حدیث «مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم...

Egypt's Dar Al-Ifta

حدیث «مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے» کا مطلب

Question

بہت سے انتہا پسند، لوگوں پر ظلم کرنے کیلئے حدیث «مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے» کا سہارا لیتے ہیں کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اس کامعنی کیا ہے؟

Answer

یہ متفق علیہ حدیث ہے اور اس کی بہت سی اسانید ہیں۔ یقیناً لفظ "الناس" سے مراد تمام لوگ نہیں ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ معاہد اور ذمی اس حدیث سے خارج ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: "جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں سونگھ پاۓ گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے آتی ہے۔" روایتِ امام بخاری ۔

لیکن جو لوگ ہمارے خلاف جارحیت اور جنگ شروع کریں، اللہ تعالی نے ہمیں ان کی جارحیت اور ظلم وزیادتی روکنے کا حکم فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو‘‘ (البقرہ: 190) اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ "مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے" یعنی:ان لوگوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی کرتے ہیں، پس آپ ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے اور حکم دینے والا اللہ تعالیٰ ہے، اور اس پر یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے: "مجھے مشرکوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے"۔

جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ہم سے جنگ نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کریں۔ اللہ تعالی کا ارشادِ گرامی ہے: اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑتے اور نہ انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الممتحنہ:8) پس جو لوگ ہم سے جنگ نہیں کرتے ہم ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف  کرتے ہیں اور چھیڑے بغیر انہیں ان کے دین پر رہنے دیتے ہیں ۔

جو شخص اس حدیث سے بیانِ مذکور کے علاوہ کوئی اور فہم اخذ کرتا ہے  وہ فتنہ پرور ہے، وہ تمام لوگوں کے قتل کا جواز پیش کرنا چاہتا ہے، یا نبی کرم ﷺ کی سنت ِطیبہ میں شکوک وشبہات پیدا کرنا چاہتا ہے۔

Share this:

Related Fatwas