کار ہائے خیر میں غیر مسلم کا چندہ

Egypt's Dar Al-Ifta

کار ہائے خیر میں غیر مسلم کا چندہ

Question

سال ٢٠٠٦ مندرج استفتاء پر ہم مطلع ہوئے جو حسب ذیل سوال پر مشتمل ہے:

مسلمان بچوں کی کفالت ، مسجدیں تعمیر کرانے ، عوامی بہبود کے ادارے قائم کرنے ، ہسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیر كرنے اور دیگر سماجی بہبود کے کاموں کے لئے غیر مسلموں کا چندہ جائز ہے یا نا جائز؟

Answer

مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہم ساتھ رہنے کے جواز کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :( لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ) - اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور جو تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالے کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو ، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں - [سورہ ممتحنہ: ٨] ، یہ آیت ہر قسم کے انسانی تعلقات ، کفالت ، تعاون اور لین دین کو شامل ہے ، چاہے انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر ، چونکہ سنت نبوی میں آيا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے تحائف قبول فرمائے ہیں ، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: ''شہنشاہ کسری نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں تحفہ بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تحفہ قبول فرما لیا ، اور قیصر نے تحفہ بھیجا تو اس کا تحفہ بھی قبول فرما لیا ، اور دیگر بادشاہوں نے تحفے بھیجے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تحفوں کو قبول فرما یا'' . اس کی روایت احمد اور ترمذی نے کی ہے اور ترمذی نے حسن کہا ہے . اس کے علاوہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: '' دومہ کے اُکیدر نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کا جبہ تحفه ديا'' . یہ متفق علیہ ہے. اور انہی سے روایت ہے کہ: "ذی یزن کے بادشاہ نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا جوڑا تحفے میں بھیجا جس کو اس نے تینتیس اونٹوں یا تینتیس اونٹنیوں کے بدلے میں خریدا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرما لیا" . اس کی روایت ابو داود نے کی ہے. اور عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ: ''قبیلہ مالک بن حسل کی قتیلۃ بنت عبد عزیٰ بن عبد اسعد اپنی بیٹی اسماء بنت ابو بکر کے پاس تحفہ میں سوسمار(يعني گوہ) ، خشک دودھ اور گھی لےکر آئی اور وہ مشرک عورت تھی ، تو حضرت اسماء نے اس کا تحفہ لینے اور اس کو اپنے گھر میں داخل کرنے سے انکار کر دیا ، اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی(لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ -۔۔ الی آخر الآیۃ) - اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے۔۔ آخر آیت تک - [سورہ ممتحنہ: ٨] ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ اس کا تحفہ قبول کر لو اور اس کو اپنے گھر میں داخل ہونے دو'' . اس کی روایت امام احمد نے کی ہے. علمائے کرام نے غیر مسلم کا چندہ قبول کرنے کے جواز پر اس واقعہ سے بھی استدلال کیا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا تحفہ اس وقت قبول فرمایا تھا جب حضرت سلمان غیر مسلم تھے ، چنانچہ حافظ عراقی '' طرح التثریب'' میں رقمطراز ہیں: '' اس میں کافر کا تحفہ قبول کرنے کی دلیل ہے ، کیونکہ سلمان رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا ، ا نہوں نے تو اس وقت ایمان لایا جب نبوت کی ان تین نشانیوں کی مکمل تحقیق کر لی تھی جن نشانیوں کے بارے میں وہ پہلے سے معلومات رکھتے تھے. ا.ھ .
واضح رہے کہ غیر مسلموں کے چندے قبول کئے جائیں گے یہاں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کا چندہ دنیاوی مصلحتوں کے لئے ہے یا دینی مصلحتوں کے لئے ہے ، اسی رائے کو شافعی حضرات نے اختیار کیا ہے چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی دینی یا دنیوی بہبودی کے لئے غیر مسلم کا وقف کرنا جائز قرار دیا ہے ، اور انہوں نے وقف کی شرط کا اعتبار کیا ہے کہ عین وقف نیکی ہونا چاہئے اور وقف کرنے والے کے اعتقاد کا اعتبار نہیں کیا ہے ، بر خلاف مالکی حضرات کے جنہوں نے غیر مسلم کے وقف کو صرف دنیاوی منافع کے لئے صحیح قرار دیا ہے ، اور احناف نے اہل ذمہ کے وقف میں یہ شرط رکھی ہے کہ وقف ان کے نزدیک بھی اور ہمارے نزدیک بھی نیکی کا کام ہو.
مالکی دسوقی رقمطراز ہیں: "حربی اور کافر کا مسجد اور ہراس ادارے کے لئے جس سے عام دینی منفعت متعلق ہو وقف کرنا باطل ہے". اور اس کا مسجد تعمیر کرنا بھی انہیں دینی مصلحتوں میں شامل ہے ، اور کافر کی دینی نیکی باطل ہونے کی بنا پر امام مالک نے ایک نصرانی خاتون کو وہ دینار واپس کردیا تھا جو اس نے کعبہ کے لئے بھیجا تھا ، اور جہاں تک دنیاوی نیکیوں کا تعلق ہے جیسے کہ پل بنانا اور پانی کی سبیل لگانا وغیر ہ وغیرہ تو یہ صحیح ہے'' ا. ھ . (حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر٤/١٢٢).
اور ابن نجیم حنفی تحریر فرماتے ہیں: "ان کا یہ کہنا: وقف میں یہ شرط ہے کہ وہ ان کے نزدیک بھی اور ہمارے نزدیک بھی نیکی کا کام ہو- اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شرط صرف ذمی کے وقف میں ہے ، تاکہ اس قید سے وہ چیز نکل جائے جو صرف ہمارے پاس نیکی ہے جیسے کہ اس کا حج اور مسجد کے لئے وقف کرنا ، اور جو صرف ان کے ہاں نیکی ہے جیسے کہ ان کے عبادت خانے کے لئے وقف کرنا ، برخلاف مسجد قدس کے کیونکہ اس کے لئے وقف کرنا ان کے نزدیک بھی نیکی ہے اور ہمارے نزدیک بھی''ا ھ . (البحر الرائق شرح کنز الدقائق ٥/٢٠٤).
خطیب شربینی شافعی لکھتے ہیں: ''وقف کرنے والے کی شرط صرف اتنی ہے کہ اس کی عبارت صحیح ہو" اس میں کافر بھی داخل ہے ، تو ہماے اعتقاد کا اعتبار کرتے ہوئے کافر کا وقف مسجد کے لئے بھی جائز ہے اگر چہ وہ اس کو نیکی اعتبار نہیں کرتا ہے''، ا. ھ . (مغنی المحتاج٢/٥١٠).
جہاں تک ا للہ تعالی کے اس کلام: (مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَاهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ)[التوبۃ: ١٧] - مشرکوں کو نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں خود اپنے کفر کی گواہی دے کر- کا تعلق ہے تو اس آیت میں جس تعمیر سے منع کیا گیا ہے اس سے مقصود اس مسجد کی تعمیر ہے جس کی سرپرستی غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہو ، اور جس کی انتظامیہ ان کے قبضہ و اختیار میں ہو اور وہ اس میں تصرف کرتے ہوں ، یا یہ خدشہ ہو کہ کہیں وہ اس میں شرک نہ کر بیٹھیں ، کیونکہ اللہ تعالی نے دوسری آیت میں فرمایا ہے: ( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا)[الجن: ١٨] - اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی کی بندگی نہ کرو - .
اس بنا پر اور سوال کے پیش نظر: امام شافعی کے مذہب کے مطابق مسلمانوں کی دینی یا دنیاوی بہبود کے لئے غیر مسلموں کے چندے قبول کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے بشرطیکہ اس پر ایسے کوئی آثار ونتائج مرتب نہ ہوتے ہوں جو شرعی لحاظ سے نا جائز ہوں.

باقی اللہ سبحانہ و تعالی زیادہ بہتر جاننے والا ہے.
 

Share this:

Related Fatwas