شعبان میں اور پیر اور جمعرات کے دن کا اٹھایا جانا
Question
شعبان کے مہینے میں اعمال کے اٹھاۓ جانے کا کیا معنی ہے؟ اور شعبان کے مہینے میں اور پیر اور جعمرات کے دن اعمال کے اٹھاۓ جانے میں کیا فرق ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ و السلام علی سيدنا رسول اللہ وعلى آله وصحبه و من والاه۔ وبعد: شعبان کے مہینے میں اور پیر اور جمعرات کے دن اعمال کے اٹھاۓ جانے کا مطلب یہ ہے کہ شعبان کے مہینے میں اجمالی طور پر اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اعمال چاہے قولی ہوں یا فعلی ہوں اور اسے اعمال کی سالانہ پیشگی کہتے ہیں، جبکہ پیر اور جمعرات کو اعمال تفصیلًا پیش کیے جاتے ہیں، اور اسے ہفتہ وار اعمال کی پیشگی کہتے ہیں۔
دونوں کا ذکر حدیثِ طیبہ میں آیا ہے؛ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنھما سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ جتنے روزے آپ شعبان کے مہینے میں رکھتے ہیں آپ کو میں نے کسی اور مہینے میں اتنے روزے رکھتے ہوۓ نہیں دیکھا، آپ ﷺ نے فرمایا: «ذلِكَ شَهْرٌ يغفل الناسُ عنه بين رجبٍ ورمضان، وهو شَهْرٌ تُرفَع فيه الأعمالُ إلى رب العالمين؛ فأُحِبُّ أن يُرفَع عملي وأنا صائمٌ» رواه النسائي. یعنی: یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ رجب اور رمضان کے درمیان غافل ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اعمال اللہ رب العالمین کی بارگاہ پیش کیے جاتے ہیں؛ میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے ہوں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے فرمایا: «تُعرَض الأعمالُ يومَ الإثنينِ والخميسِ؛ فأُحِبُّ أن يُعرَض عملي وأنا صائمٌ» رواه الترمذي. یعنی: پیر اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو روزے سے ہوں۔
امام ہروی رحمہ اللہ "مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" 4/ 1422 میں فرماتے ہیں: نبی رحمت ﷺ کے فرمان «تُعرَضُ الأعمالُ»۔۔۔ کا مطلب ہے کہ اس بڑے بادشاہ کے حضور پیر اور جمعرات کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔ یعنی بلندی درجات میں زیاتی کی چاہت کی وجہ سے۔۔۔۔امام ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ (اعمال کا پیر اور جمعرات کو پیش ہونا) ان کا شعبان میں پیش ہونے کے منافی نہیں ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «إنه شَهْرٌ تُرفَع فيه الأعمالُ، وأُحِبُّ أن يُرفَع عملي وأنا صائمٌ» (پیر اور جمعرات کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو روزے سے ہوں) کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہفتہ وار اعمال تفصیل کے ساتھ پیش کیے جاتے ہوں اور سالانہ اعمال اجمالًا پیش کیے جاتے ہوں۔ بتصرفِ قلیل۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.