مذاہب اربعہ کے درمیان اختیار

Egypt's Dar Al-Ifta

مذاہب اربعہ کے درمیان اختیار

Question

آئمہ اربعہ کے مذاہب میں سے متنوع آراء کو اختیار کرنے اور کسی مخصوص صورتِ حال میں چاروں مذہب میں سے کسی ایک مذہب کی رخصت پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟ 

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اس مسئلہ کے اندر علم حاصل کرنے اور عمل کرنے میں فرق ہے:
عمل کے لحاظ سے: عام آدمی پر ہر ہر واقعہ میں کسی مخصوص مذہب کا پابند ہونا واجب نہیں ہے۔ اسی لیے علماء کا یہ قول مشہور ہے کہ ’’عام آدمی کا کوئی فقہی مذہب نہیں ہوتا، بلکہ اس کے مفتی کا مذہب ہی اس کا مذہب ہوتا ہے‘‘ یعنی وہ مفتی جو علم وعدل میں معروف ہو۔
بلکہ حنفی فقہاءِ کرام کے نزدیک یہی قول صحیح ہے۔ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ "حاشیہ ابن عابدین" (1/75) میں علامہ شرنبلالی -رحمہ اللہ- سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کسی شخص کیلئے کسی خاص مذہب کی پابندی کرنا ضروری نہیں، اور اس کے لیے اپنے امام کے علاوہ کسی دوسرے امام (جس میں امامت کی شروط پائی جا رہی ہوں) کی تقلید میں اس عمل کے خلاف عمل کرنا جائز ہے جو اس نے پہلے اپنے مذہب کے مطابق کیا تھا، درآںحالیکہ وہ ان دو متضاد امور پر عمل دو ایسے واقعات میں کر رہا ہو جن میں سے ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، اور اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے امام کی تقلید میں کیے گئے فعل کو باطل قرار دے؛ کیونکہ یہ فعل انجام پانے کے بعد منسوخ نہیں ہو سکتا جیسے جج کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد منسوخ نہیں ہوتا۔
اور اس بات کی تائید اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کرام کی اتباع کا حکم دیا ہے مگر کسی ایک عالم دین کی تخصیص نہیں کی کہ اس کی اتباع کریں اور اس نہ کریں، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُم لا تَعْلَمُونَ﴾ [النحل: 43]. یعنی : ’’پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے‘‘ (النحل:43)۔
اور صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں سوال کرنے والے کسی مخصوص مذہب کے پابند نہیں تھے۔ بلکہ بغیر کسی ایک کی تقیید کے انہیں جو عالم دین ملتا اس سے وہ پوچھ لیتے تھے اور ان کے اس عمل کا کبھی کسی نے بھی انکار نہیں کیا اور یہ کہ مقلد جس امام کی پیروی بھی کر رہا ہوتا ہے وہ حق کی پیروی کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ تمام ائمہ کرام حق پر ہیں بایں معنی کہ ہر امام پر یہی واجب ہے کہ اپنے اجتہاد کے مطابق چلے، اور مقلد کو ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے وقت یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ باقی آئمہ غلطی پر ہیں۔
جہاں تک علم حاصل کرنے کا تعلق ہے تو درس وتدریس اور حصولِ فہم کے دائرہ کار میں مذاہب کی پیروی ناگزیر امر ہے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ چونکہ ان چاروں مذاہب فقہ کی اس قدر عظیم خدمت کی گئی ہے جو ان کے علاوہ باقی مذہب کو دستیاب نہیں ہوئی، پس ان کی نشر و اشاعت اور تدوین کا اہتمام کیا گیا اور ان مذاہب میں سے راجح قول کو جاننے اور ان کے دلائل تلاش کرنے پر بہت توجہ دی گئی اور ان کے ائمہ کرام کے تعارف لکھے گئے، جس کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک مذہب ایک ایسا مستقل مکتبِ فکر بن گیا جس کے اپنے معروف اصول اور مسطور فروعات ہیں۔ جو لوگ فقہ سیکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے حتمی طور پر لازم ہے کہ وہ بطور طالبِ علم اور پڑھنے والوں کے اور تربیت لینے والوں کی حیثیت سے ان مذاہب میں سے کسی ایک کی پیروی کریں، پس اگر طالبِ علم نے ایسا کر لیا تو اس کی ابتدا وہیں سے ہو گی جہاں سے ان آئمہ کرام رحمھم اللہ نے چھوڑا تھا۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.
 

Share this:

Related Fatwas