم ہے کہ دعا بلاء کو دور کر دیتی ہے؟ 

Answer

از پروفیسر ڈاکٹر/ شوقی ابراھیم علام مفتی دیار مصر العربیہ
الحمد لله والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله وعلى آله وصحبة ومن والاه، وبعد: اسلام میں دعا کا بہت بڑا مرتبہ ہے، اور یہ افضل ترین عبادات میں سے ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی کیلئے عاجزی اور انکساری کی جاتی ہے اور انسان اس کے در کا سائل بن جاتا ہے لہذا اللہ کریم نے ہمیں دوا کے ساتھ ساتھ دعاء کرنے کی ہدایت بھی فرمائی، اور اپنی محکم آیات میں ہمیں اس کی ترغیب فرمائی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: " اور (اے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں "( سورۃ البقرة آیت نمبر 186)

وہ آیات جن میں پریشانی اور مشکل کے اوقات میں دعا کا فرمایا گیا ان میں سے ایک یہ بھی ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " ترجمہ:
" بھلا کون بےقرار کی التجا قبول کرتا ہے جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اسکی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ (ہر گز نہیں) مگر تم غور بہت کم کرتے ہو "۔ (سورۃ النمل
آیت نمبر 62)

اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے متنبہ کیا ہے کہ وہی(معبود برحق) ہے جسے مصیبتوں کے وقت پکارا جاتا ہے اور آفات کے وقت اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے؛ جیسا کہ فرمایا:
ترجمہ: " اور جب تم کو دریا میں تکلیف پہنچتی ہے (یعنی ڈوبنے کا خوف ہوتا ہے) تو جن کو تم پکارا کرتے ہو سب گم ہوجاتے ہیں اس (پروردگار) کے سوا ". (سورۃ الإسراء، آیت نمبر 67)
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
ترجمہ: " جب تم کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کے آگے گڑگڑاتے ہو "۔ (سورۃ النحل، آیت نمبر 53)

اور اسی طرح احادیث نبویہ میں بھی دعا کی افضلیت بیان کی گئی ہے؛ صحیح حدیث میں ہے جسے امام ترمذی اور دیگر آئمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللّہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: «دعا عبادت ہی ہے» پھر یہ آیت مبارکہ پڑھی : ترجمہ: " اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے "۔ (سورۃ غافر، آیت نمبر 60)

امام ترمذی نے اپنی سنن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ مکرم کوئی چیز نہیں " ۔

اور دعا اللہ تعالیٰ کے غضب کو روکنے کا ایک ذریعہ ہے، پس امام ترمذی اپنی سنن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور اسے حدیثِ حسن قرار دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «جو اللہ سے مانگتا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے»؛ کیوںکہ اس سے نہ مانگنا تکبر اوراستغناء ہے اور یہ بندے کے لئے جائز نہیں ہے۔

امام ابو داؤد رحمہ اللہ اپنی سنن میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « بے شک تمہارا رب زندہ اور کریم ہے، وہ (اللہ) اپنے بندے کے ساتھ ایسا کرنے سے شرماتا ہے کہ جب وہ اللہ کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلاۓ تو اللہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے» ۔

امام ترمذی نے اپنی سنن میں روایت کیا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللہ تعالیٰ سے قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے دعا کیا کرو، اور جان لو کہ اللہ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا» ۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا معنی یہ ہے کہ «تمہیں دعا کی قبولیت کا یقین ہو» یعنی : تم اس یقین سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو کہ وہ تمہیں مایوس نہیں کرے گا اس لئے کہ وہ وسیع کرم والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اور قادر مطلق ہے۔ اور یہ یقین دعاء کرنے والے کی امید کی صداقت اور اس کی خلوص نیت پر ہے۔

بلکہ یہاں تک آیا ہے کہ دعا قضا کو بھی مٹا دیتی ہے؛ جیسا کہ امام ترمذی حضرت سلمان فارسی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قضاء کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں بدل سکتی، اور عمر میں اضافہ صرف نیک اعمال کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے ".

اس بات کی توجیہ یہ ہے کہ تقدیرِ مبرم اور تقدیرِ معلق میں فرق ہےجسے امام الطِّيبي شرح "مشكاة المصابيح" (11/ 3638، ط. نزار الباز) میں ذکر کرتے ہیں" جان رکھو نہ اللہ تعالی کی دو تقدیریں ہیں: تقدیرِ مبرم اور تقدیرِ معلق؛ تقدیرِ معلق وہ تقدیر ہے جسے اللہ تعالی نے ازل سے کسی فعل کے ساتھ معلق کر دیا ہے، جیسا کہ فرمایا: ( اگر فلان کام کیا تو ایسا ہو جاۓ گا )، تو یہ تقدیر ثابت رکھنے یا مٹا دینے کے قبیل سے ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا: ﴿يَمْحُو اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ﴾ [الرعد: 39] یعنی ”اللہ تعالی جو چاہتا مٹا دیتا ہے اور (جو چاہتا ہے) ثابت رکھتا ہے“۔
اور تقدیرِ مبرم: وہ تقدیر ہے جسے اللہ تعالی نے کسی فعل کے ساتھ معلق کیے بغیر ازل سے مقدر کر رکھا ہے، یہ ہر صورت " نافذ الوقوع " ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی صورت میں بھی تبیل نہیں ہوتی، اور یہ”المقضي عليه” اور "المقضي له " پر موقوف نہیں ہوتی کیونکہ یہ اللہ تعالی کے ” ما كان وما يكون، “ کے علم میں سے ہے اور جو اس کے معلوم کے خلاف ہو وہ محال ہے، یہ "محو واثبات " کے درپے ہونے والی والی اشیاء کے قبیل میں سے نہیں ہے؛ اللہ تعالى نے فرمایا ہے: ﴿لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ﴾ [الرعد: 41]] اهـ. یعنی: ” کوئی نہیں رد وبدل کر سکتا اس کے حکم میں “. ۔
لیکن دعا کے کچھ آداب ہیں، جن کا خیال رکھنا ضروری ہے اور یہ بھی کہ یہ خواہشات کے زیرِ اثر نہ ہو تاکہ یہ دعاء ایسی بن جاۓ جیسی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، ان آداب میں سے اہم ترین یہ بھی ہے کہ اس میں حد سے نہ بڑھا جائے؛ اور اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی اس سے منع فرمایا: ترجمہ: " لوگو ! اپنے رب سے عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں بناتا " ۔ (سورۃ الأعراف، آیت نمبر 55)

امام شوکانی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے " فتح القدیر" میں فرماتے ہیں : [التضرع : الضراعۃ سے ہے، اور اس کا مطلب ہے عاجزی اور انکساری کرنا، خشوع وخضوع کرنا اور خفیہ : یعنی: اس عاجزی اور انکساری کو پوشیدہ رکھنا؛ اس سے ریاکاری جڑ سے ختم ہو جاتی ہے اور اس چیز کا سدِباب ہوجاتا ہے جو اخلاص کے مخالف ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں اس کی علت بیان فرمائی: ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾؛ یعنی وہ لوگ کہ جس چیز کیلئے انہیں دعا کا حکم دیا گیا ہے اس کی دعاء میں اور اس کے علاوہ بھی ہر چیز میں حد سے تجاوز کرنے والےہیں ۔
پس جب کوئی انسان حکم دی ہوئی چیز میں اس حکم سے آگے گزر جائے تو وہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور دعا میں اعتداء سے مراد یہ ہے کہ داعی ایسا سوال کرے جو اس کے لئے ممکن نہ ہو؛ جیسے دنیا میں ہمیشگی کی دعاء یا اس چیز کے جاننے کی دعاء جو اس کے لئے محال ہو یا آخرت میں انبیاء کے مرتبے تک پہنچنے کی دعاء کرنا یا دعا میں بلند آواز سے چیخنا چلانا ۔
امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں " دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں؛ ان میں سے کچھ یہ ہیں:
-بلند آواز اور چیخنا۔
-انسان کا یہ دعا کرنا کہ وہ انبیاء کا رتبہ حاصل کرلے۔
- محال چیز کے حصول کی دعا کرے تو اس طرح کی صورتیں حد سے تجاوز میں آتی ہیں۔
- انسان دعا میں گناہ کا مطالبہ کرے۔
- ایسے کلمات کے ساتھ دعاء کرنا جو قرآن و حدیث میں نہ ہوں، بلکہ کافیہ اور سجع والے کلمات اختیار کرنا ہے جن کی کوئی اصل نہ ہو، اور انسان اسے اپنا شعار بنا لے اور جن کلمات کے ساتھ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دعاء کیا کرتے تھے ان کو ترک کر دے۔
پس یہ سب چیزیں دعا کی قبولیت کیلئے مانع ہیں۔

سنن ابو داؤد میں حضرت عبداللّٰہ بن معقل کی روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ کہتے دعاء کرتے ہوۓ سنا: اے اللہ جب میں جنت میں داخل ہوں تو مجھے اس کے دائیں جانب سفید محل عطا فرمانا، پس انہوں نے فرمایا: اے بیٹے ، اللہ تعالیٰ سے جنت مانگ اور آگ سے اس کی پناہ مانگ ، بے شک میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اس امت میں ایسی قوم آۓ گی جو طہارت کرنے اور دعاء کرنے میں حد سے تجاوز کرے گی).

علامہ مناوی " التیسیر بشرح الجامع الصغیر " میں فرماتے ہیں: «دعا میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں» یعنی : حد سے گزر جاتے ہیں اور وہ چیزمانگتے ہیں جو جائز نہ ہو یا دعا میں آواز بلند کرتے ہیں یا شعر جیسے کلمات سے دعا کرتے وغیرہ، وغیرہ۔

صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے حدیث مبارکہ مروی ہے آپ (ابو موسیٰ اشعری) نے روایت : (ہم کسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، کہ لوگوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا شروع کردیا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اے لوگو، اپنی آوازوں کو اپنے تک محدود رکھو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ تم تو اس اللہ جل جلالہ کو پکار رہے ہو جو خوب سننے والا ہے اور انتہائی قریب ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے).

امام نووی " شرح صحیح مسلم " میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: " اربعوا " اس معنی ہے کہ اپنے آپ پر رحم کرتے ہوۓ اپنی آوازوں کو پست رکھو؛ کیونکہ بلند آواز دور کے انسان کو مخاطب کرنے کے لئے ہوتی ہے تاکہ وہ سن لے، اور تم تو اللہ تعالیٰ کو پکار رہے ہو جو نہ تو بہرہ ہے اور نہ غائب، بلکہ وہ تو بہت زیادہ سننے والا اور قریب ہے اور وہ اپنے علم اور قدرت سے تمہارے ساتھ ہے، پس مستحب یہی ہے کہ جب بلند آواز کرنے کی حاجت نہ ہو تو آہستہ آواز میں ذکر کیا جائے؛ کیونکہ آواز کو آہستہ کرنے سے تعظیم و توقیر قائم رہتی ہے، پس اگر آواز بلند کرنے کی حاجت ہو تو بلند کی جاسکتی ہے جیسے کہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے)۔

شیخ عزالدین بن عبدالسلام " قواعد الاحکام " میں فرماتے ہیں : (آہستہ دعا مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے؛ اللہ تعالیٰ آہستہ آواز بھی ویسے ہی سنتا ہے جیسے بلند آواز، پس مناجاۃ و دعا میں آواز بلند کرنا فضول ہے اس کی کوئی حاجت نہیں)۔

ہمارے فقہاءِ عظام کا اپنے مذاہب مختلف ہونے کے باوجود یہی مؤقف ہے کہ دعا میں آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے، جیسا کہ امام اکمل الدین البابرتی الحنفی " العنایہ " میں لکھتے ہیں: (ہمارے نزدیک مستحب یہ ہے کہ دعا اور اذکار میں آواز کو پست رکھا جائے سوائے اس کے علانیہ ذکر کرنا مقصود ہو جیسے آذان ، خطبہ اور وغیرہ)۔

علامہ ابن رشد مالکی " البیان والتحصیل " میں فرماتے ہیں: (دعا میں آواز کا بلند کرنا مکروہ ہے)۔

امام النووی الشافعی " المجموع " میں فرماتے ہیں : (مستحب یہی ہے کہ دعا میں آواز کو پست رکھا جائے، اور ضرورت سے زیادہ آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے)۔

الشیخ مرعی الکرمی کی کتاب " غایۃ المنتھی " میں اور پھر اس کی شرح " مطالب أولی النھی " جو کہ امام الرحیبانی الحنبلی کی ہے میں فرماتے ہیں : ( اور اس میں آواز کو بلند کرنا مکروہ ہے) یعنی : دعا میں (نماز میں یا اس کے علاوہ)۔

پس اگر دعا میں بلند آواز اور چیخ وپکار کے ساتھ وباء، انفیکشن اور مرض کے پھیلنے کے خوف کے وقت لوگوں کے جمع ہونے کو بھی شامل کر دیں، تو اس پھر اس صورت کا منع کرنا ضروری ہو جاۓ گا؛ کیونکہ ایک مسلم شدہ شرعی قاعدہ ہے " لاضرر ولا ضرار" یعنی: کسی کو نقصان نہ دیا جائے اور نہ ہی اپنی ذات کو نقصان پہنچایا جائے “اور اس طرح کے ماحول میں لوگوں کے جمع ہونے سے انفیکشن پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے تو اس وجہ سے ایسا کرنا شرعی طور پر ممنوع ہو گا۔

اور امراض اور وباؤں کے وقت لوگوں کو جمع ہونے سے منع کرنے میں اس حدیث سے مدد لی جا سکتی ہے، جسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اور امام طبری رحمہ اللہ نے تاریخِ طبری میں تخریج کیا ہے: جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام کی سرزمین پر طاعون کی وباء آئی، تو اس وقت کے امیر امین الامۃ سیدنا عبیداللہ بن الجراح تھے، پس وہ طاعون کا شکار ہوگئے اور اس وجہ سے فوت ہوگئے، لوگوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر بنا لیا تو وہ بھی طاعون کا شکار ہوگئے ، جب وہ فوت ہوئے تو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ لشکر کے امیر بنے، اور آپ رضي الله عنه نے لوگوں کو ایک خطبہ دیا اور فرمایا: " اے لوگو، یہ بیماری جب آتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے اس لئے تم پہاڑوں میں چھپ جاؤ " پھر وہ وہاں سے نکلے اور لوگ بھی نکل گئے اور بکھر گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے اس بیماری کو دور کر دیا۔ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرو بن العاص کی یہ رائے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو قسم بخدا آپ رضي الله عنه نے اس راۓ کو بالکل بھی ناپسند نہیں کیا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب " بذل الماعون فی فضل الطاعون " میں طاعون کی وباء کے خاتمے کی خاطر دعا کے لئے جمع ہونے سے متعلق فرماتے ہیں : اور جہاں تک تعلق ہے کہ اس صورت میں بھی استسقاء کی طرح دعا کے لئے لوگوں کے جمع ہونے کی، تو یہ بدعت ہے، جو اس وقت شروع ہوئی جب 749 ھجری میں دمشق میں طاعون کی ایک بہت بڑی وباء پھیلی ، پس میں نے ”المنجی“ کے ایک جزء کو پڑھا، جو آپ نے ان لوگوں کی بات نہ ماننے کے بعد لکھا جنہوں نے لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا تاکہ وہ بلند آواز سے چیخیں چلائیں اور دعا کریں ۔۔۔اس میں آپ نے ذکر کیا کہ لوگ صحراء کی طرف نکلے جن میں شہر کے اکثر اکابر بھی تھے تاکہ دعا کریں اور استغاثہ کریں، پس اس کے بعد طاعون اور زیادہ پھیل گیا اور بہت زیادہ بڑھ گیا جبکہ ان کی ان دعاؤں سے پہلے یہ تھوڑا تھا!.
ہمارے زمانے کا ایک واقعہ ہے، جب 27 ربیع الآخر 833 ھجری میں قاھرہ میں پہلی مرتبہ طاعون کی بیماری آئی، تو اس وقت اس سے مرنے والوں کی تعداد 40 سے کم تھی، پس تین دن کے روزے رکھنے کرنے کے بعد لوگ 4جب جمادی الاولی کو صحراء کی جانب نکلے ، جیسا کہ استسقاء میں ہوتا ہے، اور جمع ہوئے، اور دعا کی اور کچھ وقت وہیں رہے پھر لوٹ آئے، تو وہ مہینہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ قاھرہ میں ہر روز مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہوگئی پھر اس سے بھی بڑھ گئی)۔

اس بناء پر ہم کہیں گے: وباء کے وقت لوگوں کا اس وباء کو دور کرنے کی غرض سے اجتماعی دعاء کرنے کیلئے اور خشوع وخضوع کرنے کیلئے اس طرح اکھٹے ہو کر نکنا کہ جس سے اس وباء کے پھیلنے کا گمان ہو تو ایسا کرنا حرام کاموں میں سے ہو گا اور یہ کام دینِ متین میں بدعت شمار ہو گا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم
 

Share this:

Related Fatwas