غیر مسلم ممالک میں فاسد معاملات
Question
Answer
الحمد للہ و الصلاۃ و السلام علی سیدنا رسول اللہ و آلہ و صحبہ و من والاہ ، تمام خوبیاں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں اور درود وسلام ہو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت رسول اللہ پر اور ان کے آل واصحاب اور ان کی حمایت کرنے والوں پر ۔ و بعد ۔ یہ ایک قدیم مسئلہ ہے جس کی علمائے کرام نے تصریح فرمائی ہے ، اور حنفی حضرات نے جو رائے اختیار کی ہے اس کی روشنی میں ہم بیان کرتے ہیں کہ امام ابو یوسف کو چھوڑ کر دونوں امام ، امام ابو حنیفہ اورامام محمد کی رائے یہ ہے کہ غیر مسلم ملک میں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان سود نہیں ہے ، اور اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ان کے اموال کسی طرح سے بھی حاصل کرنا جائز ہے ، اگر چہ فاسد معاملات سے ہی کیوں نہ ہو جیسے جُوا کھیلنا یا مردار بیچنا یا شراب کا کاروبار کرنا یا سود ی معاملہ کرنا وغیرہ و غیرہ ، لیکن ان کی رضا مندی شرط ہے ، امام محمد فرماتے ہیں:'' اگر مسلمان امن کے ساتھ دار الحرب میں داخل ہو جائے تو کسی بھی طریقے سے ان کے اموال حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ان کی رضا مندی سے ہو''.
ہمارا کہنا یہ ہے کہ امام محمد وغیرہ نے غیر مسلم ملک کو'' دار الحرب'' اس تقسیم کے مطابق کہا ہے جو ان ائمہ حضرات کے زمانے میں مشہور تھی اور یہاں انہی حضرات سے احکام نقل کئے جا رہے ہیں ، کیونکہ ان ائمہ کے زمانے میں سارا عالم مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار تھا ، اس لئے فقہائے کرام نے ممالک کو دار الاسلام یعنی جس میں اسلام قائم ہو اور اس کے شعائر کاا ظہار کیا جاتا ہو۔ اور دار الحرب یعنی جس میں مسلمانوں کے احکام جاری نہ ہوں ۔ میں تقسیم کیا ہے . اوراب جب کہ وہ جنگی حالت ختم ہوئی اور جو مسلمانوں کے خلا ف علانیہ لڑائی لڑی جاتی تھی نہ رہی تو علمائے اسلام کے درمیان اس بارے میں نئی تقسیم رائج ہو گئی ، اور اس تقسیم میں''مسلم ممالک'' اور ''غیرمسلم ممالک'' کا نام دیا گیا ہے ، اور جنگ کے سوا تمام صورتوں میں غیرمسلم ممالک کے احکام وہی ہیں جو دار الحرب کے ضمن میں مذکور ہیں مگر۔ الحمد للہ رب العالمین۔ اب وہ جنگ برقرار نہیں رہی ، اس لئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ ہم یہاں قدیم کتابوں سے نقل کر رہے ہیں اور احناف کا مذہب بیان کر رہے ہیں اس لئے ان کے الفاظ کو اپنے حال پر برقرار رہنے دیتے ہیں.
ا س مقام پر اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ حنفی حضرات کے یہاں دار الحرب سے مراد مطلقا دار الکفر ہے ، چاہے اس میں جنگ قائم ہو یا نہ ہو ، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ جن دلائل سے انہوں نے استدلال کیا ہے وہ عام طور پر دار الکفر پر چسپاں ہونے والے دلائل ہیں جس میں جنگ نہیں تھی ، چنانچہ وہ ہجرت سے پہلے کے شہرمکہ سے استدلال کرتے ہیں ، جس کا بیان آگے آئیگا ، اور ظاہر ہے کہ اُس عہد میں پوری دنیا میں کوئی دار الحرب تھا ہی نہیں ، پھر اس کے بعد امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:'' اگر کوئی مسلما ن امن معاہدہ کے تحت حربیوں کی طرف سفر کرے اور ان کے ساتھ ان کے ملک میں ایک سال کی مدت کے لئے ایک درہم کا دو درہموں سے تبادلہ کا معاملہ کرے ، اس کے بعد وہ ہمارے ملک میں آجائے پھر ان کی طرف سفر کرے ، یا سال کی مدت کے دوران ہی پھر ان کی طرف لوٹ جائے ، اور سال گذر جانے کے بعد درہم لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے''. اور امام سرخسی حضرت مکحول کی مرسل حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہيں'' دار الحرب میں مسلمانوں اور دار الحرب میں رہنے والوں کے درمیان سود نہیں ہے'' ، اور مکحول کی یہ مرسل روایت امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمھما اللہ کی دلیل ہے جس سے انہوں نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ مسلمان دار الحرب میں حربی کو ایک درہم دے کر دو درہم لے سکتا ہے۔ اور اسی طر ح مسلمان ان کو مردار بھی بیچ سکتا ہے اور اگر ان کے ساتھ جُوا کھیل کر یا شرطیہ مقابلہ کرکے ان کا مال حاصل کرتا ہے تو وہ مال امام ابو حنیفہ اور محمد رحمھما اللہ کے نزدیک حلال ہے''.
ان دونوں اماموں حضرت ابو حنیفہ اور حضرت محمد کا قول ہی حنفی حضرات کے نزدیک معتمد اور مفتی بہ قول ہے ، امام سرخسی مذکورہ بالا تصریح کے بعد تحریر فرماتے ہیں:'' اور ہم یعنی حنفی حضرات کی ۔ اس پر دلیل وہ روایت ہے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہے ، اس کے علاوہ وہ روایت بھی ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا:'' جاہلیت کا ہر سود معاف ہے ، اللہ عز و جل نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سب سے پہلے معاف کیا جانے والا سود عباس بن عبد االمطلب کا سود ہے''، اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کر لیا تو اسلام لانے کے بعد پھرمکہ واپس لوٹے ، اسلام لانے کے باوجود بھی سود لیا کرتے تھے ، اور ظاہر ہے کہ یہ کام حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پوشیدہ نہ تھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ عمل جائز تھا ، اور اس میں سے وہی معاف ہوا جو فتح مکہ تک وصول نہیں ہوپایا تھا ، یعنی جب مکہ فتح کے بعد دار الاسلام بن گیا . اور مرغینانی ، کمال بن ھمام ، حصکفی ، اور ابن عابدین ، ان سبھوں نے کہا ہے كہ دار الحرب میں مسلم اور حربی کے درمیان سود نہیں ہے ، پھر ان حضرات نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ مسلمان دار الحرب میں غداری کو چھوڑ کر کسی بھی طرح حربیوں کا مال لے سکتا ہے، کیونکہ غدر کرنا حرام ہے . اور حنفی حضرات کے کلام سے ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ سود کا یہ حکم دار الحرب میں لینے اور دینے دونوں کو شامل ہے ، اور کمال بن ہمام نے تصریح فرمائی ہے کہ اَئمہ احناف نے اپنے اسباق کے دوران اس بات کی قید بیان فرمائی ہے کہ دار الحرب میں حربی سے مسلمان کو سود لینا حلال ہے ، چنانچہ فرمایا: '' لیکن یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ سودی عقد کا جواز اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ صرف اس وقت جائز ہو جب کہ مسلمان کو زیادہ حاصل ہو رہا ہو ، لیکن سودی عقد کے جواز کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے ، کیونکہ اسی مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک درہم کے بدلے دو درہم مسلمان کی طرف سے ہو یا کافر کی طرف سے ، اور ظاہر ہے کہ اس کی حلت دونوں صورتوں کو عام ہے ، اور یہی معاملہ جوا میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ جوا میں کافر کے جیتنے کی صورت میں مسلمان کا مال کافر کو مل جائے ، لیکن ظاہر تو یہی ہے کہ یہ صرف اس وقت مباح ہے جب کہ مسلمان زیادہ حاصل کرے ، اور جواز کی علت میں غور کرنے سے بھی یہی بات قرین قیاس لگتی ہے ، بہرحال جواب کا اطلاق اس کے بر خلاف ہے''، یہ تحقیق ابن عابدین نے ان سے نقل کی ہے. اور ظاہر مذہب کو اختیار کرنا بھی ممکن ہے اگر اس صورت میںمسلمان کا مفاد ہو اور اگر ایسا ہو تو سود دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ، حنفی حضرات نے اس رائے پر مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے:
١۔ مکحول سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے:''دار الحرب میں دار الحرب کے باشندوں اور مسلمانوں کے درمیان سود نہیں ہے'' ، امام سرخسی نے لکھا ہے:'' اگر یہ حدیث مرسل بھی ہو تو کوئی بات نہیں کیونکہ مکحول ثقہ فقیہ ہیں ، اور ان جیسوں کی مرسل روایت بھی مقبول ہوتی ہے'' ، اور مرغینانی اور کمال بن ھمام نے بھی اسی دلیل سے استدلال کیا ہے.
٢۔ امام محمد رحمہ اللہ نے بنی قینقاع کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جلا وطن کیا تو ان لوگوں نے کہا: ہمارے قرضے ہیں جو ابھی وصول نہیں ہوئے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :''كچھ معاف کرو باقى جلدی لے لو'' ، اور جب بنی نضیر کو جلا وطن کیا تو ان لوگوں نے کہا : لوگوں کے ہاں ہمارے قرضے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' چھوڑ دو یا جلدی کرو''.
امام سرخسی نے اس دلیل کی تفصیل یوں بیان کی ہے: '' یہ تو معلوم ہے کہ اس جیسے معاملے ۔ جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں وارد ہوا ہے ۔ چھوڑ دو یا جلدی کرو ۔ مسلمانوں کے درمیان جائز نہیں ہے ، اس لئے اگر کسی کا کسی پر ایک وقت مقرر تک کا قرض ہو اور اس شرط پر کچھ معاف کر دے کہ بقیہ فورا ادا کر دے ، تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا اس امر کو عمر ، زید بن ثابت ، ابن عمر رضی اللہ عنھم نے مکروہ قرار دیا ہے، لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں اس عمل کو اس لئے جائز فرمایا تھا کہ وہ اہل حرب تھے ، اور اسی لئے ان کو جلا وطن کیا گیا ، لہذا معلوم ہوا کہ حربی اور مسلمان کے درمیان بہت سارے ایسے امور جائز ہوتے ہيں جو باہم مسلمانوں کے درمیان جائز نہیں ہوتے''.
٣۔ مکہ شریف میں رکانہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کشتی لڑنا ، مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ساتھ کُشتی کا مقابلہ کیا ، تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ہر بار کشتی میں ہرا دیا ، اور ہرانے پر اس نے اپنے ریوڑ کی ایک تہائی بکریوں کا انعام رکھا تھا ، اگر یہ عمل مکروہ ہوتا تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہ کئے ہوتے ، الغرض جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسری بار بھی اسے پچھاڑ دیا تو رکانہ نے کہا: میرے پہلو کو کسی نے زمین پر چت نہیں لٹایا ہے ، اور نہ ہی آپ نے لٹایا ہے جو مجھ سے کُشتی لڑ رہے ہو، تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بکریاں اس کو واپس کر دی. امام سرخسی کہتے ہیں:'' کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بکریاں اس کی دلجوئی کے لیے واپس کر دیں ، اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت بار مشرکوں کی دلجوئی کے لئے ایسا کیا ہے تاکہ وہ مشرف بہ اسلام ہو جائيں''. اور یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ مکہ اس وقت دار الحرب نہیں بلکہ دار الکفر تھا.
٤۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما وغیرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرما یا ہے:'' سنو! جاہلیت کی ہرچیز میرے پیروں تلے ہے ، اور جاہلیت کا سود معاف ہے ، اور سب سے پہلے سود جو میں کالعدم کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ، اب وہ سب معاف ہے''.
اس حدیث سے استدلال کی تفصیل یہ ہے: کہ عباس رضی اللہ عنہ جب غزوہء بدر میں قید کر لئے گئے اس کے بعد آپ نے اسلام قبول کر لیا ، اسلام لانے کے بعد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مکہ واپس جانے کی اجازت چاہی ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت مرحمت فرمائی ، تو وہ فتح مکہ تک مکہ میں سودی کاروبار کرتے تھے ، اور اس کا یہ عمل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوشیدہ نہیں تھا ، اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو منع نہیں کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جائز تھا ، اور دار الحرب کا وہ سود جو کالعدم کردیا گیا تھا وہ باقی ماندہ سود تھا جو ابھی وصول نہ ہوسکا تھا ، کہ فتح مکہ کا وقت آگیا اور مکہ دار الاسلام بن گیا ، اسی لئے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح کے وقت سارے سود کو کالعدم قرار دیا.
٥۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت سے پہلے قریش کے مشرکوں کے ساتھ شرط کی بازی لگائی تھی ، اور یہ واقعہ :( الم غلبت الروم۔۔۔ الآیۃ) کے نزول کے موقعے سے رونما ہوا کیونکہ قریش نے ان سے کہا: کیا تمہارا خیال ہے کہ روم غالب ہونگے؟ انہوں نے جواب میں ہاں کہا ، اس پران لوگوں نے شرط لگانے کی دعوت دی اور کہا : کیا آپ ہمارے ساتھ شرط لگا سکتے ہیں؟ تو آپ نے ہاں کہا اور راضی ہوگئے ، اور شرط لگا لئ ، اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دى ، تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:'' ان کے پاس جاؤ اور شرط میں اضافہ کر دو'' ، تو انہوں نے اس پر عمل کیا ، اور جب روم فارس پر غالب آگئے ، توحضرت ابو بکر نے شرط جیت لی ، لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عمل سے منع نہیں فرمایا ، اور یہ کام جو حضرت ابو بکر اور مشرکین مکہ کے درمیان ہوا عین جُوا تھا ، لیکن اس وقت مکہ دار الشرک تھا.
یہ محتاج بیان نہیں کہ مکہ دار الحرب بھی نہیں تھا ، کیونکہ یہ سب اصل میں جہاد کے حکم سے پہلے کی باتیں ہیں.
٦۔ اس لئے بھی جائز ہوا کہ ان کا مال مباح ہے تو مسلمان کا یہ حق ہے کہ اسے غدر کو چھوڑکر کسی بھی طرح حاصل کرے ، کیونکہ غدر کرنا حرام ہے ، اور ملحوظ رہے کہ اگر مسلمان حربیوں کے ملک پر غالب ہونگے تو ان کا مال بطور غنیمت لیں گے . اور اس تفصیل کے بعد حنفی حضرات کے مذہب کا حاصل یہ ہے کہ غیر مسلم ملک میں مسلمان اور اس ملک کے باشندوں کے درمیان فاسد معاملات جائز ہیں ، چاہے مردار کی تجارت کے ہوں یا خنزیر کے کاروبارکے ہوں یا شراب کے کاروبار کے ہوں یا جُوے کے ہوں.
حنفی حضرات کى ان تصریحات کا مطالعہ کرنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ دوسرے فقہی مذاہب میں بھی ایسے قواعد موجود ہیں جن کی روشنی میں حالات مجبوری اور آزمائشی حالات میں ان ہی اصولوں پر عمل کی اجازت ہے ، اور انہی سے حنفی حضرات کی رائے اور دیگر مذاہب کے اقوال کے درمیا ں رشتہ جوڑا جاسکتا ہے اس استفادہ اور افادہ کے چند اصول ہیں ، اور ان میں سے چند قواعد حسب ذیل ہیں:
١۔ رفع حرج کے لئے مجبوری کے وقت جواز کے قائلین کی تقلید ہو سکتی ہے:
شیخ علامہ ابراہیم بیجوری لکھتے ہيں: '' اگر کوئی مجبوری کی حالت در پیش ہو تو جواز کے قائل کی تقلید کر سکتا ہے''.
٢۔ ملامت ومذمت صرف متفق علیہ چیز کی مخالفت پر ہوگی:
امام سیوطی نے تصریح فرمائی ہے'' مختلف فیہ مسائل میں مذمت کی گنجائش نہیں ، ہاں متفق علیہ کی مخالفت پر ملامت کی جائے گی'' ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے میں فقہی مذاہب کا آپس میں اختلاف ہو تو ایک مذہب کے ماننے والوں کا دوسرے مذہب کے ماننے والوں کونشانہء ملامت بنانا درست نہیں ، کیونکہ مسئلہ مختلف فیہ ہے.
٣۔ حد حکم فقہ اور حد ورع میں فرق کرنا:
فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ورع کے مفہوم کا دائرہ حکم فقہی کے دائرے سے وسیع ترہے ، اس لئے کہ مسلمان کبھی کبھی بہت ساری مباح چیزیں ورع کی خاطر چھوڑدیتا ہے، جیسا کہ صحابہء کرام رضی اللہ عنھم کا حال تھا کہ ورع کی خاطر نوے فیصد مباح چیزیں چھوڑ دیا کرتے تھے ، اس ڈر سے کہ کہیں حرام میں نہ پڑ جائیں ، مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ حلال کو حرام کرتے تھے ، ورع تو اتنا وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ انسان کا اپنے سارے مال سے بھی دست بردار ہو جانا اس مفہوم میں شامل ہے اگر اس نیت سے دست بردار ہونا چاہتا ہو کہ کہی کوئی حرام چیز اس مال میں شامل نہ ہوئی ہو.
الغرض ہم نے حنفی حضرات کا جو مذہب بیان کیا ہے اس کی بنا پر مسلمان اور اہل دار الحرب کے درمیان ان کے ملک میں فاسد معاملات سے کمائے ہوئے مال سے حج ہو سکتا ہے ، کیونکہ یہ مال حلال ہے جیسا کہ امام سرخسی نے اس بارے میں بیان کیا ہے:'' اور اسی طرح مردار کی تجارت کرکے یا جُوا کھیل کر اور ان کے ساتھ شرط لگا کر حاصل کردہ مال بھی حلال مال ہے''. اور جب مال حلال ہو تو سارے فقہائے کرام کے نزدیک اس سے حج کرنا جائز ہے.
و اللہ سبحانہ و تعالی اعلم.