احادیثِ فتن کا واقع پر اطلاق کرنے ک...

Egypt's Dar Al-Ifta

احادیثِ فتن کا واقع پر اطلاق کرنے کے ضوابط۔

Question

آخر زمانہ کے متعلق احادیث کی نسبت ایک مسلمان پر کیا واجب ہے اور کیسے اصحابِ تکفیر نے ان کی تشریح اور اطلاق کرنے کی جرأت کی؟

Answer

آخری زمانے سے متعلقہ احادیث  پر غور کرنا جائز امر ہے اور اس میں پیش آنے والے واقعات پر ایمان رکھنا مسلمان کے شرعاً مطلوب عقیدے کا بنیادی حصہ ہے ، کیونکہ پر واجب ہے کہ وہ  اس غیب پر ایمان لائے جو قرآنِ مجید اور صحیح سنتِ نبویہ سے ثابت ہے۔ جہاں تک ان احادیث کو مخصوص واقعات پر منطبق کرنے کا تعلق ہے تو یہ تحقیق طلب موضوع ہے اور اس سلسلے میں جواز کی دلیل یہ ہے کہ اسلافِ امت  کی فقہ میں احادیثِ فتن  کو مخصوص واقعات پر منطبق کرنے کی مثالیں  موجود ہیں ۔

اور اس اطلاق کے کئی ضوابط ہیں، جیسے: حدیث کا اطلاق واقعہ کے بعد کیا جائے اس سے پہلے نہیں، یہ  ضابطہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے عمل میں واضح اور ظاہر ہے، اسی لیے خزیمہ بن ثابت نے باغی گروہ کے باغی ہونے کی تصریح  عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد ہی کی تھی، اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا نے الحجاج کی قتل و غارت گری اور مختار الثقفی کے جھوٹ کے ظہور سے پہلے ان پرکوئی حکم نہیں لگایا تھا ۔

واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی ان احادیث کا اطلاق کر دینے سے امت پر اکثر ایسی سختیاں آتی تھیں جن سے یہ امت مستغتی ہے، اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ طیبہ کی غلط تشریح کے ساتھ برائی کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے۔ اس سے بعض لوگ مہدی کے متعلق احادیث کو اپنے میں سے کسی خاص آدمی کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں، پھر وہ اس کے طرف دار ہو جاتے ہیں، اس طرح مسلمانوں کا خون بہنا شروع ہو جاتا ہے اور بلا وجہ عزتیں پامال ہونے لگتی ہیں۔

Share this:

Related Fatwas