اللہ تعالی کی شان میں "استواء" کا معنی
Question
اللہ تعالی کے فرمان ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى﴾ [طه: 5] میں "استواء" کا کیا معنی ہے؟
Answer
مسلمانوں کے ہاں مسلّم عقائد میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی جگہ اللہ تعالیٰ کو نہیں گھیر سکتی اور نہ ہی کوئی زمانہ اللہ تعالی کو محدود کر سکتا ہے۔ کیونکہ زمان و مکان مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کوئی چیز اسے گھیر سکے، بلکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس عقیدے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ان میں سے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا اور اہل علم نے اس کا اظہار یہ کہہ کر کیا ہے: "اللہ تعالی اس وقت بھی تھا جب کوئی مکان نہیں تھا اور وہ اب بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ وہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا جس شان پر وہ تھا اس میں کوئی تغیر نہیں آیا۔ جہاں تک کتاب و سنت کی ان نصوص کا تعلق ہے جو اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے بلند ہونے پر دلالت کرتی ہیں: ان سے مراد رتبے اور عزت کی بلندی، غلبہ اور قہر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی مشابہت سے پاک ہے، اور اس کی صفات ان کی صفات کی طرح نہیں ہیں اور مخلوق کی صفات میں جو نقص ہیں خالق کی صفات میں نہیں ہو سکتے، بلکہ اس کی صفات با کمال اور اس کے نام بہت ہی خوبصورت ہیں اور ہر وہ چیز جو آپ کے ذہن سے گزر سکتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے خلاف ہے، اور اس کے ادراک سے عاجز آنا ہی اس کا ادراک ہے اور اس کی حقیقت تلاش کرنا شرک ہے"۔
یحییٰ بن معاذ رازیؒ سے پوچھا گیا: ہمیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں بتاؤ تو آپ نے فرمایا: واحد معبود ہے ۔ پوچھا گیا: وہ کیسا ہے؟ اس نے کہا: بادشاہ ہے ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پوچھا گیا: وہ کہاں ہے؟ فرمایا: تمہیں دیکھ رہا ہے۔ سائل نے کہا: میں نے آپ سے یہ تو نہیں پوچھا؟ اس نے کہا: اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ مخلوق کی خصوصیت ہے، اس کی صفت وہی ہے جو میں نے بتا دی ہے۔