متبنیٰ بنانے کا شرعی حکم

Egypt's Dar Al-Ifta

متبنیٰ بنانے کا شرعی حکم

Question

ت سال ٢٠٠٥ء مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو مندرجہ ذیل پر مشتمل ہے:

براہ کرم متبنیٰ بنانے کے بارے میں حکم شرعی بیان فرمائیں.

Answer

مذہب اسلام نے یتیم کی کفالت کرنے ، اس کی تربیت کرنے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اوراس کی مصلحتوں اور معاملات کی نگہبانی کرنے پر بڑا زور دیا ہے ، یہاں تک کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ کر دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں کی طرح ہوں گے''، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی طرف اشارہ فرمایا . اس حدیث کی روایت امام بخاری نے کی ہے ، اور امام مسلم کی روایت میں آیا ہے: '' میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا یا اس کے سوا کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں کی طرح ہوں گے''، اور اس شخص کے لئے بھی جنت واجب کر دی جو یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں شریک کر دے ، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'' جو شخص مسلمان والدین سے یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں ساتھ کر لے یہاں تک کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے تو لامحالہ اس کے لئے جنت واجب ہوگی'' ، اس حدیث کی روایت امام احمد نے کی ہے ، نیز حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :''گھروں میں سے اللہ کو وہ گھرسب سے زیادہ پسند ہے جس میں کسی یتیم کی عزت کی جاتی ہو'' ، امام طبرانی نے اس حدیث کی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مرفوعا روایت کی ہے ، اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'' بیوہ اور محتاج کے لئے کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے". اور میرا گمان ہے کہ انہوں نے فرمایا: "اور اس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو تھکتا نہیں ہے ، اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے'' یہ حدیث متفق علیہ ہے.

آدمی کا کسی دوسر ے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنانا متبنیٰ بنانا کہلاتا ہے ، اسلام نے متبنیٰ بنانے کو حرام قرار دیا ہے اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات کو باطل ٹھہرا دیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:( وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءكُمْ أَبْنَاءكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ) [سورہ احزاب : ٤ ۔ ٥]، نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا ، یہ تمہارے اپنے منہ کا کہنا ہے ، اور اللہ حق فرماتا ہے اور وہی راہ دیکھاتا ہے، انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہو ں ، تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں.

جو کسی کی کفالت کرے اس کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرے، بلکہ اگر اس کا باپ معلوم ہو تو اس کی طرف منسوب کرے ، اور اگر اس کا باپ معلوم نہ ہو تو دوست اور دینی بھائی کہہ کر پکارے. اس طرح اسلام نے لوگوں کو حقائق بدلنے سے منع کیا ، اور ورثاء کے حقوق ضائع ہونے سے یا کم ہونے سے محفوظ کر لیے ہیں ، اور غیروں کے اختلاط سے محفوظ رکھا ہے جیسے کہ متبنیٰ بنانے والے کے محارم کے یا متبنی لڑکیوں کا متبنی بنانے والے اور اس کی اولاد اور اقارب سے اختلاط سے محفوظ کر لیا ہے ، چونکہ یہ اختلاط ایک بڑا فساد ہے جسکا انجام صرف اور صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے جس نے پیدا کیا ہے اور وہی باریکیاں جاننے والا خبردار ہے.

اسلام میں جو کفالت کی ذمہ داریاں ہیں وہ بالکل وہی ذمہ داریاں ہیں جو متبنیٰ بنانے کی ہیں ليكن اسلام نے نسب کو بدلنا اور اس پر مرتب اثرات جیسى چیزوں سے منع کیا ہے.

و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.
 

Share this:

Related Fatwas